ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شہرنامہ: کارخانو مارکیٹ
شہرنامہ: کارخانو مارکیٹ
افغانستان کے ساتھ ہوئے ’تجارتی معاہدے‘ کے تحت گھریلو و صنعتی اشیاء بشمول
الیکٹرانکس‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ کراکری‘ کپڑا‘ سگریٹ اُور اشیائے خوردونوش
سمیت ہر قسم کا سازوسامان پاکستان کے سمندری راستے درآمد کرنے کے بعد اس کی
ترسیل طورخم یا چمن بارڈر کے راستوں کی جاتی ہے تاہم افغان تاجر پشاور سے
متصل قبائلی خیبرایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل سے گزرنے والا شاہراہ براستہ
’طورخم‘ استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ دارالحکومت کابل
سے نزدیک ترین ہے اور دوسرا صوبہ بلوچستان کے چمن بارڈر کے مقابلے کم دشوار
گزار اور محفوظ ’راہداری‘ سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ حالیہ چند برس میں پاکستان
کے راستے افغان تجارت کا حجم کم ہوا ہے‘ جس کی وجہ بھارت کا افغانستان میں
اثرورسوخ اور بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کشیدگی بیان کی جاتی ہے اور
یہی وجہ ہے کہ ایران کے زمینی راستے بھی تجارت ہو رہی ہے۔ افغانستان کی
اقتصادیات پر سمندر سے دور (Locked Land) ہونے کی وجہ سے دو قسم کے دباؤ
ہیں۔ ایک تو اُسے کسی نہ کسی ملک کے راستے سازوسامان درآمد کرنا پڑتا ہے
اور دوسرا داخلی امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اقتصادی سرگرمیاں
متاثر ہوتی ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی یا غیرملکی امن افواج کے خلاف
جدوجہد کرنے والوں کی وجوہات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کابل سمیت چند
ایسے شہروں میں جہاں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج ترقیاتی کام کرنے اور
مقامی معیشت کو سہارا دینے کے لئے مالی وسائل فراہم کرتی رہی ہیں‘ وہاں
دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ’خوشحالی و مالی آسودگی‘ دکھائی دیتی ہے لیکن
سبھی افغان ڈالروں کی بارش سے مستفید نہیں ہورہے۔ افغانوں کی اکثریت غربت
کا شکار ہے اور انہیں جان و مال کی حفاظت کے لئے ’مہاجرت‘ جیسی زندگی
اختیار کرنے میں بھی عار محسوس نہیں ہوتی جس میں بسااوقات اُن سے امتیازی
سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ افغانستان کے حالات جب معمول کے مطابق تھے تب بھی
وہاں کی مقامی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ پاکستان میں اشیاء کی مانگ مدنظر
رکھتے ہوئے درآمدات کی جاتی تھیں اور پھر وہ اضافی درآمدشدہ مال غیرقانونی
طور سے نقل و حمل (اسمگلنگ) کے ذریعے پاکستان پہنچا دیا جاتا۔ یہی سبب تھا
کہ قبائلی علاقوں میں ’باڑہ مارکیٹیں‘ بن گئیں۔ یاد رہے کہ ’باڑہ‘ قبائلی
علاقے خیبرایجنسی ہی کی ایک تحصیل کا نام ہے‘ جہاں قائم ہونے والی پہلی
باقاعدہ مارکیٹ کے نام سے بعدازاں پورے ملک میں ’باڑہ مارکیٹوں‘ کا جال
پھیل گیا۔ اِس کاروبار میں قانون نافذ کرنے والوں کی دلچسپی بھی وقت گزرنے
کے ساتھ بڑھتی چلی گئی کیونکہ ایک تو افغان تاجر حد درجے کے مہمان نواز تھے
اور دوسرا وہ مہمان نوازی کرانے کے ہنر آشنا بھی تھے اور یہ وجہ تھی کہ
اسمگلنگ کا دھندا کسی ایک طبقے کے لئے منافع بخش کام نہیں رہا۔ آج بھی
پشاور سے پنجاب یا پنجاب سے متصل اضلاع کا سفر کریں‘ تو تقریباً ہر ایک
مسافر گاڑی میں کپڑا‘ الیکٹرانکس کا چھوٹا موٹا سامان اور گاڑیوں کے پرزے
وغیرہ لدے دکھائی دیں گے۔ سیکورٹی کی چیک پوسٹوں پر مسافروں کے قومی شناختی
کارڈ دیکھے جاتے ہیں‘ مسافروں کے جیبوں اور ٹوپیوں تک تو ٹٹولا جاتا ہے
لیکن چھت پر بندھے‘ سیٹیوں کے نیچے ٹھونسے اور گاڑی کی آخری نشست کی پشت
نیچے رکھا ’مشکوک سامان‘ کسی کو نظر نہیں آتا! بہرکیف افغان تاجروں نے
