ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خود فراموشی
خود فراموشی
توانائی بحران کا حتمی حل ’شمسی توانائی‘ سمجھنے والوں نے پشاور سمیت مرکزی
شہروں کی گلی کوچوں اور شاہراؤں (’سٹریٹ لائٹس‘) کو روشن رکھنے کے علاؤہ
’خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں کو ’درآمد ٹیکنالوجی‘ سے روشن کرنے کا فیصلہ
کیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایک سال کے عرصے میں ’’200 ایسے
دیہی علاقوں میں 5800 گھروں کو منور کیا جائے گا‘ جہاں اِس سے قبل بجلی
فراہم نہیں کی جا سکی۔‘‘ یہ اقدام ایک لحاظ سے تو قابل ستائش ہے کہ حکومت
کو کم ازکم دورافتادہ دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا خیال آیا ہے‘ جن کی
معاشرت میں ’بجلی‘ نام کی شے اور اس سے ظہورپذیر ہونے والے کرشموں کا وجود
نہیں۔ توانائی بحران کی وجہ سے بجلی کے موجودہ ترسیلی نظام میں توسیع کا
عمل سالہا سال سے معطل ہے‘ جس میں بہتری کے فوری آثار نہیں لیکن محرومی صرف
برقی رو ہی کی نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں ’قدرتی گیس‘ کی فراہمی نہ ہونے
سے بھی کئی ایک مسائل بکھرے پڑے ہیں۔ گیس (Natural Gas) جو کہ ایک سستا
ایندھن ہونے کے علاؤہ ماحول دوست ذریعہ ہے اُور جن علاقوں میں تاحال قدرتی
گیس فراہم نہیں کی گئی‘ وہاں کے رہنے والے اِیندھن کے لئے جنگلات سے لکڑی
حاصل کرتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جنگلات پر بوجھ کے منفی نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور رواں برس جس انداز میں موسم سرما بناء بارشوں یا پہاڑی علاقوں میں برف باری کے بغیر گزرا ہے‘ اُس سے لامحالہ زراعت کا شعبہ‘ پیداوار اور بارانی علاقوں میں سبزی و اناج کی فصلیں متاثر ہوں گی‘ سبزی کی قیمتیں جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ اگر مزید بڑھ جاتیں ہیں تو یہ اُن غریب طبقات کے لئے خریدنا مشکل ہو جائیں گی جو پہلے ہی گوشت کا ذائقہ بھول چکے ہیں! لہٰذا صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ’ماحول دوستی اور دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بحرانوں کا حل تلاش کرے اور اس سلسلے میں نظرانتخاب چھوٹے پیمانے پر ’بائیوگیس منصوبوں‘ پر ہونی چاہئے۔
حکومتی سرپرستی درکار ہے کہ گھریلو (چھوٹے) اور صنعتی (بڑے) پیمانے پر بائیوگیس پلانٹس کی تیاری‘ اُن کی دیکھ بھال کی تربیت و دیگر متعلقہ تکنیکی علوم کے ساتھ ’فنی تربیت‘ عام کی جائے کیونکہ ’شمسی توانائی‘ کے لئے درکار جملہ آلات درآمد کئے جاتے ہیں جس کے بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جبکہ اِس کے مقابلے اگر ’بائیو گیس منصوبوں‘ کی ’حوصلہ افزائی‘ کی جاتی ہے تو اِس سے نہ صرف (بذریعہ جنریٹر) بجلی پیدا کی جاسکے گی بلکہ زرعی ٹیوب ویل بھی چلائے جاسکیں گے اور اِس بارے میں کہیں اُور دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ خیبرپختونخوا ہی کے ضلع صوابی کے گاؤں ’ٹوپی‘ میں قائم ’غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجنیئرنگ سائنسیز اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے ذہین طلباء نے کئی سال پہلے ایک حل متعارف کرایا تھا‘ جس کے مطابق اِنتہائی چھوٹے پیمانے پر بائیوگیس پلانٹ صرف دیہی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ شہری علاقوں میں گھروں کی چھتوں پر نصب کئے