ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاریخ سے اِنصاف
تاریخ سے اِنصاف
آثار قدیمہ کے علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خبر ہے کہ ’عبدالولی خان
یونیورسٹی‘ کی زیرنگرانی کاٹلنگ کے قریب ’میاں خان گاؤں‘ میں ہونے والی
کھدائی اکتیس دسمبر (سال دو ہزار چودہ کے آخری دن) صوبائی محکمہ آثار قدیمہ
کے سپرد کر دی گئی ہے۔ ’میاں خان گاؤں‘ میں کھدائی کسی خزانے کے ہاتھ آنے
جیسی ہی ہے لیکن کیا ماضی میں ایسی ہی کھدائیوں اور خزانوں کو پا لینے کے
بعد اُن کی خاطرخواہ قدر اُور اِحترام کیا گیا؟ کیا زیرزمین دفن خزانوں کی
حفاظت ہم سے ہو سکی یا انہیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے سیاحت کے فروغ کے
لئے کوششیں کی گئیں؟ کیا ہمارے عجائب گھر بذات خود عجائب گھر نہیں جن کی
درودیواریں رونقیں دیکھنے کو ترس گئیں ہیں؟ یقیناًماضی کی تلاش معنی رکھتی
ہے لیکن جو کچھ تلاش کیا جاچکا ہے‘ اُس سے نئی نسل اور پاکستان یا خطے کے
رہنے والوں کو کتنی دلچسپی ہے جبکہ یہ دلچسپی بڑھانے کے لئے نہ تو دیگر
حکومتی اِداروں بالخصوص محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر ’مربوط کوششیں‘ کی گئیں
اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عوام الناس کی معلومات
میں اضافہ کیا گیا۔ محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر سرکاری ملازمت‘ عہدوں
اور مراعات پانے کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ بن چکے ہیں‘ دیگر سرکاری محکموں
کی طرح یہاں بھی سالانہ مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ تنخواہوں کی نذر ہو
جاتا ہے‘ محکمے میں سیاسی مداخلت جس انتہاء کو چھو رہی ہے‘ اُس کا بیان نہ
ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا لیکن ماضی میں کئی قیمتی نوادرات فیصلہ سازوں کے
ڈرائنگ رومز کی زینت بنانے سے متعلق جو افواہیں گردش کرتی رہیں ہیں‘ وہ سب
کی جھوٹ یا پوری کی پوری غلط نہیں ہوسکتیں کیونکہ ایسی بہت سی دیگر ناقابل
یقین و بیان خدمات کے عوض متعلقہ افراد کو پے در پے محکمانہ ترقیاں حتیٰ کہ
درس و تدریس کے غیرمتعلقہ شعبوں کی سربراہی سے بھی نوازہ گیا۔ ایک ایسے
معاشرے میں جہاں ’آوے کا آوہ ہی بگڑا‘ ہو‘ جہاں جنگی تربیت اور حربی امور
کے بارے میں سمجھ بوجھ و بنیادی تعلیم رکھنے والے جب سیاسی معاملات اپنے
ہاتھ میں لے لیں تو کسی کو سوال اُٹھانے کی جرأت نہ ہو‘ جہاں سیاسی حکومتیں
اتفاق رائے سے معاملات عسکری قیادت کو سپرد کردیں تو کیا عجب ہے کہ اگر
ایک ماہر آثار قدیمہ سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کر کے ’تعلیمی انقلاب‘
کا حوالہ بن جائے! حیرت کسی ایک ذات یا کردار کو نوازنے پر نہیں اُور نہ
ہی اختیارات کے بیجا استعمال سے اہلیت کی دھجیاں بکھیرنے اور منظور نظر
افراد کی قسمت و مالی حیثیت سرکاری خزانے سے بدلنے کی ہے بلکہ توجہ طلب
مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام نوادرات جو زیرزمین سینکڑوں ہزاروں برس سے دفن ہیں‘
کیا اُنہیں کھود نکالنے کے بعد اُن سے کماحقہ استفادہ ہو پائے گا؟ کیا
ہمیں کسی نئے عجائب گھر کی ضرورت پڑے گی؟ کیا موجودہ عجائب گھروں کی
ضروریات و سہولیات میں حسب ضرورت اضافہ کر دیا گیا ہے یا ان میں اِس قدر
گنجائش موجود ہے کہ وہاں نئی نوادرات کو جگہ دی جاسکے؟ خاکم بدہن‘ کہیں
ایسا تو نہیں کہ چند فٹ کھدائی کے ذریعے شاطر ذہنوں نے درجنوں منظور نظر
افراد کو بھرتی کرنے کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہو؟ کیا ہمارے آثار قدیمہ
عجائب گھروں میں یا پھر زیرزمین دفن رہنے کی صورت زیادہ محفوظ ہوتے ہیں؟
