Saturday, February 7, 2015

Feb2015: Toleration against corruption

ژر ف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
یہ وقت گرچہ زوال کا ہے‘ کمال کا ہے
پشاور سے کراچی تک مسئلہ طرز حکمرانی کے نقائص کا ہے‘ جس میں بڑی سے بڑی بدعنوانی معاف اور چھوٹی سی غلطی سنگین تصور کی جاتی ہے۔ یہ عمومی روش جنگلات کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی حکمت عملی سے لیکر اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے جس وزیر جنگلات کو بدعنوانی کی وجہ سے فارغ کیا گیا اُس کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لئے عدالت یا انسداد بدعنوانی یا قومی احتساب بیورو سے رابطہ نہیں کیا گیا اور نتیجہ یہ رہا کہ نہ صرف عام آدمی بلکہ خواص بھی بھول گئے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی سے کس کس نے کتنا فائدہ اُٹھایا۔ اگر ہم کسی اعلیٰ شخصیت کو نشان عبرت بناتے تو آج یہ صورتحال پیش نہ آتی کہ دہشت گردوں کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کے بعد ہمیں کسی دوسرے محاذ پر اپنی توجہ مرکوز کرنا پڑتی۔

پاکستان میں بدعنوانی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے جس پر نظر رکھنے کے لئے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ کو زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’کراچی میں کلفٹن کے ساحل پر تین سو پچاس ایکڑ اراضی غیرقانونی طور پر فروخت کی گئی جبکہ حیدرآباد میں اراضی کا ایک ایسا ہی سکینڈل سپرئم کورٹ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک پٹیشن کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے گلشن سرمست کے نام سے بیس ہزار آٹھ سو ایکڑکے ایک نئے مجوزہ پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا‘ جو سرکاری اراضی کے بتیس مربع میل کے علاقے پر پھیلا ہوا تھا‘ اس منصوبے کی منظوری گزشتہ سال پچیس مئی کو دی گئی تھی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سپرئم کورٹ کے ساحل پر تین سو پچاس ایکڑ اراضی کے سودے سے سندھ حکومت کو روکا اور ساتھ ہی مینگروز (سمندر کے ساحلی علاقوں) کے جنگلات پر مشتمل چھ سو ایکڑز کی زمین کی فروخت سے بھی صوبائی حکومت کو باز رکھا ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے الزام عائد کیا ہے کہ چار سو ارب مالیت کی اراضی وزیراعلیٰ سندھ کے ایک سابق سیکرٹری کو الاٹ کی گئی! سپرئم کورٹ کے روبرو پٹیشن میں دلیل دی گئی ہے کہ اس زمین کی قیمت میں ہیرا پھیری کی جارہی ہے اور اس پورے منصوبے کو بلڈرز اور ڈیولپرز کے ساتھ‘ سندھ حکومت کے کچھ عہدے داروں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ڈیزائن کیا گیا۔ سندھ کے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے انتیس مارچ دو ہزار چھ کو جاری کیے گئے ایک گزٹیڈ نوٹیفکیشن‘ جو موجودہ مارکیٹ کی قیمت پر زمین کی قیمتوں کے تعین کاطریقہ کار فراہم کرتا ہے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت سندھ قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے بلڈرز اور نجی شعبے کے دیگر لوگوں کے فائدے کے لئے ایک کمیٹی کی جانب سے متعین کردہ کم سے کم قیمت پر اصرار کررہی ہے! لمحۂ موجود میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ بے قاعدگیاں صرف صوبہ سندھ تک محدود ہیں یا اِن کی مثالیں خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں؟ جہاں ترقیاتی کاموں کا معیار اور اُن کی طبعی عمر نہ ہونے کے برابر ہے بنگلے اور کوٹھیاں تو سلامت رہتی ہیں لیکن ایک بارش سے سڑکیں‘ گلیاں اور نالیاں بہہ جاتی ہیں!

خیبرپختونخوا حکومت نے جنگلات کے تحفظ کے جس عزم کا اظہار کیا ہے‘ اُسے عملی جامہ پہنانے کے لئے عملی اقدامات کے علاؤہ اُن عناصر کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے جنہوں نے قومی وسائل پر ہاتھ صاف کیا۔ جو بات ذرائع ابلاغ میں رپورٹ نہیں ہوئی وہ یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن میں کل بارہ لاکھ ایکڑ پر رقبے پر جنگلات ہیں‘ ان میں سرکاری جنگلات کا کل رقبہ ڈیڑھ لاکھ ایکڑ‘ غیرسرکاری (گزارہ) جنگلات کا کل رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے اور ساڑھے چار لاکھ ایکڑ رقبے پر ’واٹرشیڈ جنگلات‘ میں ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں سالانہ کم و بیش تین ہزار ایکڑ پر شجرکاری ہوتی ہے اور ہزارہ میں سالانہ ڈیڑھ سے دو لاکھ ایکڑ پر جنگلات کٹ جاتے ہیں! جو بات تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ شجرکاری مہم کی کامیابی سوفیصد نہیں ہوتی لیکن درخت سوفیصدی کٹ جاتے ہیں! نئی حکمت عملی کے تحت نجی جنگلات کے مالکان کو تحفظ کے لئے اقدامات کا حصہ بنا دیا گیا ہے‘ جو ایک روایت کا تسلسل ہے اور یہی وہ امر ہے جو اصلاح چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی (انگریز بہادر نے) میں جو جنگلات گزارہ کے نام پر (مختلف وجوہات کی بناء پر) نجی ملکیت میں دیئے اور اب اُن علاقوں کے رہنے والوں کو گیس (ایندھن) فراہم کر دی گئی ہے تو شاخ تراشی کے نام پر درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ نام تو شاخ تراشی کا ہے لیکن اس کی آڑ میں (بقول وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا) ’’پورے پورے درخت کا قتل کر دیا جاتا ہے۔‘‘ جنگلات صرف اُور صرف حکومت کی ملکیت ہوں اور دوسرا لائق توجہ اَمر یہ ہے کہ تنہا درختوں کی ہے جو رہائشی علاقوں یا شاہراؤں کے کنارے ہوتے ہیں اور انہیں سڑکیں کشادہ کرنے کے نام پر کاٹ دیا جاتا ہے۔ راتوں رات سینکڑوں درخت اگر اِس لئے کاٹے جا رہے ہیں کہ ہمیں اپنی گاڑیاں بھگانے میں دشواری نہ ہو تو پھر یہ فیصلے کی گھڑی ہے کہ ہم صرف جنگل کی نہیں بلکہ ہر ایک درخت کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ پہاڑوں سے زیادہ درخت کی ضرورت رہائشی علاقوں میں ہے‘ ہر ایک درخت اور ہر ایک ٹہنی پر لگے پتے کی ضرورت ہے‘ کاش کہ ہم وہ بات جان سکیں جو ہمارے علاؤہ ’’سارا باغ‘‘ جانتا ہے!

No comments:

Post a Comment