۔۔۔جان ہے تو جہان ہے!۔۔۔
ہسپتال موت بانٹ رہے ہیں؟
ہسپتال موت بانٹ رہے ہیں؟
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہر روز اوسطاً ایک لاکھ سے سرنجیں استعمال ہوتی ہیں لیکن کیا اتنی ہی بڑی تعداد میں انہیں تلف بھی کیا جاتا ہے
پلاسٹک کی ایسی سرنجیں دستیاب ہیں جنہیں صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کیا جاسکتا ہے اور دوسری مرتبہ استعمال کے قابل نہیں رہتیں
شبیرحسین اِمام
کیا آپ پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے کو محفوظ سمجھتے ہیں؟ سستا نعم البدل ہونے کی وجہ سے کھلونے‘ آرائشی اشیاء‘ جوتے‘ چپل‘ حتیٰ کہ کھانے پینے کے لئے استعمال ہونے والے برتن بھی پلاسٹک سے تیار ہونے لگے ہیں لیکن ایسی تمام پلاسٹک کی اَشیاء ’اِنسانی صحت‘ کے لئے ’مستقل خطرہ‘ ثابت ہو سکتیں ہیں‘ جو ادویات ذخیرہ کرنے یا علاج معالجے میں کام آنے کے بعد پلاسٹک یا شیشے جیسی جنس کی صورت فروخت کر دی جائیں‘ کسی جگہ سے چن لی جائیں اور اُنہیں دوبارہ قابل استعمال بنا کر پلاسٹک کے برتنوں میں استعمال کیا جائے! تو ہوشیار رہیں کہ کہیں آپ ایسی خطرناک پلاسٹک سے بنے ہوئے برتن یا جوتے یا کھلونے تو نہیں خرید رہے‘ جس سے آپ یا آپ کے عزیز واقارب کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے؟
سرکاری ہسپتالوں میں گندگی تلف کرنے کے لئے پھر بھی کچھ نہ کچھ قواعد و ضوابط کا لحاظ کیا جاتا ہے لیکن نجی ہسپتالوں اور بالخصوص ماہر ڈاکٹروں کے کلینکس میں یومیہ جمع ہونے والی گندگی کے نہ تو اعدادوشمار دستیاب ہیں اور نہ ہی اِس سلسلے میں متعلقہ حکومتی ادارے مستقبل قریب میں تحقیق کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجئے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ٹھوس گندگی تلف کرنے کے لئے جو آلات نصب ہیں وہ گیس کی مدد سے چلتے ہیں۔ موسم سرما کے دوران گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جبکہ ڈیوٹی کے اُوقات میں گیس پریشر اِس قدر نہیں ہوتا کہ ادویات جلا کر تلف کی جا سکیں! نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایک انتظامی نگران نے کہا کہ ’’لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں صرف پشاور شہر کے مریض نہیں آتے بلکہ مضافاتی دیہی علاقوں اور دیگر اضلاع سے بھی مریضوں کو یہاں لایا جاتا ہے۔ اوسطاً تین ہزار اُو پی ڈی جبکہ دو ہزار حادثات اتفاقیہ و ہنگامی علاج معالجے کے شعبوں میں مریضوں کو لایا جاتا ہے‘ یہی علاج معالجے کے وہ شعبے ہیں جہاں بڑی مقدار میں گندگی پیدا ہوتی ہے لیکن کیا وہ حسب قواعد چوبیس گھنٹوں میں تلف بھی ہوتی ہے؟
ہسپتالوں سے جمع کی جانے والی گندگی میں پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں شامل ہوتی ہیں جن میں محلول یا خشک حالت میں ادویات رکھی جاتی ہیں۔ ایسی دونوں حالتوں میں ادویات کی بوتلیں کسی بھی صورت صحت مند انسانوں کو استعمال نہیں کرنی چاہیءں۔ اِس سلسلے میں توجہ طلب امر تازہ دودھ کے نام پر کیمیائی مادوں سے بنایا جانے و الا دودھ بھی ہے‘ جس میں خشک دودھ کے اجزأ‘ پانی اور مختلف کیمیائی مادے استعمال کئے جاتے ہیں‘ جس سے دودھ کی ’شیلف لائف‘ بڑھا دی جاتی ہے۔ علاؤہ ازیں دودھ نما کیمیائی محلول کو ذخیرہ کرنے کے لئے نیلے رنگ کے جو ڈرم استعمال کئے جاتے ہیں وہ بھی کیمیائی مادوں کے لئے بنائے جاتے ہیں‘ اور اِن کا استعمال کسی بھی صورت انسانی استعمال کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک سنگین و انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں‘ جس میں ہر ایک کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ ہمارے ہاں ملاوٹ سے پاک دودھ فروخت نہیں ہوتا؟ کیا متعلقہ حکومتی ادارے اور سخت قواعد موجود نہیں یا پھر ان پر عمل درآمد کرنے والے اپنے مفاد کے لئے پورے معاشرے کی صحت اور جان داؤ پر لگائے ہوئے ہیں! اِس سلسلے میں منتخب عوامی نمائندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں حالات کا جائزہ لیں اور ایسی قانون ساز کریں جس میں ملاوٹ کرنے والوں کو بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کیا جاسکے۔ بھلا اِس سے بڑھ کر کوئی دوسری دہشت گردی اور کیا ہوسکتی ہے کہ غیرمعیاری اشیاء کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں!
کیا آپ جانتے ہیں؟
سرکاری و نجی ہسپتالوں میں گندگی تلف کرنے کا خاطرخواہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انسانی زندگیاں خطرات سے دوچار ہیں۔ ایک نجی ادارے کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں یومیہ 2 ہزار کلوگرام ایسی مہلک قسم کی گندگی اکٹھا ہوتی ہے‘ جسے سائنسی طریقوں سے تلف نہیں کیاجاتا اور ایسا نہ ہونے کی وجہ مالی وسائل کی کمی نہیں بلکہ اِس معاملے کے حوالے سے متعلقہ حکام کا حساس نہ ہونا ہے! ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتال کا ایک بستر یومیہ اوسطاً آدھ کلوگرام ایسی گندگی پیدا کرتا ہے‘ جو اگر انتہائی درجہ حرارت کے ذریعے تلف نہ کی جائے تو اس سے مہلک بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں بستروں کی کل تعداد 4ہزار سے زیادہ ہے جن سے مجموعی طور پر 2 ہزار کلوگرام سے زائد گندگی یکجا ہوتی ہے لیکن اگر تمام ہسپتالوں میں گندگی تلف کرنے کے نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ اعتبار کرنا مشکل ہے ہر روز ایک ہزار کلوگرام گندگی بھی بمشکل تلف ہوتی ہوگی۔ سرکاری دفاتر ایسے اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن محکمۂ صحت کے ایک انتظامی نگران نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ ’’لیڈی ریڈنگ ہسپتال کم و بیش دو ہزار بستروں پر مشتمل ہے‘ جہاں سے بارہ سو کلوگرام‘ خیبرٹیچنگ پندرہ سو بستروں سے پانچ سو کلوگرام‘ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے سات سو بستروں سے تین سو کلوگرام‘ سٹی ہسپتال کے ڈھائی سو بستروں سے ڈیڑھ سو کلوگرام یومیہ گندگی اکٹھا ہوتی ہے جبکہ یہ اعدادوشمار آخری مرتبہ دو ہزار سات میں اکٹھا کئے گئے تھے‘ سات برس بعد جبکہ ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ تین گنا بڑھ چکا ہے جس سے لامحالہ مریضوں کے زیراستعمال ادویات و دیگر اشیاء گندگی کی صورت پھینک دی جاتی ہیں چونکہ یہ گندگی اِس قدر بڑے پیمانے پر ہر روز اکٹھا ہوتی ہے اِس لئے ارباب اختیار اِس بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایک امریکی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہسپتالوں کا ایک کام تو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات وہاں کی صفائی اور ایسا ماحول ہے جس میں بیماریاں معاشرے کے صحت مند افراد یا مریضوں کی عیادت کے لئے آنے والوں کو منتقل نہ ہوں۔ ہسپتال ہوا دار ہونے چاہئے۔ مریضوں کے وارڈ کی چھتیں عمومی کمروں سے بلند ہونی چاہئیں جہاں قدرتی روشنی کا خاطرخواہ بندوبست ہونا چاہئے۔ غیرسرکاری تنظیم کے جائزے میں پشاور کے سات نیم سرکاری ہسپتالوں کا بھی جائزہ لیا گیا جہاں کم و بیش چھ سو مریضوں کے علاج کی سہولیات موجود تھیں اور اِن ہسپتالوں سے یومیہ تین سو کلوگرام گندگی اکٹھا ہوتی ہے۔ یہ صورتحال صرف پشاور کی حد تک ہی تشویشناک نہیں بلکہ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ مردان اور دیگر گنجان آباد اضلاع میں تو کئی ایک سرکاری و نجی ہسپتال اِس بات پر شکر ادا کرتے ہیں کہ کوئی آئے اُور ہر روز ہزاروں کلوگرام گندگی اٹھا کر لے جائے‘ انہیں اِس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ وہی گندگی بعدازاں خود اُنہیں یا اُن کے اہل خانہ کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہسپتالوں سے گندگی اکٹھا کرنے کے لئے کوئی قانون بھی موجود ہے جس کے تحت ان کی یہ ذمہ داری قرار پائے کہ وہ سائنسی طریقوں سے گندگی تلف کریں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ’انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997ء‘ ہے‘ جس میں یہ بات واضح طور پر درج کی گئی ہے کہ ہسپتال اس بات کے لئے پابند ہیں کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر جمع ہونے والی گندگی چاہے وہ کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ ہو جلا کر تلف کریں۔ اِس قانون کے تحت ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل بھی ہونی چاہئے جس کی سربراہی ہیلتھ سیکرٹری ہو‘ اور وہ وقتاً فوقتاً گندگی تلف کرنے سے متعلق قواعد و ضوابط پر نظرثانی کریں۔ اس سلسلے میں ایک اور قانون ’Hazardous Substance Rules 2000‘ بھی لائق توجہ ہے جس کے تحت کسی بھی ہسپتال چاہے وہ وفاق کی زیرنگرانی ہو یا صوبائی محکمہ ماحولیات کے‘ وہ اپنے اپنے ہاں ایسے انتظامات کریں گے جس سے اردگرد کے ماحول کے لئے خطرہ نہ ہو۔
گندگی تلف کرنے کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اِسے جلا کر کام چلا لیا جائے۔ اگر ہسپتال کی گندگی جلانے کا عمل کسی عمومی طریقے سے کیا جائے جس سے دھواں پیدا ہو‘ تو ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا دھواں صحت مند افراد کے لئے ’ٹی بی‘ سینے کی بیماریوں‘ معدے کی بیماریوں اور جلدی امراض کاسبب بن سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ ہسپتال کے اندر ہی کام کرنے طبی یا معاون طبی عملے کی صحت کے لئے ہوسکتا ہے‘ جنہیں مستقل بنیادوں پر ہسپتال کے اندر رہنا ہوتا ہے۔
چونکہ ہمارے ہاں ہر آنے والے مریض کا علاج کرنے سے قبل اُس کے خون کا تجزیہ کرنے کی روایت موجود نہیں اِس لئے ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کی صورت علاج معالجے میں استعمال ہونے والے آلات سے بیک وقت ایک سے زیادہ مریضوں کی مرہم پٹی یا جراحت کی جاتی ہے۔ ایسی کوئی صورتحال یرقان‘ ایڈز وغیرہ جیسی فوری منتقل ہونے والی بیماریوں کے پھیلنے کا بڑا سبب ہے۔ ماضی میں پشاور کے تین تدریسی ہسپتالوں (خیبرٹیچنگ‘ لیڈی ریڈنگ اُور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس) میں 32 لاکھ روپے کی لاگت سے گندگی تلف کرنے کے آلات نصب کئے گئے تھے لیکن مقام حیرت ہے کہ اُن سے خارج ہونے والا دھواں فلٹر کرنے کی فکر نہیں کی گئی‘ جو یکساں طور پر خطرناک ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مریضوں کے زیراستعمال رہنے والی ادویات یا جراحت سے بچنے والی خون آلود گندگی کو جلانے سے ایسی مہلک گیسیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں جو یکساں طور پر خطرہ ہوتی ہیں۔ ان میں Dioxin‘ Sulphur oxide‘ Nitrogen oxide اور Furanمادے شامل ہوتے ہیں۔
فروری 2013ء کے تیسرے ہفتے میں ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے ’گرین بینچ‘ نے تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ہاں ٹھوس گندگی تلف کرنے کے آلات نصب کریں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی وجہ ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ عدالت نے محکمۂ ماحولیات کو بھی حکم دیا کہ وہ ایسے تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں کے خلاف کارروائی کرے‘ جو اِن احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ وہ بات جو پوری دنیا میں مسلمہ ہے کہ ہسپتالوں کی گندگی مکمل طریقے سے تلف ہونی چاہئے‘ وہ ہمارے اداروں کو بذریعہ عدالتی حکم سمجھائی جا رہی ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سرکاری ہسپتالوں نے تو خاطرخواہ انتظامات کر لئے لیکن نجی ہسپتالوں نے اپنے طور گندگی تلف کرنے کے نظام کو خفیہ کردیا‘ یعنی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور عوام کی نظروں سے دور ایک ایسا نظام بنایا گیا‘ جس میں رات کے اندھیرے میں گندگی اُٹھانے والے ’نامعلوم ٹھیکیدار‘ واردات کرجاتے۔ ایک نجی ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے ایک سو بستروں پر علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں‘ اِس کے علاؤہ یومیہ اُو پی ڈی الگ ہے‘ تو اِس پورے عمل میں پیدا ہونے والی گندگی تلف کرنے کے لئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں‘ تو وہ ہکا بکا رہ گئے اور کہنے لگے ’’یہ کیسا سوال ہے؟‘‘
پلاسٹک کی ایسی سرنجیں دستیاب ہیں جنہیں صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کیا جاسکتا ہے اور دوسری مرتبہ استعمال کے قابل نہیں رہتیں
شبیرحسین اِمام
کیا آپ پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے کو محفوظ سمجھتے ہیں؟ سستا نعم البدل ہونے کی وجہ سے کھلونے‘ آرائشی اشیاء‘ جوتے‘ چپل‘ حتیٰ کہ کھانے پینے کے لئے استعمال ہونے والے برتن بھی پلاسٹک سے تیار ہونے لگے ہیں لیکن ایسی تمام پلاسٹک کی اَشیاء ’اِنسانی صحت‘ کے لئے ’مستقل خطرہ‘ ثابت ہو سکتیں ہیں‘ جو ادویات ذخیرہ کرنے یا علاج معالجے میں کام آنے کے بعد پلاسٹک یا شیشے جیسی جنس کی صورت فروخت کر دی جائیں‘ کسی جگہ سے چن لی جائیں اور اُنہیں دوبارہ قابل استعمال بنا کر پلاسٹک کے برتنوں میں استعمال کیا جائے! تو ہوشیار رہیں کہ کہیں آپ ایسی خطرناک پلاسٹک سے بنے ہوئے برتن یا جوتے یا کھلونے تو نہیں خرید رہے‘ جس سے آپ یا آپ کے عزیز واقارب کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے؟
سرکاری ہسپتالوں میں گندگی تلف کرنے کے لئے پھر بھی کچھ نہ کچھ قواعد و ضوابط کا لحاظ کیا جاتا ہے لیکن نجی ہسپتالوں اور بالخصوص ماہر ڈاکٹروں کے کلینکس میں یومیہ جمع ہونے والی گندگی کے نہ تو اعدادوشمار دستیاب ہیں اور نہ ہی اِس سلسلے میں متعلقہ حکومتی ادارے مستقبل قریب میں تحقیق کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجئے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ٹھوس گندگی تلف کرنے کے لئے جو آلات نصب ہیں وہ گیس کی مدد سے چلتے ہیں۔ موسم سرما کے دوران گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جبکہ ڈیوٹی کے اُوقات میں گیس پریشر اِس قدر نہیں ہوتا کہ ادویات جلا کر تلف کی جا سکیں! نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایک انتظامی نگران نے کہا کہ ’’لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں صرف پشاور شہر کے مریض نہیں آتے بلکہ مضافاتی دیہی علاقوں اور دیگر اضلاع سے بھی مریضوں کو یہاں لایا جاتا ہے۔ اوسطاً تین ہزار اُو پی ڈی جبکہ دو ہزار حادثات اتفاقیہ و ہنگامی علاج معالجے کے شعبوں میں مریضوں کو لایا جاتا ہے‘ یہی علاج معالجے کے وہ شعبے ہیں جہاں بڑی مقدار میں گندگی پیدا ہوتی ہے لیکن کیا وہ حسب قواعد چوبیس گھنٹوں میں تلف بھی ہوتی ہے؟
ہسپتالوں سے جمع کی جانے والی گندگی میں پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں شامل ہوتی ہیں جن میں محلول یا خشک حالت میں ادویات رکھی جاتی ہیں۔ ایسی دونوں حالتوں میں ادویات کی بوتلیں کسی بھی صورت صحت مند انسانوں کو استعمال نہیں کرنی چاہیءں۔ اِس سلسلے میں توجہ طلب امر تازہ دودھ کے نام پر کیمیائی مادوں سے بنایا جانے و الا دودھ بھی ہے‘ جس میں خشک دودھ کے اجزأ‘ پانی اور مختلف کیمیائی مادے استعمال کئے جاتے ہیں‘ جس سے دودھ کی ’شیلف لائف‘ بڑھا دی جاتی ہے۔ علاؤہ ازیں دودھ نما کیمیائی محلول کو ذخیرہ کرنے کے لئے نیلے رنگ کے جو ڈرم استعمال کئے جاتے ہیں وہ بھی کیمیائی مادوں کے لئے بنائے جاتے ہیں‘ اور اِن کا استعمال کسی بھی صورت انسانی استعمال کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک سنگین و انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں‘ جس میں ہر ایک کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ ہمارے ہاں ملاوٹ سے پاک دودھ فروخت نہیں ہوتا؟ کیا متعلقہ حکومتی ادارے اور سخت قواعد موجود نہیں یا پھر ان پر عمل درآمد کرنے والے اپنے مفاد کے لئے پورے معاشرے کی صحت اور جان داؤ پر لگائے ہوئے ہیں! اِس سلسلے میں منتخب عوامی نمائندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں حالات کا جائزہ لیں اور ایسی قانون ساز کریں جس میں ملاوٹ کرنے والوں کو بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کیا جاسکے۔ بھلا اِس سے بڑھ کر کوئی دوسری دہشت گردی اور کیا ہوسکتی ہے کہ غیرمعیاری اشیاء کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں!
