Thursday, February 19, 2015

Feb2015: After Rain Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: بارشیں ہیں بارشوں کے بعد بھی!
موسم سرما کا بیشتر حصہ ’خشک‘ بسر کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئی ہیں اور اٹھارہ فروری بعداز دوپہر بارش کا سلسلہ رواں ماہ کا دوسرا سلسلہ ہے‘ جو چوبیس گھنٹے سے جاری جبکہ مزید بیس فروری تک بارش ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ ابھی بادل کھل کر نہیں برس رہے لیکن پشاور کے سبھی نشیبی علاقے زیرآب آنے سے اہل علاقہ مشکلات کا شکار ہے جو کسی بھی طور صوبائی دارالحکومت شہر کے شایان شان نہیں۔ بالخصوص جی ٹی روڈ سے ملحقہ سیٹھی ٹاؤن‘ نشترآباد اور گلبہار سے نکاسئ آب حسب ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی شدت صرف وہی جانتے ہیں‘ جو اِن رہائشی و تجارتی سے کسی نہ کسی طور وابستہ ہیں۔ جنرل بس اسٹینڈ اُور ٹرک اسٹینڈ میں یوں تو سارا سال ہی پانی کے تالاب اور کیچڑ سے بھرے گڑھے ہر آنے جانے والے کا استقبال کرتے ہیں لیکن ہلکی سی بارش کے بعد تو اِن پبلک مقامات سے صرف تجربہ کار و راستوں سے آشنا ہی استفادہ کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ کی مالی معاونت سے جی ٹی روڈ پر ’گرین بیلٹ‘ بحال کی گئی اور اِس کے کچھ حصے راتوں رات سرسبز بنا دیئے گئے لیکن چونکہ ترقیاتی عمل سے ’فوری نتائج‘ حاصل کرنا ترجیح تھی‘ اِس لئے رحمان بابا چوک سے چغل پورہ تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف ذیلی سڑکیں اور نکاسئ آب کے اُس نظام کی اصلاح نہیں ہوسکی‘ جس نے ترقی کے پورے عمل کو ’بے معنی‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں مالی وسائل خرچ کرتے ہوئے ’پائیدار‘ اور ’معیاری‘ جیسے پہلوؤں کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور یہی وجہ رہتی ہے کہ ہر ایک تعمیر کے بعد مزید تعمیرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے سڑک بنائی جاتی ہے‘ پھر اُسے کھود کر نالے نالیاں کشادہ کی جاتی ہیں یا پانی کے پائپ بچھائے جاتے ہیں یا بجلی کے کھمبے‘ گیس کے ترسیلی پائپ یا ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ‘ آپٹیکل فائبر کی کیبل بچھانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ آخر کسی سڑک کی تعمیر سے قبل دیگر متعلقہ محکموں سے مشاورت کیوں نہیں کی جاتی کہ جس کسی نے اپنی اپنی سہولیات کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو‘ تو وہ سڑک و فٹ پاتھ کی تعمیر سے قبل کر لے۔ افسوس کہ سرکاری ادارے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے۔ ہر کسی نے اپنی اپنی ذات کے گرد ایک دائرہ لگا رکھا ہے‘ جس کے باہر ’علاقہ ممنوعہ‘ کا بورڈ آویزاں کرکے رابطے کی کوشش کرنے والوں سے تعاون نہیں کیا جاتا۔ سرکاری محکموں کے انتظامی نگران اپنی اپنی ذات میں خود کو ’عقلِ کل‘ سمجھتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ’پشاور کی تعمیر و ترقی‘ کا عمل یوں نقائص کا مجموعہ دکھائی نہ دیتا کہ ہرسال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ تو سڑکوں کی لمبائی و توسیع میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی سہولیات آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا بوجھ برداشت کر پا رہی ہیں۔ اعتراف حقیقت تو یہ ہوگا کہ ہم اپنی ناکامی و نااہلی کا اعتراف کر لیں۔ ہمارے پاس انجنیئرز کی کمی نہیں‘ جو سڑکوں کی تعمیر کے ہر ایک مرحلے کی نگرانی کرتے ہیں لیکن بارش ہوتے ہی سڑک یا تو بہہ جاتی ہے یا پھر اِس میں نمودار ہونے والے گڑھے سفر کی بنیادی ضرورت کو ناخوشگوار حد تک تکلیف دہ بنا دیتے ہیں۔ کیا ہمیں کسی ایسے ’نئے محکمے کی ضرورت‘ ہے جو تعمیر و ترقی کے ایک جیسے عمل میں شریک جملہ سرکاری اداروں کے درمیان ’رابطہ کاری اُور تعلق‘ کو مربوط و مضبوط بنائیں؟

فکری فتور یہ ہے کہ ہم ہر کسی سے بات کرتے ہیں لیکن اپنے آپ سے نہیں پوچھتے کہ ناکامیوں کا سبب بننے والے محرکات کیا ہے! آخر کیا وجہ ہے کہ انتہائی سوچ بچار کے بعد مرتب کی جانے والی حکمت عملیاں تکمیل کے بعد خاطرخواہ نتائج نہیں دیتیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بارشوں کے بعد بارشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمارے ہاں گھر کئے ہوئے ہے؟ شہری ترقی کے عمل کو ’زیادہ بامعنی زیادہ بامقصد‘ بنانے کے لئے جہاں ایک ’خصوصی رابطہ دفتر‘ کی ضرورت ہے‘ وہیں پشاور کی سطح پر ایک ایسا ’مشاورتی عمل‘ متعارف کرانے کی کمی بھی عرصۂ دراز سے محسوس کی جا رہی ہے‘ جس میں ترجیحات کا تعین اُور کسی ترقیاتی منصوبے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں فیصلہ سازی سے قبل مقامی اَفراد کی رائے معلوم کر لی جائے۔ عین ممکن ہے کہ بڑے بڑے مستند ماہرین کی توجہ کسی ایسے باریک نکتے کی جانب نہ ہو‘ جس پرتوجہ دینے سے ترقیاتی عمل کا مجموعی معیار و افادیت بڑھ جائے! اگر اَرباب اختیار کو سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ’عوام الناس‘ سے گھلنے ملنے سے روک دیا گیا ہے تو وہ ذرائع ابلاغ ’ایف ایم یا اے ایم ریڈیو اور حکومتی ٹیلی ویژن چینل کی نشریات‘ کے ذریعے براہ راست ٹیلی فون کالز سن سکتے ہیں اور یوں وہ منقطع رابطے پھر سے بحال ہو جائیں گے‘ جو منطقی و غیرمنطقی جواز کے تحت منقطع ہو چکے ہیں۔ جن علاقوں میں ٹیرسٹیل ٹیلی ویژن (Terrestrial) کی نشریات نہیں پہنچتیں‘ وہاں اے ایم (AM) یا ایف ایم (FM) ریڈیو اسٹیشن کی لہریں ضرور توجہ سے سنی جاتی ہیں۔ اگر اخبارات کے ذریعے مشتہر کرکے متعلقہ اراکین صوبائی اسمبلی ہر ہفتے ’ریڈیو ٹیلی ویژن کچہریوں‘ کا انعقاد کریں تو بہتر طرز حکمرانی (good governance) کے اہداف بھی حاصل ہوسکیں گے اور ایسی عمدہ مثالیں بھی قائم کی جاسکیں گی‘ جو آنے والوں نمائندوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ منتخب عوامی نمائندے ہفتے‘ پندرہ دن یا ایک ماہ میں لازماً کم از کم ایک مرتبہ اہل حلقہ سے براہ بات چیت کریں‘ اُن کے دکھ سکھ سنیں اور اپنی اُن کوششوں سے اہل حلقہ کو آگاہ کریں‘جو وہ بالخصوص بہتری لانے کے لئے کر رہے ہیں۔ ہمیں منتخب نمائندوں کی نیت پر شک نہیں اور نہ ہی اُن کی کارکردگی کے بارے میں اِس بدگمانی کا شکار ہیں کہ وہ اپنی اپنی دنیا میں اُس بنیادی اکائی (ووٹر) کو بھول چکے ہیں‘ جس نے تبدیلی کے لئے‘ تمام تر داخلی و خارجی مخالفت و مزاحمت کے باوجود اُن کے حق میں ووٹ دیا لیکن بہتری کی یہ شکل و صورت ناقابل قبول و بیان ہے کہ ’تبدیلی ڈھونڈے بھی نہیں ملتی۔‘

 بڑے بڑے فیصلوں اور بڑی بڑی کامیابیوں کے ساتھ پاؤں تلے زمین کے ٹکڑے پر بھی نظر کرنی چاہئے‘ جہاں ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلا ہوا ہے۔ یہ متوسط و غریب بستیوں پر مشتمل پشاور کا وہ عمومی منظرنامہ ہے جس کے اکثریتی علاقے چند روزہ بارش کے بعد خستہ حالی (پھسلن) کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بارش کی دعائیں اور تبدیلی جیسے انقلابی نظریئے کی حمایت کرنے والے شاید آئندہ سوچ سمجھ اُور پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے پر مبنی محتاط روش (اِنتہاء کی بجائے کوئی ایسا درمیانی راستہ) اِختیار کریں‘جس سے راحت نہ سہی بنیادی ضروریات تو میسر ہوں‘ خرابئ بسیار کا اندازہ اِس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔ اَب تو پشاور کے کئی ایک حصے بارش جیسی نعمت کے بھی متحمل نہیں رہے!

No comments:

Post a Comment