Thursday, February 12, 2015

Feb2015: Hazardous Traffic in Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خیبرپختونخوا: جان ہتھیلی پر!
فکر پشاور کے عنوان سے صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں پر ’اُوورلوڈ‘ گاڑیوں اور نجی شعبے کی حوالے کی گئی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑی عام آدمی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے جو ایک ٹریفک کا اصلاجی پہلو سرسری طور پر بیان کیا گیا‘ اُس کی وضاحت ضروری ہے تاکہ موضوع کی اہمیت اور بحث مسلسل رہے۔
خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی ہرسال درجنوں کی تعداد میں انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح ٹریفک حادثات میں ’’کچل کر‘‘مر جاتے ہیں لیکن اِن حادثات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا نظام سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں۔ سب کچھ قانون نافذ کرنے والے اِدارے ’پولیس‘ پر منحصر ہے کہ وہ کسی ٹریفک حادثے سے متعلق ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر) کن معلومات اور کن محرکات کے تحت درج کرتی ہے۔ عموماًیہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹریفک حادثات کی رپورٹنگ کرنے کا یہ طریقہ ’سوفیصدی حادثات درج (ریکارڈ)‘ نہیں کرتا بلکہ بہت سے حادثات کی تحقیقات کرنے کی بجائے اُن کا موقع پر ہی تصفیہ یا پھر ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کر لیا جاتا ہے۔ یہ عمل اُس وقت مزید پیچیدہ بن جاتا ہے جب کسی سرمائے دار‘ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت یا سیاست دانوں‘ افسرشاہی کے قریبی حلقوں میں سے کسی کا ہو۔ عام آدمی چاہے گاڑی کے اندر بیٹھ کر حادثے کا شکار ہو یا سڑک عبور کرتے ہوئے تیزرفتاری کی زد میں آنے کے بعد ’خوش قسمتی‘ سے زندہ بچ جائے تو یہی سوچ رکھتا ہے کہ ’جو کچھ ہوا‘ اُس کی قسمت میں لکھا تھا‘ اُور اِس سب کچھ کے لئے کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں۔ پولیس کا دباؤ بھی زخموں نڈھال شخص کو یہ باور کرانے پر ہوتا ہے کہ علاج و معالجے اور دیگر اخراجات کے لئے کچھ نہ کچھ رقم ملنا ہی کافی ہے۔ معاملات بسترمرگ پر ہی طے ہوجاتے ہیں اور علالت اگر مستقل معذوری کی صورت ہو تو بھی سوائے ہاتھ ملنے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

ٹریفک حادثات کے بارے ہمارا‘ اجتماعی رویہ اور طرزعمل مثبت نہیں‘ جو نظرثانی چاہتا ہے۔ اعدادوشمار ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح ’بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے حادثات‘ اُن غلطیوں کی وجہ سے بار بار دُہرائے جانے کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں‘ جن کی اصلاح ممکن تھی لیکن (صدافسوس کہ) متعلقہ فیصلہ سازوں کی توجہ اِس جانب مرکوز نہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے مرتب کردہ ریکارڈ کے مطابق ’’سال 2014ء کے دوران‘ 88 خطرناک یا بڑے ٹریفک حادثات ہوئے جو اس سے قبل یعنی سال دو ہزار تیرہ میں 96تھے جبکہ دو ہزار بارہ میں صرف 84 یعنی اگر تین برس کی اُوسط نکالی جائے تو ہمارے ہاں ہونے والے ٹریفک حادثات کا شمار ہر سال 80 سے زیادہ بنتا ہے۔ اسی طرح سال 2014ء کے دوران رونما ہوئے کم خطرناک یا قدرے چھوٹے پیمانے پر ہونے والے ٹریفک حادثات کی تعداد 301 ہے جو دوہزار تیرہ میں 339 اور 2012ء میں 380 تھی یعنی اگر کم خطرناک حادثات کا تناسب بھی نکالا جائے تو وہ سالانہ تین سو پچاس سے زیادہ بنتا ہے! یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ کسی ٹریفک کی صورت فوری طور پر ’ریسکیو 1122‘ کو طلب نہیں کیا جاتا اور بالخصوص دیہی علاقوں یا پشاور کے علاؤہ دیگر اضلاع میں معاملات پولیس تھانے کی حد تک ہی نمٹا لئے جاتے ہیں۔ مریضوں کی مرہم پٹی کرکے اُنہیں فارغ کرنا جبکہ ٹریفک حادثات کے لگنے والے زخموں سے ابھی خون بھی رس رہا ہو‘ ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہی بڑا سبب ہے کہ ٹریفک حادثات کا شمار درج نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں ٹریفک سے جڑے مسائل کی نوعیت اور شدت کے کئی ایک اسباب ہیں جن میں سرفہرست عام آدمی کی سماجی حیثیت ہے‘ جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کسی کے پاس مال دولت نہیں‘ تعلقات نہیں‘ سیاسی وابستگیاں نہیں تو وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ قانون و معاشرے کی نظر میں اَہم نہیں ہوسکتا۔ یہاں درجات کا معیار متقی و پرہیزگار ہونے یا ایمانداری و دیانت سے زندگی بسر کرنے کے طورطریقوں سے متعلق نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو عوام کی نمائندگی کے لئے منتخب ہونے والوں کے لئے ’امانت و دیانت کی شرائط و قواعد‘ وضع کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ حلف نہ لینے پڑتے۔ قسمیں اور وعدے نہ کرنے پڑتے کہ میں اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کروں گا‘ جھوٹ نہیں بولوں گا وغیرہ وغیرہ۔ جن ہستیوں کے ہاتھ میں ہم نے قانون سازی اور حکمرانی سونپ دی ہے اُنہوں نے اِس عزت و تکریم اور اعزاز کے جواب میں ہمیں جو کچھ عنایت کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’ٹریفک انجنیئرنگ کا نام ونشان دکھائی نہیں دیتا۔ ٹریفک قواعد سے متعلق معلومات عوام و خواص کو نہیں۔ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کرنے کے لئے خاطرخواہ پولیس اہلکار (افرادی قوت) موجود نہیں۔ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد حسب مقام و مادی و سیاسی حیثیت کیا جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ مالکان استحصال کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے تکنیکی وسائل کی کمی ہے۔ بنیادی شاہراؤں اور رابطہ سڑکوں کا نظام وسعت چاہتا ہے۔ ٹریفک کا بہاؤ تقسیم کرنے کے لئے حکمت عملی موجود نہیں اور نہ ہی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تحت شاہراؤں کے نظام کو وسعت دی جا رہی ہے۔‘‘ ٹریفک کی ناکافی سہولیات اور نظام سے جڑی خرابیوں کے باعث ہونے والے اعدادوشمار میں ہلاکتوں و زخمی کی تعداد بھی توجہ طلب ہے۔ خیبرپختونخوا ریسکیو 1122کے ریکارڈ کے مطابق ۔۔۔’’سال 2010ء میں 184حادثات ہوئے‘ جن میں 162 زخمی 17 افراد ہلاک ہوئے۔ سال 2011ء میں 1117 حادثات میں 415 زخمی اور 36 ہلاکتیں ہوئیں۔ سال 2012ء کے دوران 1125 ٹریفک میں 1018زخمی اور 72 ہلاکتیں ہوئیں۔ 2013ء میں 1670 حادثات میں 2191 زخمی اور 51 ہلاکتیں ہوئیں۔ سال 2014ء کے دوران 971 چھوٹے بڑے ٹریفک حادثات میں 1100 زخمی اور 36 ہلاکتیں اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہماری توجہ ’ٹریفک کے نظام کی اصلاح جانب مبذول نہیں۔‘

پشاور جیسے مرکزی شہر سمیت پورے صوبے میں ’ٹریفک سگنلز‘ نصب کرنے کے لئے تو شاید بہت سے مالی وسائل کی ضرورت ہو لیکن سیٹ بیلٹ باندھنے‘ مسافر بسوں کے فرنٹ شیشوں پر چسپاں سٹیکر اُتروانے کے لئے تو مضبوط ارادے اور فرض شناسی کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں کی فٹنس سرٹیفکیٹ جاری ہوتے ہیں جبکہ گاڑیاں پچاس فیصد بھی فٹ نہیں ہوتیں۔ سی این جی کے ٹینک بناء حفاظتی انتظامات مسافر بسوں کی سیٹوں تلے دبکے ملتے ہیں‘ لیکن اِن چلتے پھرتے بموں کی جانب متعلقہ حکام کا دھیان نہیں۔ دیگر شعبوں کی طرح ٹریفک کا نظام بھی کسی اَن دیکھی طاقت کی نظرکرم سے چل رہا ہے اور جو اِس نظام سے استفادہ کرنے کے باوجود زندہ ہیں‘ اُن کا شمار کرتے ہوئے یہ محاورہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ’’جسے اللہ رکھے‘ اُسے کون چکھے!‘‘

No comments:

Post a Comment