جا سکتے ہیں اور اُن سے اِس قدر گیس حاصل ہو سکتی ہے جس سے کھانا پکانے کے علاؤہ بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر تک چلایا جا سکے (یعنی ایک کنبے کی ضروریات پوری ہو سکیں) لیکن اُن طالبعلموں نے جب سالانہ نمائش میں اپنا منصوبہ پیش کیا تو انہیں داد اور تعریفی اسناد سے زیادہ کچھ نہیں دیا گیا! یاد رہے کہ ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ ہی کے طلباء نے ڈرون طیاروں کی طرز پر بناء پائلٹ ہوائی جہاز کے نمونے (ماڈلز) بنا کر اُن کی پروازوں کے عملی مظاہرے بھی کئے لیکن مجال ہے جو ارباب اختیار کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ہم امریکہ سے ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی التجائیں کرتے نہیں تھکتے لیکن اپنے ہاں تحقیق کی سرپرستی کے لئے تیار نہیں۔
بات صرف غلام اسحاق خان یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے ہاں انجنیئرنگ یونیوسٹیوں (جامعات) میں ایک سے بڑھ کر ایک تحقیق ہو رہی ہے جس سے استفادہ کرکے درپیش (بالخصوص توانائی) بحرانوں اور سیکورٹی چیلنجز سے نجات ممکن ہے لیکن فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں کی اپنی اپنی ترجیحات اور نکتۂ نظر ہے۔ ہمیں اِس بات میں بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز درآمد کریں۔ ہمیں اپنے مسائل کا حل بھی درآمد کرنے میں مزا آتا ہے اور حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مشاورت تک کے عمل میں بیرونی ملک پلنے والی ذہانت پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ صنعتی و ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ‘ سائنس دان اُور تحقیق کار اپنی ذہانت و صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں نہ تو عالم کی قدر ہے اور نہ ہی علم و تحقیق کی کماحقہ حوصلہ اَفزائی سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے۔
خود فریبی اور خود فراموشی کی اِس سے عمدہ و بدترین عملی اشکال اُور کیا ہوں گی کہ فیصلہ ساز قومی خزانے سے خرچ کرتے وقت نہ تو اپنی چادر (مالی حیثیت) کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ اُنہیں چادر سے باہر نکلے ہوئے اپنے پاؤں دیکھ کر عار محسوس ہوتی ہے! خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ 9 ماہ کے دوران ’200دیہات‘ میں فی دیہی علاقہ 29 گھروں کو شمسی توانائی فراہم کرنے کے لئے 40 کروڑ روپے (30 لاکھ 94 ہزار امریکی ڈالر) مختص کئے ہیں! جسے ’گرین گروتھ انیشیٹیو‘(Green Growth Initiative) کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو اِس منصوبے کا اعلان ایک سال قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں حکومت بننے کے فوراً بعد کر دیا تھا‘ لیکن اِسے عملی جامہ پہنانے اور منصوبے کے خدوخال وضع کرنے میں چار خصوصیات کی بطور خاص تشہیر کی گئی ہے کہ 1: شمسی توانائی منصوبے سے خیبرپختونخوا میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ 2: قدرتی وسائل کا بہتر استعمال ممکن ہوگا۔ 3: توانائی کا صاف ستھرا ذریعہ میسر آئے گا اور 4: جنگلات کی کٹائی کم ہوگی۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کا 40فیصد حصہ بجلی سے محروم ہے اور شمسی توانائی منصوبے سے صرف 10فیصد حصے میں رہنے والوں کو بجلی جیسی ’نعمت‘ مل پائے گی لیکن صرف اُن خوش نصیبوں کو جن کا گھر فی دیہی علاقہ 29گھروں کی فہرست میں شامل ہوگا۔ یہ تفصیلات دستیاب نہیں کہ کسی دیہی علاقے میں 29 خوش نصیب گھروں کا انتخاب کون کرے گا‘ جنہیں مفت شمسی توانائی کے آلات دیئے جائیں گے لیکن ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کی طرح اِس منصوبے کے پہلے مرحلے میں یقیناًاُنہیں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی سفارشات پر فہرستیں مرتب کی جائیں گی‘ جو حکمراں یا اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقی کے اِس بے معنی اور غیرپائیدار ’طرزِ فکر و عمل‘ کی بدولت اندیشہ ہے کہ چالیس کروڑ (چار سو ملین) روپے تحلیل ہو جائیں گے۔
توانائی کی اِس حکمت عملی کے تحت حکومت 90فیصد شمسی آلات کی قیمت ادا کرے گی جبکہ 10فیصد حصہ صارف کو ادا کرنا ہوں گے اُور فی گھرانہ 200 واٹ کا ایک سولر پینل‘ 2 عدد بیٹریاں‘ دیگر آلات جن کی مدد سے ایک عدد چھت کا پنکھا‘ ایک عدد فرشی (پیڈسٹل) پنکھا‘ تین عدد ایل ای ڈی لائٹس (LED) بلب روشن کئے جاسکیں گے جبکہ 2 عدد موبائل فون چارج (charge) کرنے کی سہولت بھی ایک ’سولر پاور سسٹم‘ کا حصہ ہوگی۔ مجموعی طور پر خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کے رہنے والوں کو شمسی توانائی کے ذریعے 1.2میگاواٹ بجلی کی فراہم ممکن ہوگی۔ یہ امر بھی زیرغور رہے کہ خیبرپختونخوا میں بجلی کی کل ضرورت 2500میگاواٹ ہے جبکہ قومی ترسیلی نظام (نیشنل گرڈ) سے 1600میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے‘ جس سے شہری و دیہی علاقوں میں بجلی کی اعلانیہ و غیراعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔
اگر ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ کے طلباء کی تحقیق سے فائدہ اُٹھایا جائے‘ تو چالیس کروڑ روپے کی رقم سے زیادہ بڑے پیمانے پر بجلی جیسی بنیادی ضرورت اور ماحول دوست توانائی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے لیکن ایسا صرف اُور صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ہم نمائشی اقدامات‘ خودستائش‘ خودفریبی اور خودفراموشی جیسی کیفیات سے نجات پالیں‘ جنہوں نے ہمارے سننے‘ سوچنے‘ سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیتیں سلب کر رکھی ہیں! ’’آخری عشق کی حالت ہو تو یہ ہوتا ہے۔۔۔ کوئی منظر بھی نہ ہو اُور نظارہ کئے جائیں!‘‘
بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جنگلات پر بوجھ کے منفی نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور رواں برس جس انداز میں موسم سرما بناء بارشوں یا پہاڑی علاقوں میں برف باری کے بغیر گزرا ہے‘ اُس سے لامحالہ زراعت کا شعبہ‘ پیداوار اور بارانی علاقوں میں سبزی و اناج کی فصلیں متاثر ہوں گی‘ سبزی کی قیمتیں جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ اگر مزید بڑھ جاتیں ہیں تو یہ اُن غریب طبقات کے لئے خریدنا مشکل ہو جائیں گی جو پہلے ہی گوشت کا ذائقہ بھول چکے ہیں! لہٰذا صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ’ماحول دوستی اور دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بحرانوں کا حل تلاش کرے اور اس سلسلے میں نظرانتخاب چھوٹے پیمانے پر ’بائیوگیس منصوبوں‘ پر ہونی چاہئے۔
