ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شہرنامہ: پیپل منڈی
شہرنامہ: پیپل منڈی
پشاور کے وسائل پر آبادی اور اِس سبب پیدا ہونے والے بہت سے مسائل کے بوجھ
میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اِضافہ ہو رہا ہے۔ شہر کے گنجان آباد رہائشی مرکز
سے پیوست ’پیپل منڈی‘ کا شمار اُن چند تجارتی مراکز میں ہوتا ہے جہاں تھوک و
پرچون کاروبار کی دکانیں اور اَجناس کے بڑے ذخیرے ایسے گوداموں میں موجود
ہیں‘ جہاں تک گاڑی نہیں جا سکتی۔ پاکستان میں اجناس کی بڑی منڈیاں صوبہ
پنجاب کے مختلف شہروں میں ہیں جہاں سے آنے والی بوریاں ٹرک اڈوں سے اندرون
منڈی گوداموں میں منتقل کی جاتی ہیں اور پھر کم و بیش دس کلومیٹر کا فاصلہ
طے کر دوبارہ اُنہیں ٹرک اڈوں پر مال پہنچایا جاتا ہے تاکہ اسے
خیبرپختونخوا کے دور دراز اضلاع تک پہنچایا جا سکے! اجناس کی فراہمی اور
دستیابی کا یہ نظام دو سو سال سے رائج ہے اور نسل درنسل اِس کاروبار سے جڑے
تاجر اتفاق کرتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے حکمت عملی تبدیل ہونی چاہئے۔
اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ دور حاضر کے جدید وسائل کا استعمال اور منڈیوں
سے اجناس سمیت دیگر ضروریات زندگی کی اندرون شہر نقل و حمل کی بجائے کوئی
دوسرا کم خرچ طریق متعارف ہونا چاہئے تاہم یہ کام تاجر یا اُن کی نمائندہ
تنظیمیں اپنے طور یا اپنے وسائل سے نہیں کرسکتیں بلکہ اِس سلسلے میں صوبائی
حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پیپل منڈی کا مسئلہ صرف ’مال برداری‘ نہیں بلکہ تجاوزات بھی ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں دکانیں اور کم از کم چھ سے آٹھ ہزار افراد کے کسی ایک مقام بیک وقت کاروبار کرنے کی وجہ سے یہ بازار ہر وقت پرہجوم رہتا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ایک تاجر جنہیں ملنے ملانے والے احترام کی وجہ سے ’امیر صاحب‘ کے لقب سے پکار رہے تھے نے کہا کہ ’’پیپل منڈی ’مارکیٹ‘ نہیں بلکہ ہزاروں افراد پر مشتمل ایک کنبے کا نام ہے‘ یہاں کاروبار کرنے والے ایک دوسرے سے سماجی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور اکثریت تو رشتے دار ہیں۔ ایک دوسرے کی غم خوشی میں شریک اور کاروباری دھوپ چھاؤں میں ساتھ دینا یہاں کی روایت ہے‘ جو شاید دیگر بازاروں میں بھی ہو لیکن اِس کا سب سے زیادہ عملی اظہار یہیں دکھائی دے گا۔ دوسری اہم بات یہاں کے دکانداروں کے مذہبی رجحانات ہیں‘ جو نماز روزے اور دیگر احکامات کی بجاآوری میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے‘ جس کی برکات تجارتی معاملات میں دیانت‘ راست گوئی کی صورت اور ہماری عملی زندگیوں میں ’بے مثل اِتحاد و اتفاق‘ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔‘‘ لیکن جب ’امیر صاحب‘ سے ’پیپل منڈی‘ کے مسائل کی بابت سوال پوچھا گیا تو اُنہوں نے ایک لمبی سانس لی‘ چند ضروری کام نمٹائے‘ قہوہ لانے کو کہا اور اپنی تشویش چھپانے کی بجائے مستقل مسکراہٹ اُتار کر سنجیدگی پہن لی۔ ’’سب سے پہلی بات تو ’امن و امان کی غیریقینی صورتحال‘ ہے‘ جس کی وجہ سے آئے روز مارکیٹیں بند رکھنا پڑتی ہیں۔ سولہ دسمبر کے پشاور سانحے کا دکھ پیپل منڈی کے دکانداروں کو بھی پہنچا۔ کئی ایک ذاتی طور پر متاثر ہوئے جس کی وجہ سے یہاں کی فضا آج نئے عیسوی سال کے پہلے دن (یکم جنوری دوہزار پندرہ) بھی سوگواررہی‘ امن کی دعاؤں کے ساتھ ہماری ’سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سے التجا ہے کہ دانشمندانہ اقدامات کئے جائیں کیونکہ اب آگ کا آلاؤ اُن کے اپنے گھروں تک جا پہنچا ہے اور اُن کے بال بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔
اِس خطے میں کابل کے بعد پشاور وہ بدقسمت شہر ہے جس نے سب سے زیادہ سانحے دیکھے ہیں لیکن اس کے باوجود بازاروں کی سیکورٹی (حفاظتی انتظامات) آپ کے سامنے ہیں۔ ہر روز کم از کم آٹھ سے دس ہزار صارفین پیپل منڈی سے استفادہ کرتے ہیں اور یہاں کے داخلی یا خارجی راستوں پر چیکنگ کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے ’تجاہل عارفانہ‘ کی وجہ سے تجاوزات عام ہیں‘ جنہیں پیپل منڈی کی نمائندہ تاجر تنظیم نے بارہا ہٹانے کی کوششیں کیں لیکن چونکہ اِس کوشش میں متعلقہ حکومتی ادارون کی مرضی شامل نہیں‘ اِس لئے کامیابی حاصل نہیں ہو پائی۔‘‘ امیر صاحب طرح مصالحہ جات کا کاروبار کرنے والا 38 سالہ امتیاز حسین بھی پیپل منڈی کے مسائل کا گہرائی سے ادراک رکھتاہے‘ اُس کے بقول ’’پیپل منڈی میں تجارت کرنے والوں کی اکثریت افغان مہاجرین پر مشتمل ہے‘ اگرچہ اِن کا تناسب اشرف روڈ کی مال منڈی یا صرافہ بازار کے مقابلے کم ہے لیکن چائنہ مارکیٹ‘ جاپان مارکیٹ اور اشرف پلازہ میں چھوٹا بڑا کاروبار اِنہی غیرملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ مارکیٹ مالکان کو صرف اپنے کرائے سے غرض ہے‘ وہ اِس بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اُن کی جائیداد کا استعمال کس مقصد سے کیا جائے گا۔ کاش ہم اپنی ذات سے ایک قدم آگے کا بھی سوچ سکتے! حکومت نے جب سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے اعلان کیا ہے‘ نہ صرف پیپل منڈی کے مقامی تاجر بلکہ اہل پشاور کی اکثریت پراُمید ہے کہ اِس سے کاروباری و رہائشی جائیدادوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی‘ ماہانہ کرائے کم ہوں گے اور کم سرمائے سے کاروبار کرنے والوں کی زندگی آسان ہوگی لیکن عجب ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلان تو کیا گیا لیکن اِس حوالے سے عملی اقدامات تاحال دیکھنے میں نہیں آئے۔
تجویز ہے کہ ہر مارکیٹ کی سطح پر‘ ہر ایک دکان کے الگ الگ کوائف جمع کئے جائیں۔ کئی دکانیں ایسی ہیں جو میونسپل کمیٹی کی ملکیت ہیں لیکن یہ جائیدادیں غیرقانونی طور پر کرائے پر دے کر مالکان گھر بیٹھے ہزاروں روپے کما رہے ہیں اور حکومت کو واجبی کرایہ یعنی چند سو روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ اِس بے قاعدگی کے سبب غیرملکیوں کے لئے پیپل منڈی میں جائیداد حاصل کرنا مشکل نہیں رہا کیونکہ وہ ’عمومی شرح‘ سے زیادہ کرائے پر دکانیں حاصل کر لیتے ہیں۔ دوسری بے قاعدگی ’قومی شناختی کارڈ‘ حاصل کرنے کی ہے۔ افغان مہاجرین نے جعلی طریقوں سے اصل ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کررکھے ہیں۔ ’نادرا‘ دفاتر میں کام کرنے والوں نے محض ذاتی منفعت کے لئے پاکستانی شہریت کو جس اَنداز میں فروخت کیا ہے‘ اس خودغرضی کی مثال کسی دوسرے ملک کے سرکاری ملازمین میں نہیں ملے گی! ضروری ہے کہ بشمول میرے ہر ’قومی شناختی کارڈ‘ کی جانچ پڑتال موقع پر کی جائے اور کوائف‘ لب و لہجہ‘ آمدنی کے ذرائع اور مشکوک خاندانی پس منظر رکھنے والوں سے مزید نرمی کا برتاؤ نہ کیا جائے۔ کیا عجب ہے کہ تاجر ہونے کی آڑ میں دہشت گردوں ہی نے ہمارے بازاروں میں ڈیرے ڈال رکھے ہوں!‘‘ چودہ برس قبل تیراہ سے پشاور آنے والے چالیس سالہ گلاب سنگھ کے لئے ’پیپل منڈی‘ کا واحد مسئلہ تجاوزات ہیں‘ اُس کا کہنا ہے کہ ’’یہ بہت بُری بات ہے‘ میں ہر روز دعا کرتاہوں کہ ہمیں تجاوزات سے نجات مل جائے۔ تاجروں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ تجاوزات کا خاتمہ خود اُنہیں کے وسیع تر مفاد میں ہے کیونکہ جب تک آمدورفت کے راستے کشادہ نہیں ہوں گے‘ مقامی گاہگ اِس مارکیٹ کا رخ نہیں کریں گے۔ پیپل منڈی میں صرف تھوک ہی کا کاروبار نہیں ہوتا بلکہ پرچون کاروبار کرنے والے چھوٹے دکاندار بھی ہیں‘ جو کاروبار کے وسیع امکانات ہونے کے باوجود تجاوزات کے سبب متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپل منڈی کا مسئلہ صرف ’مال برداری‘ نہیں بلکہ تجاوزات بھی ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں دکانیں اور کم از کم چھ سے آٹھ ہزار افراد کے کسی ایک مقام بیک وقت کاروبار کرنے کی وجہ سے یہ بازار ہر وقت پرہجوم رہتا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ایک تاجر جنہیں ملنے ملانے والے احترام کی وجہ سے ’امیر صاحب‘ کے لقب سے پکار رہے تھے نے کہا کہ ’’پیپل منڈی ’مارکیٹ‘ نہیں بلکہ ہزاروں افراد پر مشتمل ایک کنبے کا نام ہے‘ یہاں کاروبار کرنے والے ایک دوسرے سے سماجی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور اکثریت تو رشتے دار ہیں۔ ایک دوسرے کی غم خوشی میں شریک اور کاروباری دھوپ چھاؤں میں ساتھ دینا یہاں کی روایت ہے‘ جو شاید دیگر بازاروں میں بھی ہو لیکن اِس کا سب سے زیادہ عملی اظہار یہیں دکھائی دے گا۔ دوسری اہم بات یہاں کے دکانداروں کے مذہبی رجحانات ہیں‘ جو نماز روزے اور دیگر احکامات کی بجاآوری میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے‘ جس کی برکات تجارتی معاملات میں دیانت‘ راست گوئی کی صورت اور ہماری عملی زندگیوں میں ’بے مثل اِتحاد و اتفاق‘ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔‘‘ لیکن جب ’امیر صاحب‘ سے ’پیپل منڈی‘ کے مسائل کی بابت سوال پوچھا گیا تو اُنہوں نے ایک لمبی سانس لی‘ چند ضروری کام نمٹائے‘ قہوہ لانے کو کہا اور اپنی تشویش چھپانے کی بجائے مستقل مسکراہٹ اُتار کر سنجیدگی پہن لی۔ ’’سب سے پہلی بات تو ’امن و امان کی غیریقینی صورتحال‘ ہے‘ جس کی وجہ سے آئے روز مارکیٹیں بند رکھنا پڑتی ہیں۔ سولہ دسمبر کے پشاور سانحے کا دکھ پیپل منڈی کے دکانداروں کو بھی پہنچا۔ کئی ایک ذاتی طور پر متاثر ہوئے جس کی وجہ سے یہاں کی فضا آج نئے عیسوی سال کے پہلے دن (یکم جنوری دوہزار پندرہ) بھی سوگواررہی‘ امن کی دعاؤں کے ساتھ ہماری ’سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سے التجا ہے کہ دانشمندانہ اقدامات کئے جائیں کیونکہ اب آگ کا آلاؤ اُن کے اپنے گھروں تک جا پہنچا ہے اور اُن کے بال بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔
اِس خطے میں کابل کے بعد پشاور وہ بدقسمت شہر ہے جس نے سب سے زیادہ سانحے دیکھے ہیں لیکن اس کے باوجود بازاروں کی سیکورٹی (حفاظتی انتظامات) آپ کے سامنے ہیں۔ ہر روز کم از کم آٹھ سے دس ہزار صارفین پیپل منڈی سے استفادہ کرتے ہیں اور یہاں کے داخلی یا خارجی راستوں پر چیکنگ کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے ’تجاہل عارفانہ‘ کی وجہ سے تجاوزات عام ہیں‘ جنہیں پیپل منڈی کی نمائندہ تاجر تنظیم نے بارہا ہٹانے کی کوششیں کیں لیکن چونکہ اِس کوشش میں متعلقہ حکومتی ادارون کی مرضی شامل نہیں‘ اِس لئے کامیابی حاصل نہیں ہو پائی۔‘‘ امیر صاحب طرح مصالحہ جات کا کاروبار کرنے والا 38 سالہ امتیاز حسین بھی پیپل منڈی کے مسائل کا گہرائی سے ادراک رکھتاہے‘ اُس کے بقول ’’پیپل منڈی میں تجارت کرنے والوں کی اکثریت افغان مہاجرین پر مشتمل ہے‘ اگرچہ اِن کا تناسب اشرف روڈ کی مال منڈی یا صرافہ بازار کے مقابلے کم ہے لیکن چائنہ مارکیٹ‘ جاپان مارکیٹ اور اشرف پلازہ میں چھوٹا بڑا کاروبار اِنہی غیرملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ مارکیٹ مالکان کو صرف اپنے کرائے سے غرض ہے‘ وہ اِس بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اُن کی جائیداد کا استعمال کس مقصد سے کیا جائے گا۔ کاش ہم اپنی ذات سے ایک قدم آگے کا بھی سوچ سکتے! حکومت نے جب سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے اعلان کیا ہے‘ نہ صرف پیپل منڈی کے مقامی تاجر بلکہ اہل پشاور کی اکثریت پراُمید ہے کہ اِس سے کاروباری و رہائشی جائیدادوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی‘ ماہانہ کرائے کم ہوں گے اور کم سرمائے سے کاروبار کرنے والوں کی زندگی آسان ہوگی لیکن عجب ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلان تو کیا گیا لیکن اِس حوالے سے عملی اقدامات تاحال دیکھنے میں نہیں آئے۔
تجویز ہے کہ ہر مارکیٹ کی سطح پر‘ ہر ایک دکان کے الگ الگ کوائف جمع کئے جائیں۔ کئی دکانیں ایسی ہیں جو میونسپل کمیٹی کی ملکیت ہیں لیکن یہ جائیدادیں غیرقانونی طور پر کرائے پر دے کر مالکان گھر بیٹھے ہزاروں روپے کما رہے ہیں اور حکومت کو واجبی کرایہ یعنی چند سو روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ اِس بے قاعدگی کے سبب غیرملکیوں کے لئے پیپل منڈی میں جائیداد حاصل کرنا مشکل نہیں رہا کیونکہ وہ ’عمومی شرح‘ سے زیادہ کرائے پر دکانیں حاصل کر لیتے ہیں۔ دوسری بے قاعدگی ’قومی شناختی کارڈ‘ حاصل کرنے کی ہے۔ افغان مہاجرین نے جعلی طریقوں سے اصل ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کررکھے ہیں۔ ’نادرا‘ دفاتر میں کام کرنے والوں نے محض ذاتی منفعت کے لئے پاکستانی شہریت کو جس اَنداز میں فروخت کیا ہے‘ اس خودغرضی کی مثال کسی دوسرے ملک کے سرکاری ملازمین میں نہیں ملے گی! ضروری ہے کہ بشمول میرے ہر ’قومی شناختی کارڈ‘ کی جانچ پڑتال موقع پر کی جائے اور کوائف‘ لب و لہجہ‘ آمدنی کے ذرائع اور مشکوک خاندانی پس منظر رکھنے والوں سے مزید نرمی کا برتاؤ نہ کیا جائے۔ کیا عجب ہے کہ تاجر ہونے کی آڑ میں دہشت گردوں ہی نے ہمارے بازاروں میں ڈیرے ڈال رکھے ہوں!‘‘ چودہ برس قبل تیراہ سے پشاور آنے والے چالیس سالہ گلاب سنگھ کے لئے ’پیپل منڈی‘ کا واحد مسئلہ تجاوزات ہیں‘ اُس کا کہنا ہے کہ ’’یہ بہت بُری بات ہے‘ میں ہر روز دعا کرتاہوں کہ ہمیں تجاوزات سے نجات مل جائے۔ تاجروں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ تجاوزات کا خاتمہ خود اُنہیں کے وسیع تر مفاد میں ہے کیونکہ جب تک آمدورفت کے راستے کشادہ نہیں ہوں گے‘ مقامی گاہگ اِس مارکیٹ کا رخ نہیں کریں گے۔ پیپل منڈی میں صرف تھوک ہی کا کاروبار نہیں ہوتا بلکہ پرچون کاروبار کرنے والے چھوٹے دکاندار بھی ہیں‘ جو کاروبار کے وسیع امکانات ہونے کے باوجود تجاوزات کے سبب متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment