ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محروم توجہ جنگلات
محروم توجہ جنگلات
خیبرپختونخوا حکومت مبارک باد کی مستحق ہے جس نے ہزارہ ڈویژن میں ’جنگلات
کی کٹائی‘ کا نوٹس لیتے ہوئے درجنوں کی تعداد میں ’محکمۂ جنگلات‘ کے
ملازمین کو معطل کیا جبکہ بائیس ایسے اہلکاروں کی معطلی کا اعلان بھی جلد
متوقع ہے جو سنگین بے قاعدگیوں میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔ اِس
سلسلے میں خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت ’تحریک انصاف‘ کے سربراہ عمران خان
نے جنگلات کی کٹائی سے متعلق ایک خفیہ رپورٹ پر اپنی دیگر مصروفیات ترک
کرکے شنکیاری (مانسہرہ) کا دورہ کرنے اور جنگلات کی کٹائی والے علاقوں کا
فضائی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تو اپنے ساتھ وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو
رکھنا نہیں بھولے لیکن بات صرف شنکیاری اور سرن ویلی کے قیمتی جنگلات کی
کٹائی تک ہی محدود نہیں بلکہ جبوڑی سچاں‘ دھڑیال‘ دیولی‘ جبڑ کونش ویلی‘
ڈاڈر‘ جابہ تمبری‘ اکھڑیلہ‘ جنڈوال اور دیگر علاقوں میں جتنی کٹائی بھی کی
گئی وہ سب کی سب غیرقانونی ہے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر انسداد بدعنوانی
خیبرپختونخوا نے ایکشن لیتے ہوئے معطل کئے جانے والے مذکورہ اہلکاروں کے
خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے جملہ بالائی علاقوں میں جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کا عمل کیا راتوں رات مکمل کیا گیا؟ کیا کٹائی کے بعد لکڑی جادو کے زور سے غائب کرکے اسمگل کر دی گئی یا اِسے شاہراہ قراقرم کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کیا گیا؟ درجنوں کی تعداد میں ’فارسٹ چیک پوسٹ‘ اگر موجود ہیں تو کیا وہاں پر تعینات محکمۂ جنگلات کے اہلکار بھی اِس منظم و گھناؤنے دھندے کا حصہ رہے ہیں؟ جنگلات کی کٹائی کرنے اور انہیں فروخت کرنے والے کردار کون ہیں کیونکہ محکمۂ جنگلات کے اہلکاروں کا جرم تو صرف اتنا ہی ہے کہ اُنہوں نے بے دریغ کٹائی پر دانستہ طور پر آنکھیں بند رکھیں۔ محکمۂ جنگلات کے جن اہلکاروں کو معطل کیا گیا‘ اُن میں ایسے بھی ہی ہیں جن کی چند ماہ قبل تعیناتیاں ہوئی ہیں‘ ایسے کسی ایک یا دیگر اہلکاروں کا قصور کیا ہے‘ جبکہ اُن سے پہلے اہلکار بے قاعدگیوں کے لئے ذمہ دار تھے۔ کیا اُن تمام اہلکاروں کو جنگلات کی کٹائی سے متعلق تحقیقات میں شامل کیا جائے گا؟ درختوں کی کٹائی سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے‘ جو درخت کٹ چکے ہیں‘ اُنہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا تو باقی ماندہ جنگلات کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟ جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لئے گذشتہ برس دھوم دھام سے شروع کی گئی ’شجرکاری مہم‘ کا احوال کیا ہے؟ کیا جنگلات نجی اَفراد کی ملکیت ہیں‘ جنہیں اِس بات کا حق (ملکیت) حاصل ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہیں جنگلات کی کٹائی کر سکتے ہیں؟ جنگلات کے تحفظ سے متعلق قوانین اور محکمانۂ قواعد پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘ لیکن اس سلسلے میں لائحہ عمل معین کرنے قبل تمام متعلقہ افراد (اسٹیک ہولڈرز) کا غوروخوض اور بحث و مباحثے ضروری ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ماحول و جنگلات کی حفاظت کے لئے کام کرنے والی عالمی امدادی اِدارے (آئی این جی اُوز) بشمول ’ورلڈ کنزرویشن یونین (آئی یو سی این)‘ نے خیبرپختونخوا میں فعال کردار اَدا کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ یاد رہے کہ ’آئی یو سی این‘ نے 278 صفحات پر مشتمل ایک جامع حکمت عملی بنام ’’سرحد پراونس کنزرویشن اسٹریٹیجی (اِیس پی سی اِیس)‘‘ تخلیق کی‘ جسے جون 1996ء میں صوبائی کابینہ نے منظور کیا لیکن 1980ء سے تحفظ ماحول‘ جنگلات و جنگلی حیات‘ زراعت‘ تحفظ خوراک‘ اور پائیدار ترقی پر کام شروع ہوا۔ ’آئی یو سی این‘ کی تیار کردہ حکمت عملی 1992ء میں منظور ہوئی لیکن اِس پر کام کا آغاز 1987ء میں ہوا تھا یعنی پانچ برس کے ’ہوم ورک‘ کے بعد رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش ہوئی۔ اکتوبر 1993ء میں کتابی شکل میں شائع ہونے والی حکمت عملی سے خیبرپختونخوا حکومت کو بڑی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔ یہ دستاویز iucn.org نامی ویب سائٹ سے بلاقیمت ڈاؤن لوڈ (حاصل) کی جاسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور عمران خان کو لازمی طور پر اِس دستاویز کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ جس میں جنگلات کے تحفظ سے متعلق بھی کئی ایک اقدامات اور لائحہ عمل موجود ہے۔
ہزارہ ڈویژن کے جملہ بالائی حصوں جنگلات جیسی دولت کے علاؤہ آمدنی کے ذرائع موجود نہیں۔ مقامی افراد کو نہ تو ملازمتیں میسر ہیں اور نہ ہی سیاحت و معدنیات کے وسائل سے مالامال اِس خطے کی تعمیر و ترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں اگر نجی شعبے یا دوست ممالک کے سامنے تجاویز رکھی جاتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ سرمایہ کار ضرور راغب ہوتے۔ کاش جنگلات و قدرتی وسائل سے مالامال یہ خطہ صوبہ پنجاب کا حصہ ہوتا‘ تو اَب تک یہاں کے رہنے والوں کی قسمت ہی بدل چکی ہوتی۔ ملکۂ کوہسار مری کا موازنہ خیبرپختونخوا کی گلیات سے کرنے پر یہ حقیقت بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے ہاں ارباب اختیار نے گلیات کی زمین سوائے اپنے ناموں پر منتقل کرنے اور کم سے کم ترقی پر خاص توجہ دی اگر ایسا نہ ہوتا تو ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے ’سرکل بکوٹ‘ کی آٹھ یونین کونسلیں غربت و پسماندگی کی جیتی جاگتی تصویر نہ ہوتیں‘ جہاں آسائش تو دور کی بات رابطہ شاہراہیں‘ صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں اور یہ سارا علاقہ بھی جنگلات کی دولت سے مالامال ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے التجا ہے کہ اُنہوں نے گذشتہ برس ضمنی اِنتخابات کے موقع پر PK-45 کے لوگوں سے جن ترقیاتی کاموں کے وعدے کئے تھے‘ اُنہیں پورا کریں کیونکہ جنگلات کا وجود اہل علاقہ کے لئے معنی نہیں رکھتا‘ اگر انہیں بھوک پیاس‘ سردی کی شدت‘ غلامی و محرومی کا اِحساس سکھ کا سانس لینے نہیں دے رہا‘ اُور یہی وجہ ہے کہ وہ جس شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں‘ اُسی کو کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے!‘‘
سوال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے جملہ بالائی علاقوں میں جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کا عمل کیا راتوں رات مکمل کیا گیا؟ کیا کٹائی کے بعد لکڑی جادو کے زور سے غائب کرکے اسمگل کر دی گئی یا اِسے شاہراہ قراقرم کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کیا گیا؟ درجنوں کی تعداد میں ’فارسٹ چیک پوسٹ‘ اگر موجود ہیں تو کیا وہاں پر تعینات محکمۂ جنگلات کے اہلکار بھی اِس منظم و گھناؤنے دھندے کا حصہ رہے ہیں؟ جنگلات کی کٹائی کرنے اور انہیں فروخت کرنے والے کردار کون ہیں کیونکہ محکمۂ جنگلات کے اہلکاروں کا جرم تو صرف اتنا ہی ہے کہ اُنہوں نے بے دریغ کٹائی پر دانستہ طور پر آنکھیں بند رکھیں۔ محکمۂ جنگلات کے جن اہلکاروں کو معطل کیا گیا‘ اُن میں ایسے بھی ہی ہیں جن کی چند ماہ قبل تعیناتیاں ہوئی ہیں‘ ایسے کسی ایک یا دیگر اہلکاروں کا قصور کیا ہے‘ جبکہ اُن سے پہلے اہلکار بے قاعدگیوں کے لئے ذمہ دار تھے۔ کیا اُن تمام اہلکاروں کو جنگلات کی کٹائی سے متعلق تحقیقات میں شامل کیا جائے گا؟ درختوں کی کٹائی سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے‘ جو درخت کٹ چکے ہیں‘ اُنہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا تو باقی ماندہ جنگلات کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟ جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لئے گذشتہ برس دھوم دھام سے شروع کی گئی ’شجرکاری مہم‘ کا احوال کیا ہے؟ کیا جنگلات نجی اَفراد کی ملکیت ہیں‘ جنہیں اِس بات کا حق (ملکیت) حاصل ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہیں جنگلات کی کٹائی کر سکتے ہیں؟ جنگلات کے تحفظ سے متعلق قوانین اور محکمانۂ قواعد پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘ لیکن اس سلسلے میں لائحہ عمل معین کرنے قبل تمام متعلقہ افراد (اسٹیک ہولڈرز) کا غوروخوض اور بحث و مباحثے ضروری ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ماحول و جنگلات کی حفاظت کے لئے کام کرنے والی عالمی امدادی اِدارے (آئی این جی اُوز) بشمول ’ورلڈ کنزرویشن یونین (آئی یو سی این)‘ نے خیبرپختونخوا میں فعال کردار اَدا کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ یاد رہے کہ ’آئی یو سی این‘ نے 278 صفحات پر مشتمل ایک جامع حکمت عملی بنام ’’سرحد پراونس کنزرویشن اسٹریٹیجی (اِیس پی سی اِیس)‘‘ تخلیق کی‘ جسے جون 1996ء میں صوبائی کابینہ نے منظور کیا لیکن 1980ء سے تحفظ ماحول‘ جنگلات و جنگلی حیات‘ زراعت‘ تحفظ خوراک‘ اور پائیدار ترقی پر کام شروع ہوا۔ ’آئی یو سی این‘ کی تیار کردہ حکمت عملی 1992ء میں منظور ہوئی لیکن اِس پر کام کا آغاز 1987ء میں ہوا تھا یعنی پانچ برس کے ’ہوم ورک‘ کے بعد رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش ہوئی۔ اکتوبر 1993ء میں کتابی شکل میں شائع ہونے والی حکمت عملی سے خیبرپختونخوا حکومت کو بڑی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔ یہ دستاویز iucn.org نامی ویب سائٹ سے بلاقیمت ڈاؤن لوڈ (حاصل) کی جاسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور عمران خان کو لازمی طور پر اِس دستاویز کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ جس میں جنگلات کے تحفظ سے متعلق بھی کئی ایک اقدامات اور لائحہ عمل موجود ہے۔
ہزارہ ڈویژن کے جملہ بالائی حصوں جنگلات جیسی دولت کے علاؤہ آمدنی کے ذرائع موجود نہیں۔ مقامی افراد کو نہ تو ملازمتیں میسر ہیں اور نہ ہی سیاحت و معدنیات کے وسائل سے مالامال اِس خطے کی تعمیر و ترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں اگر نجی شعبے یا دوست ممالک کے سامنے تجاویز رکھی جاتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ سرمایہ کار ضرور راغب ہوتے۔ کاش جنگلات و قدرتی وسائل سے مالامال یہ خطہ صوبہ پنجاب کا حصہ ہوتا‘ تو اَب تک یہاں کے رہنے والوں کی قسمت ہی بدل چکی ہوتی۔ ملکۂ کوہسار مری کا موازنہ خیبرپختونخوا کی گلیات سے کرنے پر یہ حقیقت بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے ہاں ارباب اختیار نے گلیات کی زمین سوائے اپنے ناموں پر منتقل کرنے اور کم سے کم ترقی پر خاص توجہ دی اگر ایسا نہ ہوتا تو ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے ’سرکل بکوٹ‘ کی آٹھ یونین کونسلیں غربت و پسماندگی کی جیتی جاگتی تصویر نہ ہوتیں‘ جہاں آسائش تو دور کی بات رابطہ شاہراہیں‘ صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں اور یہ سارا علاقہ بھی جنگلات کی دولت سے مالامال ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے التجا ہے کہ اُنہوں نے گذشتہ برس ضمنی اِنتخابات کے موقع پر PK-45 کے لوگوں سے جن ترقیاتی کاموں کے وعدے کئے تھے‘ اُنہیں پورا کریں کیونکہ جنگلات کا وجود اہل علاقہ کے لئے معنی نہیں رکھتا‘ اگر انہیں بھوک پیاس‘ سردی کی شدت‘ غلامی و محرومی کا اِحساس سکھ کا سانس لینے نہیں دے رہا‘ اُور یہی وجہ ہے کہ وہ جس شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں‘ اُسی کو کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے!‘‘
No comments:
Post a Comment