قبائلی علاقوں سے پشاور کے بندوبستی علاقوں کا رُخ کیا اور یہیں مستقل
دفاتر (تجارتی کمپنیاں) قائم کیں‘ یوں صنعتی علاقے سے متصل ہونے کی وجہ سے
ایک ’کارخانو مارکیٹ‘ وجود میں آئی جو تحصیل باڑہ میں قائم ہونے والی باڑہ
مارکیٹ ہی کا تسلسل تھی۔ بندوبستی علاقے میں اِس پہلی ’باڑہ مارکیٹ‘ کی
رونقیں افغان جنگ کے دوران عروج پر رہیں۔ گویا جنگ کا عرصہ ایک خاص
کاروباری طبقے کے لئے منافع بخش تھا۔ افغانستان کے لئے درآمد ہونے والا مال
صرف ’کارخانو مارکیٹ‘ہی تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ پشاور شہر کی منڈیوں سے
ہوتا ہوا‘ ملک کے کونے کونے تک پھیلتا چلا گیا اور مانگ و ذوق کے مطابق
اِس کاروبار کی ہیئت تبدیل ہوتی رہی۔ جیسا کہ موٹرگاڑیوں کے فاضل پرزہ جات‘
جنریٹرز‘ شمسی توانائی کے آلات‘ خشک بیٹریاں اور سیکورٹی میں استعمال ہونے
والے صنعتی آلات وغیرہ۔ اِس بحث میں جائے بغیر کہ افغانستان کے نام پر
درآمد ہونے والا سازوسامان پاکستان کی مارکیٹیوں میں کیسے فروخت ہونے لگا
اور اِس سے پاکستان کی صنعتوں کو اب تک کتنا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے‘
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹوں والی گاڑیوں میں ’کارخانو مارکیٹ‘
تشریف لانے اور بناء ادائیگی ’اندھا دھند اشیاء کا انتخاب (شاپنگ)‘ کرنے
والی بیگمات ایک عرصے دیکھی جاتی تھیں‘ تاہم یہ طریقہ واردات سیکورٹی خدشات
کی وجہ سے بدل چکا ہے اور اب سازوسامان حسب فہرست گھروں تک پہنچا دی جاتی
ہیں۔ آج کی ’کارخانو مارکیٹ‘ میں زیادہ تر کاروبار ’قانونی ذرائع‘ سے ہوتا
ہے۔ افغان تاجر وپاکستانی تاجروں نے الگ الگے شعبوں کا انتخاب کرکے سینکڑوں
کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جو مانگ کے مطابق سامان باقاعدہ
کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد درآمد کرتے ہیں اور زیادہ ترسامان ماضی کے
برعکس عرب ممالک کی بجائے اب چین سے درآمد کیا جا رہا ہے۔ بہرکیف اِس پورے
تجارتی منظرنامے میں کچھ ایسے ’’کمزور پہلو (کوتاہیاں)‘‘ بھی ہیں جن کا
فائدہ یقیناًدہشت گرد اُٹھاتے ہوں گے۔ مثال کے طور پر ’کارخانو مارکیٹ‘ سے
متصل قبائلی علاقہ ہے اور مرکزی شاہراہ کی بجائے مارکیٹ کی پشت سے ایسے
’چور راستے‘ ہیں جہاں ہتھ ریڑھیوں کی مدد سے سازوسامان لایا جاتا ہے۔ پھر
اِسے موٹرسائیکل اور سائیکلوں کی مدد سے جنرل بس اسٹینڈ یا پیپل منڈی منتقل
کر دیا جاتا ہے۔ کپڑا‘ چائے اور چھوٹے پیمانے پر برتن لنڈی کوتل اور باڑہ
سے آنے والی مسافر بسوں کے ذریعے ’کوہاٹی گیٹ‘ اور دیگر مقامات تک لائے
جاتے ہیں‘ جہاں سے اندرون شہر کے گوداموں میں انہیں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
گاڑیوں کے پرزہ جات کے ڈھیر خیبربازار و شعبہ بازار سے متصل بس سٹاپوں پر
دیکھے جا سکتے ہیں تو کیا یہ کھلم کھلا اسمگلنگ قانون نافذ کرنے والے
اداروں کو دکھائی نہیں دیتی؟ حقیقت حال یہ ہے کہ ’پشاور اگر ماضی میں
سیکورٹی خطرات سے دوچار تھا تو حالات جوں کے توں ہیں۔ تین اطراف میں قبائلی
علاقوں میں ’پھنسے‘ پشاور کو بدستور خطرات لاحق ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ
سولہ دسمبر دوہزارچودہ کے روز ہونے والے سانحے کے بعد بھی سیکورٹی اِداروں
نے اپنا قبلہ درست نہیں کیا۔ پشاور کو لاحق اِن سیکورٹی خطرات کی وجہ سے
اہل پشاور میں تشویش و پریشانی پائی جاتی ہے کہ جو اِنتظامیہ سڑکوں پر کھلے
عام‘ پولیس تھانوں کے سامنے سے گزرنے اور دن دیہاڑے ہونے والی ’اسمگلنگ‘
نہیں روک سکتی‘ وہ بھلا پشاور کو اَن دیکھے‘ زیادہ گہرے و پیچیدہ نوعیت کے
خطرات (سیکورٹی چینلجز)‘ منظم جرائم پیشہ گروہوں (بھتہ خوروں‘ اَغوأ کاروں)
اُور جان کی پرواہ نہ کرنے والے فدائیوں سے بھلا کیسے محفوظ رکھ پائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment