ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ایران: انقلاب اور سائنسی ترقی
ایران: انقلاب اور سائنسی ترقی
گیارہ فروری کے سرخرو دن ’انقلاب جمہوری اسلامی ایران‘ کی 36ویں سالگرہ کے
موقع پر نہ صرف ایران کے داخلی بلکہ اُن خارجی حالات و واقعات کا جائزہ
لینا بھی ضروری ہے‘ جس نے ایک لذت و سرور کی دلدادہ قوم کو فکری غلامیوں سے
آزاد کر کے ایک ایسے نظام سے متصل کر دیا‘ جس میں دین و دنیا کی بھلائیاں
پوشیدہ ہیں۔
ایران کے جمہوری اور اسلامی ہونے پر آج کی تاریخ میں کسی کو شک و شبہ نہیں اور یہ بات عملی طورپر ثابت کر دی گئی ہے کہ مسلمان ممالک کے لئے صرف جمہوریت ہی کافی نہیں بلکہ اس کے اسلامی ہونے سے صدیوں کا سفر عشروں میں طے کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ایران عالمی جنگ‘ امن و امان کے داخلی مسائل‘ اقتصادی بائیکاٹ‘ مالی پابندیوں‘ خطے اور عالمی سطح پر مسلط کی جانے والی ’میڈیا وار‘ جیسی بڑی بڑی آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلا ہے۔ جو بلاشک و شبہ ایران کی حکومت اور عوام کا فخریہ تاریخی کارنامہ اور خود اعتمادی کا بے مثال نمونہ ہے۔ ایران کی حکومت دنیا پر حاکم دو بلاکوں (روس و امریکہ) کے نظام کو ٹھکراتے ہوئے انقلاب اسلامی کی بنیادوں پر قائم ہوئی‘ اسی لئے ابتدا سے ہی سازشوں کا نشانہ بن گئی۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی مسلط کردہ جنگ اور اس کے نتیجے میں ملک اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات کے علاؤہ اقتصادی ناکہ بندی‘ ایران کے خلاف مغربی دنیا بالخصوص ان ممالک کے اہم حربے شمار ہوتے ہیں‘ جن کو انہوں نے ایرانی قوم کی حریت پسندی اور خودمختاری کی امنگوں کو کچلنے کے لئے آزمایا۔ امریکہ نے پہلی بار 1980ء میں تہران میں اپنے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے ردعمل میں ایران کا اقتصادی بائیکاٹ کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے طے کئے جانے والے کئی ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدوں کو منسوخ کردیا اور ایران سے اسلحہ کی خریدوفروخت کو غیرقانونی قراردیا۔ اسی طرح امریکہ میں ایران کے کئی ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے علاؤہ ایران اور امریکہ کے درمیان ہر قسم کے تجارتی لین دین کو بند کردیا گیا۔ یورپی یونین اور جاپان نے بھی امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے ایران کو فوجی ساز و سامان فروخت کرنا اور قرضے دینا اور اسی طرح ایران سے تیل خریدنا بند کردیا۔ 1980ء سے 1988ء تک مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی امریکہ نے ایران دشمنوں کو اقتصادی امداد کے ذریعے تقویت پہنچائی۔ اکتوبر 1987ء میں امریکی کانگریس کے فیصلے کے مطابق امریکی مصنوعات اور سامان کی ایران کو برآمدات ممنوع قرار دی گئیں۔ اس پابندی کا اطلاق اقتصادی‘ ٹیکنالوجی‘ سائنسی‘ عسکری اور اسٹریٹیجیک شعبوں پر ہوتا تھا یعنی یہ سازش کی گئی کہ ایران کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ مسلط کردہ جنگ میں شکست کے بعد امریکہ نے ایران کے خلاف ایک اور سازش کی اور اُس نے 1991ء میں کویت سے عراقی قبضے کے خاتمے کے لئے عراق پر حملہ کردیا۔ دفاعی شعبے میں ایران کی برتری روکنے کے لئے امریکی حکومت نے 1992ء میں ’’ایران و عراق فوجی ساز وسامان کے عدم پھیلاؤ‘‘ کا قانون منظور کیا‘ اس کی وجہ سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ ان برسوں کے دوران امریکہ اور اس کی پیروی میں مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر پابندیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ حالیہ برسوں میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لئے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا‘ تاکہ اپنے تئیں ایران کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ڈالی جا سکے۔
ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں اقتصادی‘ سائنسی‘ سیاسی و دیگر شعبوں میں عائد کی گئیں حتیٰ کہ ایران تیل سے برآمدات اور ایران کے مرکزی بینک پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ان نئی پابندیوں کا مقصد ایرانی معیشت کے تیل پر انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس بیہودہ تصور کے تحت لگائی گئیں کہ ان کے ذریعے ایرانی عوام کی معیشت کو معطل کرکے ایران حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں گے۔ مغرب کی ظالمانہ پابندیوں کے عوام کی زندگی کے اہم شعبوں بالخصوص ادویات‘ غذائی اشیاء اور صحت و سلامتی کے شعبے پر مضر اثرات مرتب ہوئے‘ تاہم یہ مغرب کے بیجا مطالبات پر مبنی مذموم عزائم بالخصوص جوہری پروگرام کی منسوخی کے مطالبے کے سامنے ایرانی قوم کی مزاحمت کے جذبے کو کم نہ کرسکے بلکہ ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اِس بات کا موقع ملا کہ بے پناہ ملکی ذرائع اور صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہوئے ملک کی ترقی و پیشرفت کے لئے ایک جامع پروگرام مرتب کرے‘ جس کی بنیاد انسانی طاقت و صلاحیت‘ علمی استعداد اور قدرتی ذرائع پر استوار ہو۔ معتبر عالمی اداروں کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ایران دنیا کی 18ویں بڑی معیشت ہے اور تیل کی پیداوار کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے‘ جبکہ گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔ عجب ہے کہ پاکستان کے ساتھ سرحد رکھنے والا ایران دنیا میں گیس کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن ہمارے ہاں گیس کی قلت کے باعث معیشت اور صنعتیں ٹھپ ہوئی پڑی ہیں۔ دریا کے کنارے پیاسا کھڑا پاکستان‘ ایران کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن گیس پائپ لائن منصوبہ اور ایران سے بجلی حاصل کرنے جیسے توانائی کے دیگر منصوبوں کو امریکی دباؤ کی وجہ سے مکمل نہیں کیا جارہا! حقیقت یہی ہے کہ ’انقلاب جرأت پیدا کرتا ہے۔‘ پاکستان کی فیصلہ سازی اور ترجیحات کا تعین واضح لیکن عملی طور پر ہم (پاکستان) ایران سے آج بھی اتنا ہی دور ہیں‘ جتنا امریکہ کو اپنے قریب (دوست‘اتحادی) سمجھ کر مغالطے (سراب) کا شکار ہیں!