حکومتی سرپرستی درکار ہے کہ گھریلو (چھوٹے) اور صنعتی (بڑے) پیمانے پر بائیوگیس پلانٹس کی تیاری‘ اُن کی دیکھ بھال کی تربیت و دیگر متعلقہ تکنیکی علوم کے ساتھ ’فنی تربیت‘ عام کی جائے کیونکہ ’شمسی توانائی‘ کے لئے درکار جملہ آلات درآمد کئے جاتے ہیں جس کے بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جبکہ اِس کے مقابلے اگر ’بائیو گیس منصوبوں‘ کی ’حوصلہ افزائی‘ کی جاتی ہے تو اِس سے نہ صرف (بذریعہ جنریٹر) بجلی پیدا کی جاسکے گی بلکہ زرعی ٹیوب ویل بھی چلائے جاسکیں گے اور اِس بارے میں کہیں اُور دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ خیبرپختونخوا ہی کے ضلع صوابی کے گاؤں ’ٹوپی‘ میں قائم ’غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجنیئرنگ سائنسیز اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے ذہین طلباء نے کئی سال پہلے ایک حل متعارف کرایا تھا‘ جس کے مطابق اِنتہائی چھوٹے پیمانے پر بائیوگیس پلانٹ صرف دیہی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ شہری علاقوں میں گھروں کی چھتوں پر نصب کئے جا سکتے ہیں اور اُن سے اِس قدر گیس حاصل ہو سکتی ہے جس سے کھانا پکانے کے علاؤہ بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر تک چلایا جا سکے (یعنی ایک کنبے کی ضروریات پوری ہو سکیں) لیکن اُن طالبعلموں نے جب سالانہ نمائش میں اپنا منصوبہ پیش کیا تو انہیں داد اور تعریفی اسناد سے زیادہ کچھ نہیں دیا گیا! یاد رہے کہ ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ ہی کے طلباء نے ڈرون طیاروں کی طرز پر بناء پائلٹ ہوائی جہاز کے نمونے (ماڈلز) بنا کر اُن کی پروازوں کے عملی مظاہرے بھی کئے لیکن مجال ہے جو ارباب اختیار کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ہم امریکہ سے ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی التجائیں کرتے نہیں تھکتے لیکن اپنے ہاں تحقیق کی سرپرستی کے لئے تیار نہیں۔
بات صرف غلام اسحاق خان یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے ہاں انجنیئرنگ یونیوسٹیوں (جامعات) میں ایک سے بڑھ کر ایک تحقیق ہو رہی ہے جس سے استفادہ کرکے درپیش (بالخصوص توانائی) بحرانوں اور سیکورٹی چیلنجز سے نجات ممکن ہے لیکن فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں کی اپنی اپنی ترجیحات اور نکتۂ نظر ہے۔ ہمیں اِس بات میں بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز درآمد کریں۔ ہمیں اپنے مسائل کا حل بھی درآمد کرنے میں مزا آتا ہے اور حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مشاورت تک کے عمل میں بیرونی ملک پلنے والی ذہانت پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ صنعتی و ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ‘ سائنس دان اُور تحقیق کار اپنی ذہانت و صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں نہ تو عالم کی قدر ہے اور نہ ہی علم و تحقیق کی کماحقہ حوصلہ اَفزائی سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے۔
خود فریبی اور خود فراموشی کی اِس سے عمدہ و بدترین عملی اشکال اُور کیا ہوں گی کہ فیصلہ ساز قومی خزانے سے خرچ کرتے وقت نہ تو اپنی چادر (مالی حیثیت) کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ اُنہیں چادر سے باہر نکلے ہوئے اپنے پاؤں دیکھ کر عار محسوس ہوتی ہے! خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ 9 ماہ کے دوران ’200دیہات‘ میں فی دیہی علاقہ 29 گھروں کو شمسی توانائی فراہم کرنے کے لئے 40 کروڑ روپے (30 لاکھ 94 ہزار امریکی ڈالر) مختص کئے ہیں! جسے ’گرین گروتھ انیشیٹیو‘(Green Growth Initiative) کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو اِس منصوبے کا اعلان ایک سال قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں حکومت بننے کے فوراً بعد کر دیا تھا‘ لیکن اِسے عملی جامہ پہنانے اور منصوبے کے خدوخال وضع کرنے میں چار خصوصیات کی بطور خاص تشہیر کی گئی ہے کہ 1: شمسی توانائی منصوبے سے خیبرپختونخوا میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ 2: قدرتی وسائل کا بہتر استعمال ممکن ہوگا۔ 3: توانائی کا صاف ستھرا ذریعہ میسر آئے گا اور 4: جنگلات کی کٹائی کم ہوگی۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کا 40فیصد حصہ بجلی سے محروم ہے اور شمسی توانائی منصوبے سے صرف 10فیصد حصے میں رہنے والوں کو بجلی جیسی ’نعمت‘ مل پائے گی لیکن صرف اُن خوش نصیبوں کو جن کا گھر فی دیہی علاقہ 29گھروں کی فہرست میں شامل ہوگا۔ یہ تفصیلات دستیاب نہیں کہ کسی دیہی علاقے میں 29 خوش نصیب گھروں کا انتخاب کون کرے گا‘ جنہیں مفت شمسی توانائی کے آلات دیئے جائیں گے لیکن ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کی طرح اِس منصوبے کے پہلے مرحلے میں یقیناًاُنہیں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی سفارشات پر فہرستیں مرتب کی جائیں گی‘ جو حکمراں یا اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقی کے اِس بے معنی اور غیرپائیدار ’طرزِ فکر و عمل‘ کی بدولت اندیشہ ہے کہ چالیس کروڑ (چار سو ملین) روپے تحلیل ہو جائیں گے۔
توانائی کی اِس حکمت عملی کے تحت حکومت 90فیصد شمسی آلات کی قیمت ادا کرے گی جبکہ 10فیصد حصہ صارف کو ادا کرنا ہوں گے اُور فی گھرانہ 200 واٹ کا ایک سولر پینل‘ 2 عدد بیٹریاں‘ دیگر آلات جن کی مدد سے ایک عدد چھت کا پنکھا‘ ایک عدد فرشی (پیڈسٹل) پنکھا‘ تین عدد ایل ای ڈی لائٹس (LED) بلب روشن کئے جاسکیں گے جبکہ 2 عدد موبائل فون چارج (charge) کرنے کی سہولت بھی ایک ’سولر پاور سسٹم‘ کا حصہ ہوگی۔ مجموعی طور پر خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کے رہنے والوں کو شمسی توانائی کے ذریعے 1.2میگاواٹ بجلی کی فراہم ممکن ہوگی۔ یہ امر بھی زیرغور رہے کہ خیبرپختونخوا میں بجلی کی کل ضرورت 2500میگاواٹ ہے جبکہ قومی ترسیلی نظام (نیشنل گرڈ) سے 1600میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے‘ جس سے شہری و دیہی علاقوں میں بجلی کی اعلانیہ و غیراعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔
اگر ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ کے طلباء کی تحقیق سے فائدہ اُٹھایا جائے‘ تو چالیس کروڑ روپے کی رقم سے زیادہ بڑے پیمانے پر بجلی جیسی بنیادی ضرورت اور ماحول دوست توانائی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے لیکن ایسا صرف اُور صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ہم نمائشی اقدامات‘ خودستائش‘ خودفریبی اور خودفراموشی جیسی کیفیات سے نجات پالیں‘ جنہوں نے ہمارے سننے‘ سوچنے‘ سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیتیں سلب کر رکھی ہیں! ’’آخری عشق کی حالت ہو تو یہ ہوتا ہے۔۔۔ کوئی منظر بھی نہ ہو اُور نظارہ کئے جائیں!‘‘
![]() |
Published version - Feb 22, 2015 Daily Aaj Peshawar /Abbottabad |
No comments:
Post a Comment