کیا آپ جانتے ہیں؟
سرکاری و نجی ہسپتالوں میں گندگی تلف کرنے کا خاطرخواہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انسانی زندگیاں خطرات سے دوچار ہیں۔ ایک نجی ادارے کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں یومیہ 2 ہزار کلوگرام ایسی مہلک قسم کی گندگی اکٹھا ہوتی ہے‘ جسے سائنسی طریقوں سے تلف نہیں کیاجاتا اور ایسا نہ ہونے کی وجہ مالی وسائل کی کمی نہیں بلکہ اِس معاملے کے حوالے سے متعلقہ حکام کا حساس نہ ہونا ہے! ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتال کا ایک بستر یومیہ اوسطاً آدھ کلوگرام ایسی گندگی پیدا کرتا ہے‘ جو اگر انتہائی درجہ حرارت کے ذریعے تلف نہ کی جائے تو اس سے مہلک بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں بستروں کی کل تعداد 4ہزار سے زیادہ ہے جن سے مجموعی طور پر 2 ہزار کلوگرام سے زائد گندگی یکجا ہوتی ہے لیکن اگر تمام ہسپتالوں میں گندگی تلف کرنے کے نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ اعتبار کرنا مشکل ہے ہر روز ایک ہزار کلوگرام گندگی بھی بمشکل تلف ہوتی ہوگی۔ سرکاری دفاتر ایسے اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن محکمۂ صحت کے ایک انتظامی نگران نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ ’’لیڈی ریڈنگ ہسپتال کم و بیش دو ہزار بستروں پر مشتمل ہے‘ جہاں سے بارہ سو کلوگرام‘ خیبرٹیچنگ پندرہ سو بستروں سے پانچ سو کلوگرام‘ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے سات سو بستروں سے تین سو کلوگرام‘ سٹی ہسپتال کے ڈھائی سو بستروں سے ڈیڑھ سو کلوگرام یومیہ گندگی اکٹھا ہوتی ہے جبکہ یہ اعدادوشمار آخری مرتبہ دو ہزار سات میں اکٹھا کئے گئے تھے‘ سات برس بعد جبکہ ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ تین گنا بڑھ چکا ہے جس سے لامحالہ مریضوں کے زیراستعمال ادویات و دیگر اشیاء گندگی کی صورت پھینک دی جاتی ہیں چونکہ یہ گندگی اِس قدر بڑے پیمانے پر ہر روز اکٹھا ہوتی ہے اِس لئے ارباب اختیار اِس بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایک امریکی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہسپتالوں کا ایک کام تو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات وہاں کی صفائی اور ایسا ماحول ہے جس میں بیماریاں معاشرے کے صحت مند افراد یا مریضوں کی عیادت کے لئے آنے والوں کو منتقل نہ ہوں۔ ہسپتال ہوا دار ہونے چاہئے۔ مریضوں کے وارڈ کی چھتیں عمومی کمروں سے بلند ہونی چاہئیں جہاں قدرتی روشنی کا خاطرخواہ بندوبست ہونا چاہئے۔ غیرسرکاری تنظیم کے جائزے میں پشاور کے سات نیم سرکاری ہسپتالوں کا بھی جائزہ لیا گیا جہاں کم و بیش چھ سو مریضوں کے علاج کی سہولیات موجود تھیں اور اِن ہسپتالوں سے یومیہ تین سو کلوگرام گندگی اکٹھا ہوتی ہے۔ یہ صورتحال صرف پشاور کی حد تک ہی تشویشناک نہیں بلکہ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ مردان اور دیگر گنجان آباد اضلاع میں تو کئی ایک سرکاری و نجی ہسپتال اِس بات پر شکر ادا کرتے ہیں کہ کوئی آئے اُور ہر روز ہزاروں کلوگرام گندگی اٹھا کر لے جائے‘ انہیں اِس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ وہی گندگی بعدازاں خود اُنہیں یا اُن کے اہل خانہ کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہسپتالوں سے گندگی اکٹھا کرنے کے لئے کوئی قانون بھی موجود ہے جس کے تحت ان کی یہ ذمہ داری قرار پائے کہ وہ سائنسی طریقوں سے گندگی تلف کریں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ’انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997ء‘ ہے‘ جس میں یہ بات واضح طور پر درج کی گئی ہے کہ ہسپتال اس بات کے لئے پابند ہیں کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر جمع ہونے والی گندگی چاہے وہ کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ ہو جلا کر تلف کریں۔ اِس قانون کے تحت ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل بھی ہونی چاہئے جس کی سربراہی ہیلتھ سیکرٹری ہو‘ اور وہ وقتاً فوقتاً گندگی تلف کرنے سے متعلق قواعد و ضوابط پر نظرثانی کریں۔ اس سلسلے میں ایک اور قانون ’Hazardous Substance Rules 2000‘ بھی لائق توجہ ہے جس کے تحت کسی بھی ہسپتال چاہے وہ وفاق کی زیرنگرانی ہو یا صوبائی محکمہ ماحولیات کے‘ وہ اپنے اپنے ہاں ایسے انتظامات کریں گے جس سے اردگرد کے ماحول کے لئے خطرہ نہ ہو۔