انقلاب ایران کے بعد ایران نے جن شعبوں میں حیرت انگیز اور تیزرفتاری کے ساتھ ترقی کی‘ اُن میں سیاحت کا شعبہ بھی شامل ہے جس میں ایران کا شمار دنیاکے دسویں بڑے ملک میں ہوتا ہے جبکہ موحولیاتی سیاحت (ایکو ٹورازم) کے لحاظ سے ایران دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ صنعتی میدان میں بھی ایران پیچھے نہیں۔ تیل و گیس کے شعبوں میں اُس کی تحقیق و ترقی ڈھکی چھپی نہیں۔ قلعی اُور کوبالٹ کی پیداوار کے لحاظ سے بالترتیب دنیا کا چوتھا اور بالترتیب 10واں بڑا ملک ہے۔ زراعت کے شعبے میں پیشرفت کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
سال 2007ء سے جاری ’’معیشت کے استقامتی پروگرام‘‘ کے تحت بالخصوص بے روزگاری پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے تاہم اِس پروگرام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایران کی اقتصادیات کو اصولی بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ غیر ملکی پابندیوں کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ایران سے بہت سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن آغاز اُس ’انقلاب‘ سے کرنا ہوگا‘ جس میں قوانین نہیں بلکہ اِن پر بلاامتیاز عمل درآمد یقینی ہو۔
ایران کے جمہوری اور اسلامی ہونے پر آج کی تاریخ میں کسی کو شک و شبہ نہیں اور یہ بات عملی طورپر ثابت کر دی گئی ہے کہ مسلمان ممالک کے لئے صرف جمہوریت ہی کافی نہیں بلکہ اس کے اسلامی ہونے سے صدیوں کا سفر عشروں میں طے کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ایران عالمی جنگ‘ امن و امان کے داخلی مسائل‘ اقتصادی بائیکاٹ‘ مالی پابندیوں‘ خطے اور عالمی سطح پر مسلط کی جانے والی ’میڈیا وار‘ جیسی بڑی بڑی آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلا ہے۔ جو بلاشک و شبہ ایران کی حکومت اور عوام کا فخریہ تاریخی کارنامہ اور خود اعتمادی کا بے مثال نمونہ ہے۔ ایران کی حکومت دنیا پر حاکم دو بلاکوں (روس و امریکہ) کے نظام کو ٹھکراتے ہوئے انقلاب اسلامی کی بنیادوں پر قائم ہوئی‘ اسی لئے ابتدا سے ہی سازشوں کا نشانہ بن گئی۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی مسلط کردہ جنگ اور اس کے نتیجے میں ملک اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات کے علاؤہ اقتصادی ناکہ بندی‘ ایران کے خلاف مغربی دنیا بالخصوص ان ممالک کے اہم حربے شمار ہوتے ہیں‘ جن کو انہوں نے ایرانی قوم کی حریت پسندی اور خودمختاری کی امنگوں کو کچلنے کے لئے آزمایا۔ امریکہ نے پہلی بار 1980ء میں تہران میں اپنے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے ردعمل میں ایران کا اقتصادی بائیکاٹ کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے طے کئے جانے والے کئی ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدوں کو منسوخ کردیا اور ایران سے اسلحہ کی خریدوفروخت کو غیرقانونی قراردیا۔ اسی طرح امریکہ میں ایران کے کئی ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے علاؤہ ایران اور امریکہ کے درمیان ہر قسم کے تجارتی لین دین کو بند کردیا گیا۔ یورپی یونین اور جاپان نے بھی امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے ایران کو فوجی ساز و سامان فروخت کرنا اور قرضے دینا اور اسی طرح ایران سے تیل خریدنا بند کردیا۔ 1980ء سے 1988ء تک مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی امریکہ نے ایران دشمنوں کو اقتصادی امداد کے ذریعے تقویت پہنچائی۔ اکتوبر 1987ء میں امریکی کانگریس کے فیصلے کے مطابق امریکی مصنوعات اور سامان کی ایران کو برآمدات ممنوع قرار دی گئیں۔ اس پابندی کا اطلاق اقتصادی‘ ٹیکنالوجی‘ سائنسی‘ عسکری اور اسٹریٹیجیک شعبوں پر ہوتا تھا یعنی یہ سازش کی گئی کہ ایران کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ مسلط کردہ جنگ میں شکست کے بعد امریکہ نے ایران کے خلاف ایک اور سازش کی اور اُس نے 1991ء میں کویت سے عراقی قبضے کے خاتمے کے لئے عراق پر حملہ کردیا۔ دفاعی شعبے میں ایران کی برتری روکنے کے لئے امریکی حکومت نے 1992ء میں ’’ایران و عراق فوجی ساز وسامان کے عدم پھیلاؤ‘‘ کا قانون منظور کیا‘ اس کی وجہ سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ ان برسوں کے دوران امریکہ اور اس کی پیروی میں مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر پابندیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ حالیہ برسوں میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لئے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا‘ تاکہ اپنے تئیں ایران کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ڈالی جا سکے۔
ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں اقتصادی‘ سائنسی‘ سیاسی و دیگر شعبوں میں عائد کی گئیں حتیٰ کہ ایران تیل سے برآمدات اور ایران کے مرکزی بینک پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ان نئی پابندیوں کا مقصد ایرانی معیشت کے تیل پر انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس بیہودہ تصور کے تحت لگائی گئیں کہ ان کے ذریعے ایرانی عوام کی معیشت کو معطل کرکے ایران حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں گے۔ مغرب کی ظالمانہ پابندیوں کے عوام کی زندگی کے اہم شعبوں بالخصوص ادویات‘ غذائی اشیاء اور صحت و سلامتی کے شعبے پر مضر اثرات مرتب ہوئے‘ تاہم یہ مغرب کے بیجا مطالبات پر مبنی مذموم عزائم بالخصوص جوہری پروگرام کی منسوخی کے مطالبے کے سامنے ایرانی قوم کی مزاحمت کے جذبے کو کم نہ کرسکے بلکہ ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اِس بات کا موقع ملا کہ بے پناہ ملکی ذرائع اور صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہوئے ملک کی ترقی و پیشرفت کے لئے ایک جامع پروگرام مرتب کرے‘ جس کی بنیاد انسانی طاقت و صلاحیت‘ علمی استعداد اور قدرتی ذرائع پر استوار ہو۔ معتبر عالمی اداروں کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ایران دنیا کی 18ویں بڑی معیشت ہے اور تیل کی پیداوار کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے‘ جبکہ گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔ عجب ہے کہ پاکستان کے ساتھ سرحد رکھنے والا ایران دنیا میں گیس کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن ہمارے ہاں گیس کی قلت کے باعث معیشت اور صنعتیں ٹھپ ہوئی پڑی ہیں۔ دریا کے کنارے پیاسا کھڑا پاکستان‘ ایران کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن گیس پائپ لائن منصوبہ اور ایران سے بجلی حاصل کرنے جیسے توانائی کے دیگر منصوبوں کو امریکی دباؤ کی وجہ سے مکمل نہیں کیا جارہا! حقیقت یہی ہے کہ ’انقلاب جرأت پیدا کرتا ہے۔‘ پاکستان کی فیصلہ سازی اور ترجیحات کا تعین واضح لیکن عملی طور پر ہم (پاکستان) ایران سے آج بھی اتنا ہی دور ہیں‘ جتنا امریکہ کو اپنے قریب (دوست‘اتحادی) سمجھ کر مغالطے (سراب) کا شکار ہیں!
انقلاب ایران کے بعد ایران نے جن شعبوں میں حیرت انگیز اور تیزرفتاری کے ساتھ ترقی کی‘ اُن میں سیاحت کا شعبہ بھی شامل ہے جس میں ایران کا شمار دنیاکے دسویں بڑے ملک میں ہوتا ہے جبکہ موحولیاتی سیاحت (ایکو ٹورازم) کے لحاظ سے ایران دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ صنعتی میدان میں بھی ایران پیچھے نہیں۔ تیل و گیس کے شعبوں میں اُس کی تحقیق و ترقی ڈھکی چھپی نہیں۔ قلعی اُور کوبالٹ کی پیداوار کے لحاظ سے بالترتیب دنیا کا چوتھا اور بالترتیب 10واں بڑا ملک ہے۔ زراعت کے شعبے میں پیشرفت کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
سال 2007ء سے جاری ’’معیشت کے استقامتی پروگرام‘‘ کے تحت بالخصوص بے روزگاری پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے تاہم اِس پروگرام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایران کی اقتصادیات کو اصولی بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ غیر ملکی پابندیوں کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ایران سے بہت سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن آغاز اُس ’انقلاب‘ سے کرنا ہوگا‘ جس میں قوانین نہیں بلکہ اِن پر بلاامتیاز عمل درآمد یقینی ہو۔
No comments:
Post a Comment