یادش بخیر پشاور شہر کے دل میں واقع ’گورگٹھڑی‘ کے مقام پر متعدد کھدائیوں کے بعد اُس مٹی تک رسائی حاصل کی گئی جسے اصطلاح میں ’virgin soil‘ کہا جاتا ہے یعنی زمین کی وہ تہہ جو کبھی زراعت کے لئے استعمال نہیں ہوئی اور اس پر آباد ہونے والی بنی نوع انسان کے بارے میں کہا جاسکے کہ انہوں نے اپنی معاشرت کا آغاز اِس مقام پر کسی خاص عہد یا معلوم انسانی تاریخ سے کیا ہو گا۔ پشاور کی پہلی اینٹ کب رکھی گئی تھی‘ اِس بارے میں ’گورگٹھڑی‘ کے مقام پرکھدائی سے علم ہوا کہ کم وبیش ڈھائی ہزار سال قبل یہ شہر آباد تھا‘ اور اِس انکشاف کو سائنسی بنیادوں ثابت بھی کیا گیا‘ جو عالمی طور پر مسلمہ اَمر ہے یقیناًماہرین آثار قدیمہ مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے پشاور کی بنیاد تک رسائی کے لئے دن رات وقف کئے لیکن کیا اگر یہی تلاش صوبائی دارالحکومت پشاور کے وسط کی بجائے کسی دور دراز علاقے میں ہو رہی ہوتی کہ جہاں رہائش اور قیام و طعام کی اس قدر سہولیات میسر نہ ہوتیں تو بھی ہمارے ماہرین ایسی ہی لگن سے کھدائی کرتے؟ اگر اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیتے ہوئے مثالیں سننے کو ملیں تو خیبرپختونخوا میں کئی ایک ایسے کھنڈرات کے بارے میں کیا کہا جائے گا‘ جنہیں ’طشت ازبام‘ کرنے کے بعد موسموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ منصوبے کے لئے مختص کی گئی رقم کا بڑا حصہ تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی تحقیق اِس قدر منافع بخش اور مراعات سے بھرپور نہیں جس قدر ہمارے ہاں ہے! پشاور میں کھدائی کئی مراحل میں ہوئی اور وجہ متعلقہ ماہرین کی طبیعت کی ناسازی نہیں تھی بلکہ مالی وسائل ختم ہوتے تو چٹکی بھر مٹی ہٹانے سے بھی ہاتھ روک لئے جاتے۔ آج تک کسی ایسے ماہر سے ملاقات نہیں ہوئی جس نے اپنی ماہانہ تنخواہ‘ مراعات و سہولیات‘ غیرملکی دوروں پر سمجھوتہ کیا ہو لیکن کئی کئی برس تک آثار قدیمہ کی کھدائی اور تلاش کا عمل رک جانے کی مثالیں ضرور موجود ہیں! پھر جب سیاسی حکومتیں ’غیراعلانیہ و مشروط بنیادوں پر‘ مالی وسائل فراہم کرتیں تو کھدائی کا کام نئے سرے سے کرنا پڑتا کیونکہ اِس دوران موسمی اثرات کی وجہ سے کھدائی کا مقام اپنی افادیت اور مزید تحقیق کے امکانات کھو چکا ہوتا۔ دنیا میں کہیں بھی تحقیق کاروں کی ایسی لگن اور جذبہ دیکھنے میں نہیں ملتا‘ جو آثار قدیمہ سے دلی و جذباتی طور پر نہیں بلکہ مالی مفادات کے لئے وابستہ ہوں۔
گورگٹھڑی کے مقام پر کھدائیوں سے حاصل ہونے والے نوادرات اِسی عمارت کے احاطے میں قائم ایک الگ عجائب گھر کی زینت بنائی گئیں لیکن پشاور کی اکثریت کو علم ہی نہیں ہوگا کہ ایسا کوئی عجائب گھر وجود بھی رکھتا ہے! حتیٰ کہ گورگٹھڑی کے سبزہ زار سے استفادہ کرنے والوں سے بھی اگر پوچھا جائے تو اُن کی اکثریت قرب و جوار کی اہمیت سے آشنا نہیں ہوگی۔ آثار قدیمہ سے دلی لگاؤ رکھنے والوں کی ’عدم دستیابی‘کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اگر نوادرات زمین میں دفن ہی رہیں تو وہ آئندہ نسلوں تک زیادہ اچھی حالت میں منتقل ہو جائیں گے لیکن اگر انہیں کھود نکالنے کے بعد خاطرخواہ حفاظت و نمائش کا اہتمام نہ ہو سکا تو بہتر یہی ہے کہ نئی مہم جوئی کی بجائے ماضی میں کی جانے والی کھدائیوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ گورگٹھڑی کو ’آرکیالوجیکل پارک‘ کا درجہ دے کر وہاں کھدائی کا وہ مقام جو کھلے آسمان تلے ’موسموں کے رحم و کرم‘ پر ہے کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ اُسے کچھ اِس انداز سے ڈھانپ دیا جائے کہ تہہ در تہہ کھدائی کے مختلف مراحل دکھائی بھی دیتے رہیں اور یہ مقام مزید شکست و ریخت سے محفوظ بھی ہو جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادش بخیر پشاور شہر کے دل میں واقع ’گورگٹھڑی‘ کے مقام پر متعدد کھدائیوں کے بعد اُس مٹی تک رسائی حاصل کی گئی جسے اصطلاح میں ’virgin soil‘ کہا جاتا ہے یعنی زمین کی وہ تہہ جو کبھی زراعت کے لئے استعمال نہیں ہوئی اور اس پر آباد ہونے والی بنی نوع انسان کے بارے میں کہا جاسکے کہ انہوں نے اپنی معاشرت کا آغاز اِس مقام پر کسی خاص عہد یا معلوم انسانی تاریخ سے کیا ہو گا۔ پشاور کی پہلی اینٹ کب رکھی گئی تھی‘ اِس بارے میں ’گورگٹھڑی‘ کے مقام پرکھدائی سے علم ہوا کہ کم وبیش ڈھائی ہزار سال قبل یہ شہر آباد تھا‘ اور اِس انکشاف کو سائنسی بنیادوں ثابت بھی کیا گیا‘ جو عالمی طور پر مسلمہ اَمر ہے یقیناًماہرین آثار قدیمہ مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے پشاور کی بنیاد تک رسائی کے لئے دن رات وقف کئے لیکن کیا اگر یہی تلاش صوبائی دارالحکومت پشاور کے وسط کی بجائے کسی دور دراز علاقے میں ہو رہی ہوتی کہ جہاں رہائش اور قیام و طعام کی اس قدر سہولیات میسر نہ ہوتیں تو بھی ہمارے ماہرین ایسی ہی لگن سے کھدائی کرتے؟ اگر اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیتے ہوئے مثالیں سننے کو ملیں تو خیبرپختونخوا میں کئی ایک ایسے کھنڈرات کے بارے میں کیا کہا جائے گا‘ جنہیں ’طشت ازبام‘ کرنے کے بعد موسموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ منصوبے کے لئے مختص کی گئی رقم کا بڑا حصہ تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی تحقیق اِس قدر منافع بخش اور مراعات سے بھرپور نہیں جس قدر ہمارے ہاں ہے! پشاور میں کھدائی کئی مراحل میں ہوئی اور وجہ متعلقہ ماہرین کی طبیعت کی ناسازی نہیں تھی بلکہ مالی وسائل ختم ہوتے تو چٹکی بھر مٹی ہٹانے سے بھی ہاتھ روک لئے جاتے۔ آج تک کسی ایسے ماہر سے ملاقات نہیں ہوئی جس نے اپنی ماہانہ تنخواہ‘ مراعات و سہولیات‘ غیرملکی دوروں پر سمجھوتہ کیا ہو لیکن کئی کئی برس تک آثار قدیمہ کی کھدائی اور تلاش کا عمل رک جانے کی مثالیں ضرور موجود ہیں! پھر جب سیاسی حکومتیں ’غیراعلانیہ و مشروط بنیادوں پر‘ مالی وسائل فراہم کرتیں تو کھدائی کا کام نئے سرے سے کرنا پڑتا کیونکہ اِس دوران موسمی اثرات کی وجہ سے کھدائی کا مقام اپنی افادیت اور مزید تحقیق کے امکانات کھو چکا ہوتا۔ دنیا میں کہیں بھی تحقیق کاروں کی ایسی لگن اور جذبہ دیکھنے میں نہیں ملتا‘ جو آثار قدیمہ سے دلی و جذباتی طور پر نہیں بلکہ مالی مفادات کے لئے وابستہ ہوں۔
گورگٹھڑی کے مقام پر کھدائیوں سے حاصل ہونے والے نوادرات اِسی عمارت کے احاطے میں قائم ایک الگ عجائب گھر کی زینت بنائی گئیں لیکن پشاور کی اکثریت کو علم ہی نہیں ہوگا کہ ایسا کوئی عجائب گھر وجود بھی رکھتا ہے! حتیٰ کہ گورگٹھڑی کے سبزہ زار سے استفادہ کرنے والوں سے بھی اگر پوچھا جائے تو اُن کی اکثریت قرب و جوار کی اہمیت سے آشنا نہیں ہوگی۔ آثار قدیمہ سے دلی لگاؤ رکھنے والوں کی ’عدم دستیابی‘کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اگر نوادرات زمین میں دفن ہی رہیں تو وہ آئندہ نسلوں تک زیادہ اچھی حالت میں منتقل ہو جائیں گے لیکن اگر انہیں کھود نکالنے کے بعد خاطرخواہ حفاظت و نمائش کا اہتمام نہ ہو سکا تو بہتر یہی ہے کہ نئی مہم جوئی کی بجائے ماضی میں کی جانے والی کھدائیوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ گورگٹھڑی کو ’آرکیالوجیکل پارک‘ کا درجہ دے کر وہاں کھدائی کا وہ مقام جو کھلے آسمان تلے ’موسموں کے رحم و کرم‘ پر ہے کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ اُسے کچھ اِس انداز سے ڈھانپ دیا جائے کہ تہہ در تہہ کھدائی کے مختلف مراحل دکھائی بھی دیتے رہیں اور یہ مقام مزید شکست و ریخت سے محفوظ بھی ہو جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment