ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیکورٹی خدشات‘ انتظامات اور اقدامات
سیکورٹی خدشات‘ انتظامات اور اقدامات
’’کیا ہم اپنے بچوں کو سکول بھیجیں؟‘‘ یہ وہ براہ راست سوال تھا‘ جس کا
مثبت یا منفی میں جواب دینا آسان نہیں یہی وجہ ہے کہ میرے منہ سے صرف ’ہوں
ہاں‘ ہی نکلا کیونکہ سولہ دسمبر کے روز آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سے
پشاور کے جملہ تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے جن کی اکثریت بارہ جنوری سے
معمول کے مطابق درس و تدریس کا آغاز کرنے والی ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ اُن
تعلیمی اداروں کے سر پر منڈلا رہا ہے‘ جن کے فیصلے فوج کی زیرنگرانی ہوتے
ہیں جبکہ نجی سکول بھی دھمکیوں کی زد پر ہیں‘ جن سے اطلاعات کے مطابق بھتے
کی ماہانہ رقم میں اضافے کا تقاضا کردیا گیا ہے۔ امن و امان کے حوالے سے
پشاور کی صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔ سکولوں کی حفاظت کے لئے جس قدر انتظامات
و اقدامات کئے گئے ہیں وہ کافی نہیں۔ اگر سکولوں کی عمارتوں کو محفوظ بنا
بھی لیا گیا ہے تو اُن سینکڑوں کی تعداد میں بسوں‘ سوزوکی وینز اور دیگر
گاڑیوں کی حفاظت کا کیا انتظام ہے‘ جو طالبعلموں کو ہر صبح اور بعداز دوپہر
گھروں تک پہنچاتی ہیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہاسٹل تھے‘ وہاں کی انتظامیہ
کو محض خاطرخواہ اقدامات کرنے کی درخواست سے کام نہیں چلے گا بلکہ ناگزیر
ضرورت کے تحت‘ سکولوں کی انتظامیہ کو اپنے خالص منافع سے کچھ رقم مختص کرنی
ہوگی۔ اندیشہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے اضافی افرادی قوت یا
سیکورٹی کے لئے خریدی گئی ٹیکنالوجی کا مالی بوجھ والدین کو منتقل کر دیا
جائے‘ اِس سلسلے میں صوبائی حکومت جیسے بھی چاہے اور جس ادارے سے بھی چاہے‘
اِس بات کو ممکن بنائے کہ نجی ادارے والدین سے کسی بھی مد میں اضافی چارجز
کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
والدین کی تشویش اپنی جگہ منطقی ہے جو عملی طور پر سیکورٹی اداروں کی کارکردگی اور سیکورٹی حکمت عملی میں زیادہ تبدیلیاں نہیں دیکھ رہے۔ مثال کے طور پر سب جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہو رہا ہے لیکن اہم سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کی حفاظت پر سالانہ کم و بیش تیس کروڑ (278.9 ملین) روپے خرچ ہو رہے ہیں‘ جس سے مجموعی طورپر 250 اہم شخصیات اور اُن کے اہل خانہ‘ عزیزواقارب اور رہائشگاہوں کی حفاظت ہوتی ہے! لمحۂ فکریہ ہے کہ سرکاری خزانے سے جنہیں سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے‘ اُن کی مالی حیثیت (الحمدللہ) اِس حد بہترہے کہ وہ اپنی حفاظت کا خود بھی انتظام کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں کیا جارہا تو بقول ایک پولیس نگران ’’سیاستدانوں کو اِس بات کا مزا آتا ہے کہ اُن کے اردگرد سیکورٹی اہلکار منڈلاتے رہیں۔ حفاظتی انتظامات و اقدامات اُس وقت تک کافی نہیں ہوں گے جب تک ہم دستیاب وسائل کی ازسرنو تشکیل نہ کریں۔ ہمیں سیکورٹی ترجیحات کا تعین بھی ’ازسرنو‘ کرنا ہے اور ہماری ترجیح عام آدمی بالخصوص موجودہ حالات میں تعلیمی ادارے ہونی چاہئے کیونکہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ وہ درس وتدریس کا عمل معطل رہے! تو کیا ہم اِس خوف سے اپنے تعلیمی ادارے بند رکھیں گے کہ کہیں ہم پر دوسرا ممکنہ حملہ نہ ہو جائے؟‘‘
جوں جوں تعلیمی ادارے کھلنے کی تاریخ (بارہ جنوری) قریب آ رہی ہے‘ پشاور پولیس کے اعلیٰ حکام کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے جنہیں افرادی قوت اور وسائل کی کمی کے ساتھ ایک ایسی ذہنیت کا سامنا ہے‘ جس میں اہم شخصیات اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہیں! کیا اِس سوچ اور اِس طرز عمل کو تبدیل کرنے کا وقت نہیں آ گیا؟ صوبائی محکمہ داخلہ (ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ)کی جانب سے قانون ساز صوبائی اسمبلی کو فراہم کئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 653 سیکورٹی اہلکار 273 سیاست دانوں بشمول اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر شخصیات کو سیکورٹی فراہم کرتے ہیں جس سے صوبائی خزانے سے دو کروڑ بائیس لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ خرچ ہو رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر اکرم خان درانی کی حفاظت پر 35 گارڈ تعینات ہیں‘ جن پر سالانہ کم و بیش 80 لاکھ روپے خرچ ہو رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر مولانا فضل الرحمن ہیں جنہیں 33گارڈز دیئے گئے ہیں اور ان کی حفاظت پر صوبائی حکومت ایک کروڑ روپے سالانہ خرچ کر رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی سیکورٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبرپر سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی ہیں جنہیں حفاظتی حصار فراہم کرنے پر 22 اہلکاروں تعینات ہیں اور اُن پر سالانہ 80 لاکھ روپے خرچ آ رہا ہے! اِن ’ٹاپ تھری‘ اہم شخصیات کے علاؤہ پشاور میں افغانستان اور ایران کے قونصل خانوں کو بھی سیکورٹی فراہم کی گئی ہے جو سب سے کم ہے یعنی صرف چھ چھ اہلکار غیرملکی سفارتخانوں کی حفاظت پرتعینات ہیں۔
اہم شخصیات کو فراہم کی جانے والی سیکورٹی کے حوالے سے محکمۂ داخلہ خیبرپختونخوا کی مفصل رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آئی ہے جبکہ مؤثر پولیسنگ کے لئے افرادی قوت و دیگر وسائل کی کمی کے حوالے سے متعلقہ اداروں نے الگ الگ درخواستیں حکومت کو ارسال کر رکھی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسی بھی اہم شخصیت کو تین سے پانچ سیکورٹی اہلکاروں سے زیادہ افراد فراہم نہ کئے جائیں۔ اگر انہیں اس سے زیادہ محافظوں کی ضرورت ہو تو پھر اپنے پلے سے خرچ کریں۔ محکمۂ پولیس اور محکمۂ داخلہ کے زیرنگرانی ریٹائرڈ پولیس اہلکاروں پر مشتمل ’سیکورٹی کمپنی‘ بنا کر اہلکاروں کی خدمات بناء منافع فراہم کی جاسکتی ہیں جبکہ ’سیکورٹی کے لحاظ سے پشاور جن زونز (zones) میں تقسیم کیا گیا تھا‘ اُنہیں بھی ’پشاور سیکورٹی کمپنی‘ کے تحت الگ الگ لیکن مربوط نظام سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حسب ضرورت گھروں میں سیکورٹی سسٹم نصب کئے جاسکتے ہیں جو متعلقہ تھانے اور گشت پر موجود اہلکاروں کو خودکار طریقے سے مطلع کرسکیں گے۔ اِس قسم کے انتظامات سے سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ کیا یہ بہتر وقت نہیں کہ ’سٹیزن پولیس لائزان کمیٹی‘ کو فعال کیا جائے اور تعلیمی اداروں سمیت پشاور کی حفاظتی حکمت عملی میں مقامی افراد کے نکتۂ نظر و تجاویز کو بھی شامل کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین کی تشویش اپنی جگہ منطقی ہے جو عملی طور پر سیکورٹی اداروں کی کارکردگی اور سیکورٹی حکمت عملی میں زیادہ تبدیلیاں نہیں دیکھ رہے۔ مثال کے طور پر سب جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہو رہا ہے لیکن اہم سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کی حفاظت پر سالانہ کم و بیش تیس کروڑ (278.9 ملین) روپے خرچ ہو رہے ہیں‘ جس سے مجموعی طورپر 250 اہم شخصیات اور اُن کے اہل خانہ‘ عزیزواقارب اور رہائشگاہوں کی حفاظت ہوتی ہے! لمحۂ فکریہ ہے کہ سرکاری خزانے سے جنہیں سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے‘ اُن کی مالی حیثیت (الحمدللہ) اِس حد بہترہے کہ وہ اپنی حفاظت کا خود بھی انتظام کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں کیا جارہا تو بقول ایک پولیس نگران ’’سیاستدانوں کو اِس بات کا مزا آتا ہے کہ اُن کے اردگرد سیکورٹی اہلکار منڈلاتے رہیں۔ حفاظتی انتظامات و اقدامات اُس وقت تک کافی نہیں ہوں گے جب تک ہم دستیاب وسائل کی ازسرنو تشکیل نہ کریں۔ ہمیں سیکورٹی ترجیحات کا تعین بھی ’ازسرنو‘ کرنا ہے اور ہماری ترجیح عام آدمی بالخصوص موجودہ حالات میں تعلیمی ادارے ہونی چاہئے کیونکہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ وہ درس وتدریس کا عمل معطل رہے! تو کیا ہم اِس خوف سے اپنے تعلیمی ادارے بند رکھیں گے کہ کہیں ہم پر دوسرا ممکنہ حملہ نہ ہو جائے؟‘‘
