ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ناقابل علاج: سردرد و بخار
ناقابل علاج: سردرد و بخار
پشاور کے سینما گھر کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے دکھانے کی تیاری کر رہے ہیں اور
اِس سلسلے میں سب سے زیادہ توجہ ’پاک بھارت‘ مقابلے پر ہے جو پندرہ فروری
کے روز براہ راست دکھائے جانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ اس سلسلے
میں کم و بیش سات گھنٹے دورانیئے کی نشریات بڑی سکرین پر دیکھنے کے شائقین
کرکٹ کی حفاظت اور خدانخواستہ پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی کی صورت غم و
غصے کا اظہار کے ممکنہ اندیشے بھی اپنی جگہ موجود ہیں‘ جن کے بارے بہت کم
بات کرنا پسند کی جارہی ہے اور اِس سلسلے میں جب پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ
انتظامی اہلکار سے بات کی گئی تو اُنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے
ساتھ ’حالات کی سنگینی‘ کا ادراک کرنے اور ایسے اجتماعات سے اجتناب کا
مشورہ دیا‘ جسے نشانہ بنا کر دہشت گرد عالمی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔
’’پشاور پولیس اپنے محدود افرادی وسائل کے ساتھ سماج دشمن عناصر کی تلاش
اور انہیں انجام تک پہنچانے کے لئے متعدد کارروائیاں کر رہی ہے لیکن یہ
دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ پشاور میں کسی دہشت گرد کارروائی کا امکان نہیں۔
پولیس بیک وقت دو محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہے ایک تو نقص امن سے متعلق خطرات ختم
کئے جا رہے ہیں اُور دوسرا قانون کا نفاذ و حفاظت فراہم کرنے کی ذمہ داری
ادا کی جا رہی ہے تو اگر عوام و خواص اِن دو بنیادوں امور کی انجام دہی میں
ہماری مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم ایسے اقدامات سے گریز تو کر ہی سکتے
ہیں‘ جس سے پولیس کے دردسر میں اضافہ ہو۔
پشاور کے سینما ہال عرصہ دراز سے اُجاڑ ہیں‘ جس کی تین بنیادی وجوہات (خطرات‘ کیبل نیٹ ورک اور پاکستانی فلمیں) ہیں۔ پہلی وجہ تو پے در پے دہشت گرد حملے ہیں جس کی وجہ سے جان کے خطرے کے باعث فلم شائقین کی اِنتہائی کم تعداد سینما گھروں کا رُخ کرتی ہے۔ پھر کیبل نیٹ ورکس کی وجہ سے گھر گھر سینما کھل گئے ہیں اور ایک نہیں انگریزی‘ بھارتی و پاکستانی فلموں کی بیک وقت نمائش ہو رہی ہوتی ہے۔ تو جب گھر جیسے آرام و حفاظت کے ماحول میں فلم دیکھنا ممکن ہو‘ تو بھلا سینما گھروں کا رُخ کون کرے گا۔ تیسرا سبب فلموں کا معیار بالخصوص پشتو فلموں کی یکسانیت بھری کہانیاں ہیں‘ جن میں لڑائی جھگڑے اور دھماکے دار موسیقی کے سوا نہ تو کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اور نہ سننے کو۔ حال ہی میں پاکستانی فلم سازوں نے چند اچھی فلمیں بھی بنائیں لیکن بقول ایک سینما مالک‘ پشاور کی مارکیٹ میں صرف اور صرف پشتو فلم ہی چلتی ہے یا پھر ’خاص انگریزی فلموں‘ کی نمائش کرنے میں جو سینما شہرت رکھتے ہیں‘ اُن کا بزنس بھی پہلے جیسا نہیں رہا لیکن اگر پشاور کے سینما گھروں کی رونقیں واپس لوٹ آنے کی خوشخبری ملی ہے تو وہ کرکٹ سے ہے‘ جس کے لئے صابرینہ سینما میں نمائش کے انتظامات کر لئے گئے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق تمام ٹکٹ فروخت بھی ہو چکے ہیں!
