Sunday, February 8, 2015

Feb2015: Thinking about Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فکر پشاور
صوبائی دارالحکومت کا ظاہری حسن بحال کرنے کے لئے جاری کوششوں میں جہاں ’چیچک زدہ‘ سڑکوں کی اَزسرنو تعمیر یا مرمت ہو رہی ہے وہیں بحال کی جانے والی شاہراؤں کو تادیر اصل حالت میں بحال رکھنے کی فکر بھی متعلقہ حکام کے پیش نظر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’رنگ روڈ‘ کی تعمیر و مرمت‘ کشادگی اور بحالی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ’ٹریفک پولیس‘ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ ’’رنگ روڈ پر کم اَز کم 2 مقامات پر گاڑیوں کا وزن کرنے کے آلات نصب کئے جائیں‘ تاکہ بھاری گاڑیاں بالخصوص افغانستان سازوسامان کی راہداری یا صنعتوں کے لئے مال برداری کرنے والے ٹرک‘ کنٹینر و دیگر وہیکلز میں مقررہ حد سے زیادہ وزن نہ ڈالا جائے‘ جس سے سڑکوں کی جلد (skin) اکھڑ جاتی ہے اور وہ نہ صرف کناروں بلکہ اُن کا درمیانی حصہ بھی بوجھ کے سبب دھنس جاتا ہے۔ یہ عمل موسم گرما میں زیادہ تیزی سے ہوتا ہے جبکہ سڑکیں دھوپ کی شدت سے پہلے ہی نرم ہوئی ہوتی ہیں۔ چونکہ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے اِس لئے ایک طرف بڑے بڑے نامور کاروباری و صنعتکار معززین خام مال کی ترسیل یا بنائی جانے والی اشیاء کو مارکیٹ کرتے ہوئے اِس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ گاڑیوں پر زیادہ وزن ڈالنے سے سڑکوں کا نظام متاثر ہوگا۔ دوسری جانب اِن شاہراؤں کی دیکھ بھال اور ٹریفک کے بہاؤ کے لئے متعین اداروں نے ذمہ داریاں کچھ اِس طرح بانٹ رکھی ہیں کہ کسی ایک بے قاعدگی کے لئے کوئی ایک ’قصوروار‘ ٹھہرایا ہی نہیں جاسکتا۔ سڑکوں کی خراب حالت کے باعث ٹریفک حادثات الگ سے رونما ہوتے ہیں جن سے قیمتی انسانی جانوں کاناقابل تلافی نقصان اور ٹریفک کے سست بہاؤ کی وجہ سے ہر روز ایندھن و وقت کا ضیاع جیسے محرکات یکساں توجہ طلب امور ہیں۔

’پشاور کی فکر‘ کرنے والے ٹریفک پولیس کے فرض شناس اہلکار‘ ڈی ایس پی ہیڈکواٹر ’اَصغر مروت‘ سلامت رہیں جنہوں نے پشاور کے ترقیاتی اِدارے‘ پشاور ڈویلپمنٹ اِتھارٹی (پی ڈی اَے) اور ڈپٹی کمشنر کے نام تحریر میں پشاور کی سڑکوں کو اِضافی بوجھ سے لاحق خطرات اور اِنہیں بچانے کے لئے چند ضروری اِقدامات تجویز کئے ہیں۔ ماضی میں پشاور کے راستے اِفغانستان بڑے پیمانے پر سازوسامان کی نقل وحمل ہوئی‘ کیونکہ وہاں غیرملکی افواج کے لئے بھاری مشینری سے لیکر روزمرہ استعمال کی اشیاء کا زیادہ تر حصہ زمینی راستوں سے ہو کر جاتا تھا‘ تاہم اَفغانستان سے غیرملکی افواج کی بڑی تعداد واپس ہو چکی ہے اور اب ماضی کی طرح بھاری مشینری کی نقل و حمل نہیں ہوتی لیکن چونکہ افغانستان سمندر سے دوری کی وجہ سے ’لاکڈ لینڈ‘ ہے‘ اِس لئے اُن کی درآمدات کی ترسیل زمینی راستوں ہی سے ہوتی ہے۔ ٹریفک پولیس کے مطابق ’’ماضی میں جو غلطی کی گئی‘ اُس سے سبق سیکھتے ہوئے ’اُوور لوڈ (over-load)‘ گاڑیوں کو حال ہی میں بحال ہونے والے ’رِنگ روڈ‘ سے دُور رکھا جائے۔ یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ ’رنگ روڈ‘ نے پشاور کی ٹریفک کے بوجھ کو بڑی حد تک بانٹ دیا ہے اُور اگر ہم اِس کی حفاظت نہ کرسکے تو اَندیشہ ہے کہ یہ دوبارہ ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے پیر زکوڑی فلائی اُوور (چغل پورہ) اُور ’موٹروے ٹول پلازہ‘ کے قریب مال بردار گاڑیوں کا وزن کرنے کے لئے آلات نصب کی سفارش کی گئی ہے‘ جس پر اُمید ہے دردمندی سے غور کیا جائے گا۔