گندگی تلف کرنے کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اِسے جلا کر کام چلا لیا جائے۔ اگر ہسپتال کی گندگی جلانے کا عمل کسی عمومی طریقے سے کیا جائے جس سے دھواں پیدا ہو‘ تو ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا دھواں صحت مند افراد کے لئے ’ٹی بی‘ سینے کی بیماریوں‘ معدے کی بیماریوں اور جلدی امراض کاسبب بن سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ ہسپتال کے اندر ہی کام کرنے طبی یا معاون طبی عملے کی صحت کے لئے ہوسکتا ہے‘ جنہیں مستقل بنیادوں پر ہسپتال کے اندر رہنا ہوتا ہے۔
چونکہ ہمارے ہاں ہر آنے والے مریض کا علاج کرنے سے قبل اُس کے خون کا تجزیہ کرنے کی روایت موجود نہیں اِس لئے ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کی صورت علاج معالجے میں استعمال ہونے والے آلات سے بیک وقت ایک سے زیادہ مریضوں کی مرہم پٹی یا جراحت کی جاتی ہے۔ ایسی کوئی صورتحال یرقان‘ ایڈز وغیرہ جیسی فوری منتقل ہونے والی بیماریوں کے پھیلنے کا بڑا سبب ہے۔ ماضی میں پشاور کے تین تدریسی ہسپتالوں (خیبرٹیچنگ‘ لیڈی ریڈنگ اُور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس) میں 32 لاکھ روپے کی لاگت سے گندگی تلف کرنے کے آلات نصب کئے گئے تھے لیکن مقام حیرت ہے کہ اُن سے خارج ہونے والا دھواں فلٹر کرنے کی فکر نہیں کی گئی‘ جو یکساں طور پر خطرناک ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مریضوں کے زیراستعمال رہنے والی ادویات یا جراحت سے بچنے والی خون آلود گندگی کو جلانے سے ایسی مہلک گیسیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں جو یکساں طور پر خطرہ ہوتی ہیں۔ ان میں Dioxin‘ Sulphur oxide‘ Nitrogen oxide اور Furanمادے شامل ہوتے ہیں۔
فروری 2013ء کے تیسرے ہفتے میں ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے ’گرین بینچ‘ نے تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ہاں ٹھوس گندگی تلف کرنے کے آلات نصب کریں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی وجہ ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ عدالت نے محکمۂ ماحولیات کو بھی حکم دیا کہ وہ ایسے تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں کے خلاف کارروائی کرے‘ جو اِن احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ وہ بات جو پوری دنیا میں مسلمہ ہے کہ ہسپتالوں کی گندگی مکمل طریقے سے تلف ہونی چاہئے‘ وہ ہمارے اداروں کو بذریعہ عدالتی حکم سمجھائی جا رہی ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سرکاری ہسپتالوں نے تو خاطرخواہ انتظامات کر لئے لیکن نجی ہسپتالوں نے اپنے طور گندگی تلف کرنے کے نظام کو خفیہ کردیا‘ یعنی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور عوام کی نظروں سے دور ایک ایسا نظام بنایا گیا‘ جس میں رات کے اندھیرے میں گندگی اُٹھانے والے ’نامعلوم ٹھیکیدار‘ واردات کرجاتے۔ ایک نجی ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے ایک سو بستروں پر علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں‘ اِس کے علاؤہ یومیہ اُو پی ڈی الگ ہے‘ تو اِس پورے عمل میں پیدا ہونے والی گندگی تلف کرنے کے لئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں‘ تو وہ ہکا بکا رہ گئے اور کہنے لگے ’’یہ کیسا سوال ہے؟‘‘
No comments:
Post a Comment