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے ’سانحۂ پشاور‘ کے بعد سوگ میں سینما ہال بند ہوئے تو اُنہیں دوبارہ کھولنے کا کسی کو خیال نہ آیا اُور نہ ضرورت پیش آئی کہ شائقین فلم نے مطالبہ کیا ہو۔ پشتو فلمیں کیبل‘ سی ڈی‘ ڈی وی ڈی اور یو ایس بی کے ذریعے گھر گھر اور گاڑی گاڑی دیکھی جا رہی ہیں‘ رہی سہی کسر پشتو زبان کے نام پر چلنے والے سیٹلائٹ چینلوں نے نکال دی ہے‘ جو نت نئی فلمیں اور معروف گلوکاروں کو مدعو کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں محافل موسیقی کا انعقاد کیا جاتا ہے اور بیرون ملک خصوصاً عرب ممالک میں مقیم ’مسافروں‘ کے حال احوال سے خبرگیری اور وہاں کے شب وروز تک ہر بات من و عن پہنچ رہی ہو تو فلم دیکھنے کی زحمت کون گوارہ کرے گا۔ گذشتہ برس پشاور کے دو سینما گھروں (پکچر ہاؤس اور شمع) پر دستی بموں سے حملے ہوئے تھے‘ جس سے درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور شمع سینما پر ہوئے حملے نے تو اُسے گویا ہمیشہ ہی کے لئے خاموش کر دیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ جن جگہوں پر یہ سینما گھر تعمیر تھے اُن کی قیمت آس پاس کے تجارتی ماحول کے سبب اِس قدر بڑھ گئی کہ مالکان نے حیلوں بہانوں سے سینما گھروں کی جگہ کثیر المنزلہ پلازے کھڑے کر دیئے۔ ایک وقت تک تھا جب پشاور کے عشرت سینما (گل بہار) کی رونقیں دیدنی ہوا کرتی تھیں۔ اب وہاں زمین کا ایک ٹکڑا باقی ہے یا پھر ملبے کی چند اینٹیں۔ ناولٹی سینما (صدر روڈ) نہیں بھولتی جبکہ پلوشہ (امان سینما)‘ میٹرو سینما اور پشاور کا پہلا سینما گھر ’فلک سیر‘ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی اور آج کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لئے سو سے تین سو روپے کا ٹکٹ مقرر کیا گیا ہے‘ جسے خریدنے والے بیتاب بھی ہیں اور ایک اچھے مقابلے کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔ صابرینہ سینما میں اگرچہ پاک بھارت کرکٹ میچ کے تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں اور ٹکٹ گھر کی کھڑکیاں بند ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے فون نمبر آویزاں کر دیئے گئے ہیں تاکہ ٹکٹ نہ ملنے کی صورت اُن سے رابطہ کیا جاسکے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’ٹکٹوں‘ کی بلیک نہیں ہوگی اور کرکٹ شائقین کے جذبات سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا جائے گا۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ جنہوں نے ہر یونین کونسل کی سطح پر کھیل کا ایک میدان بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر پشاور میں 92 کھیل کے میدان نہ بنائے جا سکتے ہوں تو کم از کم شاہی باغ‘ وزیرباغ‘ چاچا یونس پارک اور جناح پارک میں کمرشل سرگرمیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔ پشاور کو نئے نہیں تو پرانے باغات ہی واپس کئے جا سکتے ہیں۔ تجویز ہے کہ پشاور کے پانچ مقامات گورگٹھڑی پارک‘ شیخ جنید آباد پارک‘ گلبہار پارک‘ آسیہ پارک اور باغ ناران میں ’پاک بھارت کرکٹ میچ‘ بڑی سکرین پر دکھانے کے انتظامات کئے جائیں تاکہ ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کی طرح عالمی مقابلوں کے موقع سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے۔ ’کرکٹ کے بخار‘ ہی کی برکت سے سہی‘ اگر پشاور کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے تو اِس میں مضائقہ اُور حرج ہی کیا ہے؟
پشاور کے سینما ہال عرصہ دراز سے اُجاڑ ہیں‘ جس کی تین بنیادی وجوہات (خطرات‘ کیبل نیٹ ورک اور پاکستانی فلمیں) ہیں۔ پہلی وجہ تو پے در پے دہشت گرد حملے ہیں جس کی وجہ سے جان کے خطرے کے باعث فلم شائقین کی اِنتہائی کم تعداد سینما گھروں کا رُخ کرتی ہے۔ پھر کیبل نیٹ ورکس کی وجہ سے گھر گھر سینما کھل گئے ہیں اور ایک نہیں انگریزی‘ بھارتی و پاکستانی فلموں کی بیک وقت نمائش ہو رہی ہوتی ہے۔ تو جب گھر جیسے آرام و حفاظت کے ماحول میں فلم دیکھنا ممکن ہو‘ تو بھلا سینما گھروں کا رُخ کون کرے گا۔ تیسرا سبب فلموں کا معیار بالخصوص پشتو فلموں کی یکسانیت بھری کہانیاں ہیں‘ جن میں لڑائی جھگڑے اور دھماکے دار موسیقی کے سوا نہ تو کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اور نہ سننے کو۔ حال ہی میں پاکستانی فلم سازوں نے چند اچھی فلمیں بھی بنائیں لیکن بقول ایک سینما مالک‘ پشاور کی مارکیٹ میں صرف اور صرف پشتو فلم ہی چلتی ہے یا پھر ’خاص انگریزی فلموں‘ کی نمائش کرنے میں جو سینما شہرت رکھتے ہیں‘ اُن کا بزنس بھی پہلے جیسا نہیں رہا لیکن اگر پشاور کے سینما گھروں کی رونقیں واپس لوٹ آنے کی خوشخبری ملی ہے تو وہ کرکٹ سے ہے‘ جس کے لئے صابرینہ سینما میں نمائش کے انتظامات کر لئے گئے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق تمام ٹکٹ فروخت بھی ہو چکے ہیں!
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے ’سانحۂ پشاور‘ کے بعد سوگ میں سینما ہال بند ہوئے تو اُنہیں دوبارہ کھولنے کا کسی کو خیال نہ آیا اُور نہ ضرورت پیش آئی کہ شائقین فلم نے مطالبہ کیا ہو۔ پشتو فلمیں کیبل‘ سی ڈی‘ ڈی وی ڈی اور یو ایس بی کے ذریعے گھر گھر اور گاڑی گاڑی دیکھی جا رہی ہیں‘ رہی سہی کسر پشتو زبان کے نام پر چلنے والے سیٹلائٹ چینلوں نے نکال دی ہے‘ جو نت نئی فلمیں اور معروف گلوکاروں کو مدعو کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں محافل موسیقی کا انعقاد کیا جاتا ہے اور بیرون ملک خصوصاً عرب ممالک میں مقیم ’مسافروں‘ کے حال احوال سے خبرگیری اور وہاں کے شب وروز تک ہر بات من و عن پہنچ رہی ہو تو فلم دیکھنے کی زحمت کون گوارہ کرے گا۔ گذشتہ برس پشاور کے دو سینما گھروں (پکچر ہاؤس اور شمع) پر دستی بموں سے حملے ہوئے تھے‘ جس سے درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور شمع سینما پر ہوئے حملے نے تو اُسے گویا ہمیشہ ہی کے لئے خاموش کر دیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ جن جگہوں پر یہ سینما گھر تعمیر تھے اُن کی قیمت آس پاس کے تجارتی ماحول کے سبب اِس قدر بڑھ گئی کہ مالکان نے حیلوں بہانوں سے سینما گھروں کی جگہ کثیر المنزلہ پلازے کھڑے کر دیئے۔ ایک وقت تک تھا جب پشاور کے عشرت سینما (گل بہار) کی رونقیں دیدنی ہوا کرتی تھیں۔ اب وہاں زمین کا ایک ٹکڑا باقی ہے یا پھر ملبے کی چند اینٹیں۔ ناولٹی سینما (صدر روڈ) نہیں بھولتی جبکہ پلوشہ (امان سینما)‘ میٹرو سینما اور پشاور کا پہلا سینما گھر ’فلک سیر‘ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی اور آج کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لئے سو سے تین سو روپے کا ٹکٹ مقرر کیا گیا ہے‘ جسے خریدنے والے بیتاب بھی ہیں اور ایک اچھے مقابلے کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔ صابرینہ سینما میں اگرچہ پاک بھارت کرکٹ میچ کے تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں اور ٹکٹ گھر کی کھڑکیاں بند ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے فون نمبر آویزاں کر دیئے گئے ہیں تاکہ ٹکٹ نہ ملنے کی صورت اُن سے رابطہ کیا جاسکے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’ٹکٹوں‘ کی بلیک نہیں ہوگی اور کرکٹ شائقین کے جذبات سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا جائے گا۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ جنہوں نے ہر یونین کونسل کی سطح پر کھیل کا ایک میدان بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر پشاور میں 92 کھیل کے میدان نہ بنائے جا سکتے ہوں تو کم از کم شاہی باغ‘ وزیرباغ‘ چاچا یونس پارک اور جناح پارک میں کمرشل سرگرمیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔ پشاور کو نئے نہیں تو پرانے باغات ہی واپس کئے جا سکتے ہیں۔ تجویز ہے کہ پشاور کے پانچ مقامات گورگٹھڑی پارک‘ شیخ جنید آباد پارک‘ گلبہار پارک‘ آسیہ پارک اور باغ ناران میں ’پاک بھارت کرکٹ میچ‘ بڑی سکرین پر دکھانے کے انتظامات کئے جائیں تاکہ ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کی طرح عالمی مقابلوں کے موقع سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے۔ ’کرکٹ کے بخار‘ ہی کی برکت سے سہی‘ اگر پشاور کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے تو اِس میں مضائقہ اُور حرج ہی کیا ہے؟
No comments:
Post a Comment