ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پائیدار ترقی‘ مربوط اصلاحات
پائیدار ترقی‘ مربوط اصلاحات
نتیجۂ کلام یہ ہے کہ ’خیبرپختونخوا حکومت بہت کچھ لیکن بہت کم وقت میں کرنا
چاہتی ہے۔‘ اُور یہی وجہ ہے کہ ایسی حکمت عملیوں کے مالی وسائل فراہم کرنے
میں قطعی وقت ضائع نہیں کیاجاتا‘ جن کے نتائج فوری سے فوراً بصورت نیک
نامی ظاہر ہوں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں میں بھی اسی
قسم کے ’اعمال‘ سے کیا نتائج برآمد ہوئے تھے اور اگر نام تبدیل کرکے وہی
غلطیاں دُہرائی جائیں گی تو اُن کے نتائج کس طرح مختلف نکل سکتے ہیں۔ سردست
پریشانی طالبات کی کم ہوتی ’شرح خواندگی‘ہے جس کے لئے خیبرپختونخوا کے
پچیس اِضلاع میں ایک ہزار ’کیمونٹی سکولز‘ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یاد
رہے کہ سال 2004ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف (UNICEF) کے تعاون
سے دیہات کی سطح پر اِسی قسم کے ہزاروں تعلیم ادارے قائم کئے گئے تھے لیکن
بعدازاں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اُس حکمت عملی کو ختم کرنا پڑا۔ فی
الوقت خیبرپختونخوا میں ایسے باضابطہ سرکاری سکولوں کا شمار درجنوں نہیں
بلکہ سینکڑوں میں ہے‘ جہاں خاطرخواہ مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی
سہولیات تک میسر نہیں! چاردیواری نہیں‘ پینے کا صاف پانی اور بیت الخلأ
نہیں‘ کئی سکولوں میں اُور بقول صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف خان ’’لڑکیاں
مختلف وجوہات کی بناء پر سکول نہیں جاتیں جس کی بہت سی دیگر وجوہات میں یہ
بات بھی شامل ہے کہ سکول اُن کی رہائشگاہوں سے دور دراز مقامات پر ہوتے ہیں
اور بسااُوقات وہاں تک جانا سفری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں
ہوتا۔‘‘ صوبائی وزیر برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم خود تسلیم کر رہے ہیں کہ
تعلیمی اِداروں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ فی اِدارہ کم تعداد ہی سہی لیکن
لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں ’سفری مشکلات‘ آڑے نہ آئیں جبکہ دوسری جانب
اعلیٰ تعلیم کی صوبائی وزارت ہے جو ایک نوتھیہ پشاور میں ایک ایسے کالج کو
ختم کرنے کا اَصولی فیصلہ کر چکی ہے‘ جہاں طالبات کی تعداد تھی حالانکہ ایک
سو سے زائد طالبات اور اہل علاقہ نے اِس پر احتجاج کیا‘ عدالت سے رجوع کیا
اور ہرممکنہ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ سازوں تک یہ بات پہنچائی کہ
دیکھئے اگر نوتھیہ کالج کو کسی دوسرے کالج میں ضم کردیا گیا تو بہت سی
طالبات کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ دور دراز کالج میں تعلیمی عمل جاری رکھ
سکیں۔ اِس لمحۂ فکریہ پر ایک ہی حکومت کے دو مختلف محکموں کے الگ الگ حکمت
عملیوں کا موازنہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں
ربط نہیں۔ اُن کے فیصلے اور حکمت عملیاں ایک دوسرے سے مربوط نہیں یقیناًسب
کی خواہش یہی ہے کہ وسائل کا ضیاع نہ ہو۔ کم مالی وسائل رکھنے والوں کو
زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے اور تعلیم کا عمل بناء تعطل جاری رہے لیکن (دست
بستہ عرض ہے کہ) اگر ابتدائی تعلیم (پرائمری سطح) پر توجہ مرکوز لیکن
سیکنڈری و ہائر سیکنڈری درجات میں ’ڈراپ آؤٹ‘ ہوتا رہے‘ تو اِس سے اصلاحاتی
عمل کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ کیا ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ بچے
بچیاں اپنا نام لکھ پڑھ سکیں اور ’خواندگی‘ کی یہی تعریف ہم نے قبول کر لی
