ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: راندۂ درگاہ!
پشاور: راندۂ درگاہ!
اِنتظار اور زحمت کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں! خیبرپختونخوا حکومت نے
پشاور کے لئے ’میٹرو بس‘ کا ایک ’’نیا منصوبہ‘‘ تخلیق کیا ہے جس پر 18 ارب
روپے لاگت آئے گی اور یہ خطیر رقم ’ایشیائی ترقیاتی بینک (ایشین ڈویلمپنٹ
بینک)‘ سے قرض کی صورت حاصل کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو منصوبے کی تفصیلات
سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ پشاور کے رہنے والوں کو میٹرو بس کا تحفہ کب ملتا
ہے‘ اِس کا انحصار اب صوبائی حکومت پر نہیں رہا بلکہ وفاقی حکومت کی جانب
سے فراخدلی‘ اعلیٰ ظرفی اور سخاوت کے بروقت اظہار سے توقعات وابستہ کر لی
گئیں ہیں!
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور شہر میں 45 مسافر بسیں 29 اسٹیشنوں کے درمیان 27 کلومیٹر سڑک پر برق رفتار (’Bus Rapid Transit‘) تعمیر کی گئی ہے اور یہ سفری سہولیات گیارہ فروری دو ہزار تیرہ سے فعال ہیں جبکہ جڑواں شہر روالپنڈی سے اسلام آباد کے درمیان 24 بس اسٹیشنوں پر مشتمل 24 کلومیٹر میٹروبس منصوبہ زیرتعمیر ہے‘ اِن دونوں منصوبوں کی طرز پر ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے پشاور کے لئے بھی ’میٹروبس‘ کا ایک سے زیادہ مرتبہ اعلان کیا لیکن دیگر ترجیحات اور منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات کی بابت تنقید کی بناء پر یہ منصوبہ ملتوی کر دیا گیا۔ اِس مرتبہ اَزسرنو مرتب ہونے والے ’پشاور میٹروبس منصوبے‘ کی لاگت کم کرنے کے لئے اِسے موٹروے کی طرز پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی دیگر شہروں کی طرح الگ سے پل (bridge) بنا کر ’میٹرو بس‘ کے لئے سڑک نہیں بنائی جائے گی بلکہ ’چمکنی سے کارخانو مارکیٹ‘ براستہ ’جی ٹی روڈ‘ ایک راہداری مخصوص ہوگی جس کے اطراف میں خاردار تاریں اور جنگلے نصب ہوں گے جبکہ سڑک (street level) پر تیز رفتار مسافر بسیں فراٹے بھریں گی۔ اِس منصوبے کو ماحول دوست‘ محفوظ و آرام دہ سفری سہولت کے علاؤہ توانائی کی بچت کے ساتھ‘ پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ منصوبے کے خدوخال کے مطابق 17 کلومیٹر سڑک و گاڑیوں پر مشتمل اَٹھارہ ارب روپے کے اِس کثیرالمقاصد منصوبے کے لئے کاغذی کارروائی پر ایک ارب جبکہ اس کی عملاً تعمیر کے دیگر مراحل پر 17ارب روپے لاگت آئے گی{۔ چونکہ پشاور میں ترقی کا عمل عرصہ دراز سے سست روی کا شکار ہے‘ اِس لئے ایک بڑے میگا منصوبے کے بارے میں جان کر خون کی گردش تیز ہونا فطری عمل ہے لیکن تجویز ہے کہ ’میٹرو بس منصوبہ‘ مرحلہ وار انداز میں تعمیر کیا جائے‘ تو اِس کے لئے درکار مالی وسائل کسی غیرملکی مالیاتی ادارے سے مشروط قرض کی صورت حاصل کرنے کی حاجت نہیں رہے گی۔ پہلے مرحلے میں ’میٹروبس‘ کے لئے منتخب راہداری کے لئے جن ماہرین نے چمکنی سے کارخانو مارکیٹ (حیات آباد) کا راستہ چنا ہے‘ اُن کے سامنے رنگ روڈ (Ring Road) کا نقشہ رکھنا چاہئے تاکہ معطل ترقیاتی عمل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر ’ماہرانہ غور و خوض‘ ہو۔ مجوزہ پشاور میٹرو بس منصوبے کی تیاری کے لئے تیس ماہ اُور اٹھارہ ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ جبکہ منصوبے کی وفاقی سطح پر منظوری‘ قرض کی قسط وار وصولی‘ منصوبہ بندی (کاغذی کارروائی یعنی پی سی ون کی تیاری)‘ زمینی جائزے وغیرہ شروع ہونے میں مزید 10 سے 12ماہ لگ سکتے ہیں! اِس بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ ۔۔۔ پشاور کے پاس نسبتاً کم لاگت‘ کم وقت اور ’زیادہ مؤثر‘ آمدروفت کے دیگر ممکنہ وسائل (ذرائع) کیا ہیں؟