ٹریفک پولیس کے حکام جس ’فرض شناسی‘ کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ ماضی میں اِس کی مثال نہیں ملتی لیکن کیا مسئلہ صرف مال بردار گاڑیوں کے ’اُوور لوڈ‘ ہونے کا ہے یا مسافر بسوں میں بھی وزن کی مقررہ حد سے زیادہ سامان ٹھونس دیا جاتا ہے؟ کیا صرف ’رِنگ روڈ‘ ہی کی فکر کی جائے یا پھر جی ٹی روڈ سمیت دیگر سڑکیں بھی ہمارے مواصلاتی نظام کا حصہ ہیں جن کی ’صحت و تندرستی‘ کے بارے میں فکر کی ضرورت ہے؟ جس طرح موٹروے اور رنگ روڈ کے نکتۂ آغاز (جی ٹی روڈ کے سنگم) پر وزن کرنے کے آلات نصب کرنے کی سفارش کی گئی ہے کہ اِسی طرح وزن کرنے کے آلات ’جنرل بس اِسٹینڈ‘ کے خارجی راستے پر بھی ہونے چاہیءں کیونکہ ہمارے ہاں سازوسامان کی ترسیل کے لئے مسافر بسوں کا اِستعمال ہوتا ہے۔ بین الاضلاعی و بین الصوبائی مسافر بسیں اسمگلنگ کے لئے استعمال ہوتی ہیں لیکن اس بارے میں نہ تو ٹریفک حکام اور نہ ہی متعلقہ پولیس اہلکار زیادہ بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ اَلمیہ ہے کہ مسافر بسوں‘ منی بسوں‘ فلائنگ کوچز‘ کوسٹر و ہائی ایس گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو بھی سوار کیا جاتا ہے لیکن ٹریفک پولیس ’نجی ٹرانسپورٹ مافیا‘ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قواعد پر عمل درآمد ممکن نہیں بنا سکتی اور اِس کی بڑی وجہ یہ نہیں تو اُور کیا ہیکہ منتخب نمائندے‘ سینیٹرز‘ وزیر‘ مشیر‘ عدلیہ‘ افسرشاہی حتیٰ کہ دیگر ماتحت اہلکاروں کی بڑی تعداد یا تو سرکاری گاڑیاں استعمال کرتی ہے یا سفر کے لئے اُن کے پاس نجی گاڑیوں کی کمی نہیں ‘ جس کی وجہ سے اُنہیں احساس ہی نہیں کہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ استعمال کرنے والوں کے دکھ کیا ہیں اور عام آدمی کو ہر مرتبہ سفر کرنے کی صورت کس ذہنی اذیت‘ کرب اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے! جنرل بس اسٹینڈ میں تجاوزات اگر ختم نہیں ہو رہیں‘ تو اِسی چاردیواری کے اندر کی دنیا دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے‘ جہاں کے بے تاج بادشاہوں کو قانون یا قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسی کسی شے کا خوف نہیں۔ سفری کرائے ناموں پر عمل درآمد نہ ہونا‘ معمولی بات ہے لیکن گاڑی میں پاؤں رکھنے کی جگہ تک نہ ہونا‘ مسافر اپنے گھٹنے اور سامان کا بیگ چھاتی سے لگائے گھنٹوں اذیت و تکلیف محض اِس لئے برداشت کریں کیونکہ اُنہوں نے فیصلہ سازی اور نمائندگی کا اختیار جن لوگوں کو بطور اعزاز دیا ہے‘ اُن کی ترجیحات ہی الگ ہیں۔’’آشفتگی سے اُس کی‘ اُسے بے وفا نہ جان۔۔۔عادت کی بات اُور ہے‘ دل کا بُرا نہیں!

فکر پشاور کا تقاضا (ضرورت) یہ ہے کہ ’پشاور کے رہنے والوں یا اُن انسانوں کے بارے میں بھی کچھ تفکر کیا جائے‘ جو خطرات مرصع‘ذلت و رسوائی سے مزین لمحہ لمحہ زندگی اور اپنے عزیزواقارب کی بے جرم سزا کے طور پر ملنے والی موت برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں!

No comments:

Post a Comment