ہے تو ۔۔۔ اُن کو ناموس بھی‘ عزت بھی پذیرائی بھی۔۔۔ مجھ کو رونے کو میسر
نہیں تنہائی بھی!‘‘
ترقی اور تبدیلی کسی فرد واحد کی خواہش یا ادارہ جاتی چال چلن میں اصلاحات سے نہیں آئے گی بلکہ اِس کے لئے ’مربوط فیصلہ سازی‘ کرنا ہوگی۔ سرکاری خزانے سے مالی وسائل مختص کرنا کہاں کا کمال‘ بات تو تب ہے‘ جب ہر ایک پیسے کے ساتھ اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر نجی تعلیمی اِداروں کی فیسیں کیوں بھر رہے ہیں؟ ہمارے ہاں صحت و تعلیم کے شعبوں میں تسلی بخش خدمات اور معیار نجی اداروں سے کیوں وابستہ ہے؟ ہمارے ہاں شعبۂ تعلیم چاہے ابتدائی و ثانوی ہو یا اعلیٰ اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا‘ جب تک اِس کے فیصلہ ساز اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں تعلیم نہیں دلواتے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی تجویز ہے کہ ہر سرکاری ملازم‘ وزیر و مشیر کے لئے لازم ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کو صرف اور صرف سرکاری سکولوں میں داخل کرائے تو راتوں رات سرکاری اداروں کے حالات بدل سکتے ہیں۔سردست سرکاری ادارے نوکریاں بانٹنے کا ذریعہ ہیں‘ جن کے لئے قواعد بدلتے رہتے ہیں لیکن اہلیت کا مستقل تقاضا ’سیاسی وابستگی‘ ہے‘ جس سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے گیارہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کے ہاتھ اگر کچھ آیا ہے تو وہ ایک ایسی اُمید ہے‘ جس کے پورا ہونے کی اُمید نہیں! سرکار سے تنخواہیں‘ مراعات‘ اندرون و بیرون ملک تربیت کے مواقع اور عزت و تکریم پانے والوں کے لئے ’سزا وجزأ‘ کا تعین اور احتساب کی ذمہ داری کیا عام آدمی (ہم عوام) کی بنتی ہے یا یہ کام اُن فیصلہ سازوں نے کرنا ہے جو خود ہی مدعی اور منصف جیسے منصب پر فائز ہیں؟
ترقی اور تبدیلی کسی فرد واحد کی خواہش یا ادارہ جاتی چال چلن میں اصلاحات سے نہیں آئے گی بلکہ اِس کے لئے ’مربوط فیصلہ سازی‘ کرنا ہوگی۔ سرکاری خزانے سے مالی وسائل مختص کرنا کہاں کا کمال‘ بات تو تب ہے‘ جب ہر ایک پیسے کے ساتھ اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر نجی تعلیمی اِداروں کی فیسیں کیوں بھر رہے ہیں؟ ہمارے ہاں صحت و تعلیم کے شعبوں میں تسلی بخش خدمات اور معیار نجی اداروں سے کیوں وابستہ ہے؟ ہمارے ہاں شعبۂ تعلیم چاہے ابتدائی و ثانوی ہو یا اعلیٰ اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا‘ جب تک اِس کے فیصلہ ساز اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں تعلیم نہیں دلواتے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی تجویز ہے کہ ہر سرکاری ملازم‘ وزیر و مشیر کے لئے لازم ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کو صرف اور صرف سرکاری سکولوں میں داخل کرائے تو راتوں رات سرکاری اداروں کے حالات بدل سکتے ہیں۔سردست سرکاری ادارے نوکریاں بانٹنے کا ذریعہ ہیں‘ جن کے لئے قواعد بدلتے رہتے ہیں لیکن اہلیت کا مستقل تقاضا ’سیاسی وابستگی‘ ہے‘ جس سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے گیارہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کے ہاتھ اگر کچھ آیا ہے تو وہ ایک ایسی اُمید ہے‘ جس کے پورا ہونے کی اُمید نہیں! سرکار سے تنخواہیں‘ مراعات‘ اندرون و بیرون ملک تربیت کے مواقع اور عزت و تکریم پانے والوں کے لئے ’سزا وجزأ‘ کا تعین اور احتساب کی ذمہ داری کیا عام آدمی (ہم عوام) کی بنتی ہے یا یہ کام اُن فیصلہ سازوں نے کرنا ہے جو خود ہی مدعی اور منصف جیسے منصب پر فائز ہیں؟
No comments:
Post a Comment