جوں جوں تعلیمی ادارے کھلنے کی تاریخ (بارہ جنوری) قریب آ رہی ہے‘ پشاور پولیس کے اعلیٰ حکام کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے جنہیں افرادی قوت اور وسائل کی کمی کے ساتھ ایک ایسی ذہنیت کا سامنا ہے‘ جس میں اہم شخصیات اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہیں! کیا اِس سوچ اور اِس طرز عمل کو تبدیل کرنے کا وقت نہیں آ گیا؟ صوبائی محکمہ داخلہ (ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ)کی جانب سے قانون ساز صوبائی اسمبلی کو فراہم کئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 653 سیکورٹی اہلکار 273 سیاست دانوں بشمول اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر شخصیات کو سیکورٹی فراہم کرتے ہیں جس سے صوبائی خزانے سے دو کروڑ بائیس لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ خرچ ہو رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر اکرم خان درانی کی حفاظت پر 35 گارڈ تعینات ہیں‘ جن پر سالانہ کم و بیش 80 لاکھ روپے خرچ ہو رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر مولانا فضل الرحمن ہیں جنہیں 33گارڈز دیئے گئے ہیں اور ان کی حفاظت پر صوبائی حکومت ایک کروڑ روپے سالانہ خرچ کر رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی سیکورٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبرپر سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی ہیں جنہیں حفاظتی حصار فراہم کرنے پر 22 اہلکاروں تعینات ہیں اور اُن پر سالانہ 80 لاکھ روپے خرچ آ رہا ہے! اِن ’ٹاپ تھری‘ اہم شخصیات کے علاؤہ پشاور میں افغانستان اور ایران کے قونصل خانوں کو بھی سیکورٹی فراہم کی گئی ہے جو سب سے کم ہے یعنی صرف چھ چھ اہلکار غیرملکی سفارتخانوں کی حفاظت پرتعینات ہیں۔
اہم شخصیات کو فراہم کی جانے والی سیکورٹی کے حوالے سے محکمۂ داخلہ خیبرپختونخوا کی مفصل رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آئی ہے جبکہ مؤثر پولیسنگ کے لئے افرادی قوت و دیگر وسائل کی کمی کے حوالے سے متعلقہ اداروں نے الگ الگ درخواستیں حکومت کو ارسال کر رکھی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسی بھی اہم شخصیت کو تین سے پانچ سیکورٹی اہلکاروں سے زیادہ افراد فراہم نہ کئے جائیں۔ اگر انہیں اس سے زیادہ محافظوں کی ضرورت ہو تو پھر اپنے پلے سے خرچ کریں۔ محکمۂ پولیس اور محکمۂ داخلہ کے زیرنگرانی ریٹائرڈ پولیس اہلکاروں پر مشتمل ’سیکورٹی کمپنی‘ بنا کر اہلکاروں کی خدمات بناء منافع فراہم کی جاسکتی ہیں جبکہ ’سیکورٹی کے لحاظ سے پشاور جن زونز (zones) میں تقسیم کیا گیا تھا‘ اُنہیں بھی ’پشاور سیکورٹی کمپنی‘ کے تحت الگ الگ لیکن مربوط نظام سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حسب ضرورت گھروں میں سیکورٹی سسٹم نصب کئے جاسکتے ہیں جو متعلقہ تھانے اور گشت پر موجود اہلکاروں کو خودکار طریقے سے مطلع کرسکیں گے۔ اِس قسم کے انتظامات سے سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ کیا یہ بہتر وقت نہیں کہ ’سٹیزن پولیس لائزان کمیٹی‘ کو فعال کیا جائے اور تعلیمی اداروں سمیت پشاور کی حفاظتی حکمت عملی میں مقامی افراد کے نکتۂ نظر و تجاویز کو بھی شامل کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment