Thursday, February 5, 2015

Feb2015: Expensive Health Care

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ صحت: مفاد عامہ کے تصوارت
خیبرپختونخوا حکومت کو اِحساس ہے کہ صحت کے شعبے میں اِصلاحاتی عمل اُور معیاری علاج کے لئے خطیر مالی وسائل مختص کرنے جیسی کوششیں نہ تو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے کافی ثابت ہو سکتی ہیں اور نہ ہی اِن کے خاطرخواہ نتائج برآمد اُس وقت تک برآمد ہو سکتے ہیں جب تک کہ طب سے وابستہ ’نجی شعبہ‘ اِس سلسلے میں تعاون نہ کرے۔ سرکاری علاج گاہوں کے انتظامی معاملات اور معیاری علاج کی فراہمی کے لئے طبی عملے کو جس دردمندی کا مظاہرہ کرنے کی بار بار درخواستیں کی جاتی رہی ہیں‘ وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوئیں اور جب نجی علاج گاہوں کے معاملات سے متعلق صوبائی کابینہ نے چند ٹھوس اقدامات اٹھانے کی منظوری دی‘ تو بھی بااثر افراد نے اِس حکمت عملی کو قانون کا حصہ بننے یعنی صوبائی اسمبلی میں پیش ہونے اور منظور کرانے کے قبل ہی ’مزید غور‘ کے بہانے اِدھر اُدھر کر دیا۔ قانون ساز ایوان چاہے قومی ہو سینیٹ یا صوبائی اسمبلی‘ مفاد عامہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں کے لئے اپنی اپنی ترجیحات عزیز ہوتی ہیں چونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے لئے کارکنوں سے چندہ لینے کا رواج نہیں اِس لئے ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی سرمایہ دار یا صنعتکار طبقے سے مالی وسائل کی صورت تعلق وابستہ رکھتی ہے اور بعدازاں قانون سازی یا فیصلہ سازی کے مراحل میں اُن طبقات کے مفادات کی ضامن ہوتی ہے‘ جنہوں نے انتخابات اور بعدازاں مالی وسائل فراہم کئے ہوتے ہیں۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے جب سیاستدان یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو بیرون ملک سے ملنے والی امداد بند ہونی چاہئے اور مسجد یا مدرسے کے اخراجات کے لئے سڑک کے کنارے چارپائی ڈال کر چندہ اکٹھا کرنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو اپنے گریبان میں نہیں جھانکنے کا تو رواج ہی نہیں رہا‘ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے والوں کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اِس اعتراض کا بھی جواب دینا چاہئے کہ جن سیاسی جماعتوں سے وہ خود وابستہ ہیں‘ اُن کے لئے مالی وسائل کون دے رہا ہے‘ کیوں دے رہا ہے اور حلف اُٹھا کر خیانت‘ بددیانتی و دروغ گوئی کرنے والوں کے لئے کیا سزا تجویز کرنی چاہئے! ’’تیسری بات جھوٹ ہوتی ہے: عشق ہوتا ہے یا نہیں ہوتا!‘‘

عام آدمی کے لئے اگر صحت کی خاطرخواہ سہولیات میسر نہیں تو دوسری جانب اُن محرکات کا بھی تدارک نہیں کیا جارہا جن کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مثال کے طورپر پینے کے صاف پانی کی فراہمی۔ اگر تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں اُور کچھ بھی نہ کرے اور صرف پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہی ممکن بنا دے تو کئی ایک بیماریاں بالخصوص یرقان کے تیزی سے پھیلاؤ کے امکانات کم کئے جا سکیں گے۔ انسانی فضلے کو تلف کرنے‘ گھریلو اور صنعتی ٹھوس غلاظتکے علاؤہ سرکاری و نجی علاج گاہوں سے جمع ہونے والی جراثیم آلود گندگی سوفیصد ٹھکانے لگانے کے لئے انتظامات اپنی جگہ نہ صرف اہمیت رکھتے ہیں بلکہ اِن کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اگر صحت سمیت مختلف شعبوں کے لئے مختص مالی وسائل (سالانہ بجٹ) کی روایت سے ہٹ کر تمام اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط کر دیا جائے تو بیماریوں کے علاج اور اُن کے اسباب کا تداراک زیادہ مؤثر طور پر کیا جا سکے گا۔

سرکاری علاج گاہوں سے وابستہ معالجین کی ایک بڑی تعداد اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی انصاف سے کر رہی ہے لیکن کہیں نہ کہیں رہ جانے والی خامی اور کمی دور کرنے کی ضرورت ہے یا الفاظ دیگر یوں کہئے کہ بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغان مہاجرین کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ شورش زدہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریض بھی جس بڑی تعداد میں پشاور کا رخ کرتے تھے اب ایسا نہیں رہا۔ پشاور میں ہوٹل‘ سرائے اور رہائش کی دیگر سہولیات سے استفادہ بھی ماضی کی طرح آسان نہیں رہا اور اِن سبھی محرکات کا منفی اَثر ’پرائیویٹ پریکٹس‘ کرنے والے ڈاکٹروں پر پڑا ہے‘ جنہوں نے مقامی افراد کے لئے معائنہ‘ علاج و جراحت کی مقررہ فیسیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ماہر ڈاکٹروں کی معائنہ فیس پانچ سو سے سات سو اور ایک ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ یہی ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں میں بھی ملازم ہیں لیکن ’تسلی بخش معائنہ‘ اور علاج تو بہرحال نجی طور پر رابطہ کرنے ہی سے ہوتا ہے۔

 صوبائی حکومت کو سردست دو محاذوں پر ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا‘ ایک تو سرکاری علاج گاہوں میں خدمات کا معیار اِس حد تک بڑھانا ہوگا کہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو جائے اور دوسرا نجی پریکٹس کرنے والوں کو ’ہاتھ ہلکا‘ رکھنے کے لئے قواعد و ضوابط کا پابند بنانا ہوگا کیونکہ علاج آسائش نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے اور کم آمدنی رکھنے والے طبقات جن میں صحافی بھی شامل ہیں‘ شدید مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ اگر ہم صحافی کا شمار ’باشعور طبقے‘ میں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سطحی تصورات کو تحقیق سے مزین اور الفاظ کے چناؤ سے ترتیب دے کر قابل عمل بنا کر پیش کرنے والے ’’صحافی‘‘ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اجتماعی مفاد کے لئے مسائل کی تہہ تک پہنچنے اور حقائق سے متعلق تحقیق و جستجو کرکے فیصلہ سازوں کی رہنمائی کرے‘ متاثرین کے محسوسات اور حالات کو ’آن ریکارڈ (منظرعام پر)‘ لانے کی ذمہ داری غیرجانبدار رہتے ہوئے ادا کرے اور ’’صحافت‘‘نامی اُس پرمعنی لفظ کی عکاسی کرنے کا حق ادا کرے جو صحیفے سے اخذ ہے! تو اس کی زندگی میں کچھ آسانیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی۔ صحافی کی کوئی ایک جامع تشریح ممکن نہیں لیکن اگر کسی ایک تشریح پر اتفاق کرنا ہو تو وہ یہی ہو گی کہ ایک ایسا اصلاح کار جسے ’سب کا بھلا‘ عزیز ہو‘ اور جو یہ چاہے کہ دوسرے اُس کے وجود و ضرورت کا انکار نہ کریں! لیکن توقعات بھلا کب پوری ہوتی ہیں‘ نجی زندگی کے دکھ‘ تشویش اور مسائل روزمرہ کی ’تگ و دو‘ تلے دب کر دم توڑ جاتے ہیں! احساس کی شعوری طاقت رکھنے والوں کے لئے ’’خبر‘‘ ہے کہ ۔۔۔ ’مالی وسائل‘ کے بغیر زندگی معنی تو رکھتی ہے لیکن وجود نہیں! ’’تم تو اِتنا اُداس ہو جیسے۔۔۔ یہ محبت کا آخری دن ہو!‘‘

No comments:

Post a Comment