کون نہیں جانتا کہ چمکنی سے حیات آباد تک ’رنگ روڈ‘ کا ایک حصہ پشاور کی ٹریفک کے لئے شہ رگ جیسی اہمیت رکھتا ہے‘ جس کے استعمال سے بذریعہ موٹروے آنے والوں یا مقامی افراد کی بھی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ ملحقہ دیہی و شہری علاقوں کے علاؤہ کوہاٹ (جنوبی اضلاع)‘ ائرپورٹ‘ صدر‘ یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد کی رہائشی و تجارتی علاقوں تک رسائی کے لئے جی ٹی روڈ‘ خیبرروڈ‘ حیات ایونیو‘ جمرود روڈ کی بجائے رنگ روڈ کا ہی اِستعمال کریں لیکن اِس رنگ روڈ کا دوسرا حصہ جس نے چارسدہ روڈ براستہ ورسک روڈ اُور حیات آباد کو ملانا ہے‘ کی تعمیر مکمل نہیں کی جاسکی اور اگر ’پشاور میٹروبس منصوبے‘ سے قبل ’باقی ماندہ رنگ روڈ‘ کا کام مکمل کرلیا جائے تو اس سے ’ریگی للمہ ٹاؤن شپ‘ جیسے بڑے رہائشی منصوبے کو بھی ترقی ملے گی اور آبادکاری کا عمل تیز ہو جائے گا۔ ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل کے بعد سڑک کی ’میٹرو بس منصوبے‘ کی طرز پر ’ریل گاڑی‘ کے اُس ٹریک سے استفادہ کیا جائے جو پہلے ہی چمکنی سے حیات آباد تک بچھا ہوا ہے اور ریلوے کے زیراستعمال بھی نہیں۔
وفاقی حکومت سے قرض لینے کی درخواست کرنے کی بجائے اگر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ ریلویز اپنے وسائل کو ترقی دیتے ہوئے پشاور شہر کے لئے ’میٹرو ٹرین‘ کا منصوبہ شروع کرے‘ تو اِس کے لئے نہ تو زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے اور نہ ہی تیس ماہ جیسا طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ جی ٹی روڈ کو کشادہ کرنے کے امکانات بھی کم ہیں اور ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے اِس مصروف ترین شاہراہ پر مزید ترقیاتی کام بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جبکہ تک ’رنگ روڈ‘ کے باقی ماندہ حصے کی تکمیل نہیں ہوجاتی۔ ماضی کی ’بابو ٹرین‘ جیسی سہولت کا آغاز پشاور سٹی کے ریلوے اسٹیشن سے حیات آباد تک کیا جا سکتا ہے‘ جو برقی و شمسی توانائی ذرائع (ہائبرڈ) ہونے کے ساتھ محفوظ و تیزرفتاری کے لئے دو رویہ ہونی چاہئے۔
پشاور کی بدقسمتی نہیں تو اُور کیا ہے کہ موجودہ دور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان خوشگوار و گرمجوش تعلقات کے فقدان سے عبارت ہے۔ اسلام آباد و پشاو کے درمیان کبھی بھی فاصلے اتنے زیادہ نہیں رہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی‘ الگ الگ سیاسی اہداف‘ شہری ترقی و بہبود کے الگ الگ نظریات‘ آئندہ عام انتخابات پر نظریں اور ترقیاتی عمل سے متعلق ترجیحات کے تعین بارے میں تصورات کی آپس میں مماثلت نظر نہیں آتی لیکن ’نیک نامی و مقبولیت‘ حاصل کرنے کے مواقعوں پر نظر رکھنے والوں کے ’پیش نظر‘ پشاور کے اُس متوسط و غریب طبقات کی مشکلات نہیں‘ جن کے پاس ذاتی سفر کے وسائل نہیں۔ طالبعلموں بالخصوص طالبات اور ملازمت پیشہ‘ بزرگ و معمر افراد کو ہر روز آمدورفت کی صورت جن ناخوشگوار تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ یہ صرف وہی جانتے ہیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے بعد کوئی بھی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا‘ جس سے عام آدمی کو درپیش (اندرون یا بیرون شہر) سفری مشکلات میں کمی آتی! التجائیہ ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت اَزخود پشاور کی مشکلات و ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اِس ’راندۂ درگاہ شہر‘ کی ترقی کے لئے ’میگا پراجیکٹس‘ کے اعلانات کئے جائیں۔ پانچ شعبے یعنی پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کا خاطرخواہ بندوبست‘ نکاسی آب کے منصوبوں کی اصلاح‘ ذرائع آمدروفت کی توسیع اُور صحت و تعلیم کی سہولیات میں خاطرخواہ (حسب آبادی) اِضافہ عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔
بہرکیف اَب دیکھنا یہ ہے کہ اگر بات ’میٹرو بس منصوبے‘ کے ایک نئے تصوراتی خاکے سے شروع ہوئی ہے تو ’پشاور سے اسلام آباد‘ کے درمیان ’’آتے جاتے اُور جاتے آتے‘‘ یہ حکمت عملی ماضی کی طرح کس مقام پر تحلیل ہو جائے گی! ’’آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا ۔۔۔ اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں!‘‘
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور شہر میں 45 مسافر بسیں 29 اسٹیشنوں کے درمیان 27 کلومیٹر سڑک پر برق رفتار (’Bus Rapid Transit‘) تعمیر کی گئی ہے اور یہ سفری سہولیات گیارہ فروری دو ہزار تیرہ سے فعال ہیں جبکہ جڑواں شہر روالپنڈی سے اسلام آباد کے درمیان 24 بس اسٹیشنوں پر مشتمل 24 کلومیٹر میٹروبس منصوبہ زیرتعمیر ہے‘ اِن دونوں منصوبوں کی طرز پر ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے پشاور کے لئے بھی ’میٹروبس‘ کا ایک سے زیادہ مرتبہ اعلان کیا لیکن دیگر ترجیحات اور منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات کی بابت تنقید کی بناء پر یہ منصوبہ ملتوی کر دیا گیا۔ اِس مرتبہ اَزسرنو مرتب ہونے والے ’پشاور میٹروبس منصوبے‘ کی لاگت کم کرنے کے لئے اِسے موٹروے کی طرز پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی دیگر شہروں کی طرح الگ سے پل (bridge) بنا کر ’میٹرو بس‘ کے لئے سڑک نہیں بنائی جائے گی بلکہ ’چمکنی سے کارخانو مارکیٹ‘ براستہ ’جی ٹی روڈ‘ ایک راہداری مخصوص ہوگی جس کے اطراف میں خاردار تاریں اور جنگلے نصب ہوں گے جبکہ سڑک (street level) پر تیز رفتار مسافر بسیں فراٹے بھریں گی۔ اِس منصوبے کو ماحول دوست‘ محفوظ و آرام دہ سفری سہولت کے علاؤہ توانائی کی بچت کے ساتھ‘ پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ منصوبے کے خدوخال کے مطابق 17 کلومیٹر سڑک و گاڑیوں پر مشتمل اَٹھارہ ارب روپے کے اِس کثیرالمقاصد منصوبے کے لئے کاغذی کارروائی پر ایک ارب جبکہ اس کی عملاً تعمیر کے دیگر مراحل پر 17ارب روپے لاگت آئے گی{۔ چونکہ پشاور میں ترقی کا عمل عرصہ دراز سے سست روی کا شکار ہے‘ اِس لئے ایک بڑے میگا منصوبے کے بارے میں جان کر خون کی گردش تیز ہونا فطری عمل ہے لیکن تجویز ہے کہ ’میٹرو بس منصوبہ‘ مرحلہ وار انداز میں تعمیر کیا جائے‘ تو اِس کے لئے درکار مالی وسائل کسی غیرملکی مالیاتی ادارے سے مشروط قرض کی صورت حاصل کرنے کی حاجت نہیں رہے گی۔ پہلے مرحلے میں ’میٹروبس‘ کے لئے منتخب راہداری کے لئے جن ماہرین نے چمکنی سے کارخانو مارکیٹ (حیات آباد) کا راستہ چنا ہے‘ اُن کے سامنے رنگ روڈ (Ring Road) کا نقشہ رکھنا چاہئے تاکہ معطل ترقیاتی عمل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر ’ماہرانہ غور و خوض‘ ہو۔ مجوزہ پشاور میٹرو بس منصوبے کی تیاری کے لئے تیس ماہ اُور اٹھارہ ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ جبکہ منصوبے کی وفاقی سطح پر منظوری‘ قرض کی قسط وار وصولی‘ منصوبہ بندی (کاغذی کارروائی یعنی پی سی ون کی تیاری)‘ زمینی جائزے وغیرہ شروع ہونے میں مزید 10 سے 12ماہ لگ سکتے ہیں! اِس بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ ۔۔۔ پشاور کے پاس نسبتاً کم لاگت‘ کم وقت اور ’زیادہ مؤثر‘ آمدروفت کے دیگر ممکنہ وسائل (ذرائع) کیا ہیں؟
کون نہیں جانتا کہ چمکنی سے حیات آباد تک ’رنگ روڈ‘ کا ایک حصہ پشاور کی ٹریفک کے لئے شہ رگ جیسی اہمیت رکھتا ہے‘ جس کے استعمال سے بذریعہ موٹروے آنے والوں یا مقامی افراد کی بھی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ ملحقہ دیہی و شہری علاقوں کے علاؤہ کوہاٹ (جنوبی اضلاع)‘ ائرپورٹ‘ صدر‘ یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد کی رہائشی و تجارتی علاقوں تک رسائی کے لئے جی ٹی روڈ‘ خیبرروڈ‘ حیات ایونیو‘ جمرود روڈ کی بجائے رنگ روڈ کا ہی اِستعمال کریں لیکن اِس رنگ روڈ کا دوسرا حصہ جس نے چارسدہ روڈ براستہ ورسک روڈ اُور حیات آباد کو ملانا ہے‘ کی تعمیر مکمل نہیں کی جاسکی اور اگر ’پشاور میٹروبس منصوبے‘ سے قبل ’باقی ماندہ رنگ روڈ‘ کا کام مکمل کرلیا جائے تو اس سے ’ریگی للمہ ٹاؤن شپ‘ جیسے بڑے رہائشی منصوبے کو بھی ترقی ملے گی اور آبادکاری کا عمل تیز ہو جائے گا۔ ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل کے بعد سڑک کی ’میٹرو بس منصوبے‘ کی طرز پر ’ریل گاڑی‘ کے اُس ٹریک سے استفادہ کیا جائے جو پہلے ہی چمکنی سے حیات آباد تک بچھا ہوا ہے اور ریلوے کے زیراستعمال بھی نہیں۔
وفاقی حکومت سے قرض لینے کی درخواست کرنے کی بجائے اگر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ ریلویز اپنے وسائل کو ترقی دیتے ہوئے پشاور شہر کے لئے ’میٹرو ٹرین‘ کا منصوبہ شروع کرے‘ تو اِس کے لئے نہ تو زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے اور نہ ہی تیس ماہ جیسا طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ جی ٹی روڈ کو کشادہ کرنے کے امکانات بھی کم ہیں اور ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے اِس مصروف ترین شاہراہ پر مزید ترقیاتی کام بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جبکہ تک ’رنگ روڈ‘ کے باقی ماندہ حصے کی تکمیل نہیں ہوجاتی۔ ماضی کی ’بابو ٹرین‘ جیسی سہولت کا آغاز پشاور سٹی کے ریلوے اسٹیشن سے حیات آباد تک کیا جا سکتا ہے‘ جو برقی و شمسی توانائی ذرائع (ہائبرڈ) ہونے کے ساتھ محفوظ و تیزرفتاری کے لئے دو رویہ ہونی چاہئے۔
پشاور کی بدقسمتی نہیں تو اُور کیا ہے کہ موجودہ دور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان خوشگوار و گرمجوش تعلقات کے فقدان سے عبارت ہے۔ اسلام آباد و پشاو کے درمیان کبھی بھی فاصلے اتنے زیادہ نہیں رہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی‘ الگ الگ سیاسی اہداف‘ شہری ترقی و بہبود کے الگ الگ نظریات‘ آئندہ عام انتخابات پر نظریں اور ترقیاتی عمل سے متعلق ترجیحات کے تعین بارے میں تصورات کی آپس میں مماثلت نظر نہیں آتی لیکن ’نیک نامی و مقبولیت‘ حاصل کرنے کے مواقعوں پر نظر رکھنے والوں کے ’پیش نظر‘ پشاور کے اُس متوسط و غریب طبقات کی مشکلات نہیں‘ جن کے پاس ذاتی سفر کے وسائل نہیں۔ طالبعلموں بالخصوص طالبات اور ملازمت پیشہ‘ بزرگ و معمر افراد کو ہر روز آمدورفت کی صورت جن ناخوشگوار تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ یہ صرف وہی جانتے ہیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے بعد کوئی بھی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا‘ جس سے عام آدمی کو درپیش (اندرون یا بیرون شہر) سفری مشکلات میں کمی آتی! التجائیہ ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت اَزخود پشاور کی مشکلات و ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اِس ’راندۂ درگاہ شہر‘ کی ترقی کے لئے ’میگا پراجیکٹس‘ کے اعلانات کئے جائیں۔ پانچ شعبے یعنی پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کا خاطرخواہ بندوبست‘ نکاسی آب کے منصوبوں کی اصلاح‘ ذرائع آمدروفت کی توسیع اُور صحت و تعلیم کی سہولیات میں خاطرخواہ (حسب آبادی) اِضافہ عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔
بہرکیف اَب دیکھنا یہ ہے کہ اگر بات ’میٹرو بس منصوبے‘ کے ایک نئے تصوراتی خاکے سے شروع ہوئی ہے تو ’پشاور سے اسلام آباد‘ کے درمیان ’’آتے جاتے اُور جاتے آتے‘‘ یہ حکمت عملی ماضی کی طرح کس مقام پر تحلیل ہو جائے گی! ’’آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا ۔۔۔ اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں!‘‘
No comments:
Post a Comment