Sunday, February 22, 2015

Feb2015: Plantation minus agriculture

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زراعت محروم توجہ کیوں؟
دنیا جانتی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ اَمریکہ کا خلائی پروگرام ’نیشنل ایروناٹیکل اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا)‘ نامی ادارہ یکم اکتوبر 1958ء سے فعال ہے اور اِس ’غیرفوجی اِدارہ‘ سے تعلق رکھنے والے مختلف سائنسی علوم کے ماہرین خلأ میں زندگی کی تلاش کے علاؤہ ہمارے نظام شمسی پر بھی نظر رکھتے ہیں لیکن یہ بات عمومی مطالعے و مشاہدے کا حصہ نہیں کہ ’ناسا‘ کی نظریں صرف خلأ پر ہی نہیں جمی ہوئیں بلکہ یہ ادارہ کشش ثقل سے آزاد ہو کر انتہائی بلندیوں سے زمین کی طرف پلٹ کر بھی دیکھتا ہے اور یہ ’ناسا‘ ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے کہ زمین پرموجود سایہ دار یا بناء سایہ دار درختوں کی کل تعداد معلوم ہوئی ہے۔ اِس تحقیق کو اگر اب تک کی اِنسانی تاریخ کا سب سے بڑا اُور ’’اِنتہائی غیرمعمولی واقعہ‘‘ قرار دیا جائے‘ تو غلط نہ ہوگا کہ ۔۔۔ ’’کرۂ ارض پر زندہ انسانوں کی طرح درختوں کا شمار کر لیا گیا ہے‘‘ اُور ایسا کرنا قدرت ہی کی طرف سے درختوں کا عطا کردہ ایک ایسی صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے‘ جس میں ہر شجر ایک خاص قسم کی روشنی منعکس کرتا ہے اور یہ روشنی صرف اور صرف خلاء ہی سے دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ’ناسا‘ کے ماہرین ہمارے موسموں اور سمندروں کے مزاج کا تعین کر رہے تھے تو اُن پر یہ حقیقت آشکارہ ہوئی اور پھر درختوں سے منعکس ہونے والی روشنی کی بنیاد پر دنیا میں موجود ہر ایک درخت کو شمار کر لیا گیا!

 سال 2005ء میں کی گئی اِس تحقیق سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کل 400 ارب چوبیس کروڑ‘ تریسٹھ لاکھ‘ دو سو ایک درخت تھے! اُسی سال اکتیس دسمبر تک دنیا کی آبادی کم و بیش چھ ارب‘ پینتالیس کروڑ‘ ستاسٹھ لاکھ‘ اُناسی ہزار‘ آٹھ سو ستتر افراد پرمشتمل تھی‘ یعنی سال 2005ء میں سائنسی بنیادوں پر کی گئی تحقیق سے نتیجہ اَخذ ہوا کہ دنیا میں ہر ایک فرد کے تناسب سے 61 درخت موجود ہیں لیکن ماہرین نے درختوں کی اِس تعداد کو ناکافی قرار دیا‘ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ انسان وہ ذی شعور و عقل مخلوق ہے‘ جسے اپنی اصل تباہی کے محرک کا علم ہی نہیں کہ ’درختوں میں اُس کی جان ہے‘ اور یوں ہر سال درختوں کی تعداد کم ہونے کا شمار ماحول سے متعلق ماہرین و باشعور افراد کی تشویش میں اضافے کا سبب ہے!

جنگلات کی اقسام سطح سمندر سے بلندی کے تناسب سے طے کی جاتی ہیں۔ سطح سمندر سے ’بارہ ہزار فٹ‘ یا اِس سے بلندی پر پائے جانے والے جنگلات کو ’الپائن سبزہ زار (Alpine Pasture)‘ کہا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے دس سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ’جزوی الپائن سبزہ زار (Sub Alpine Pasture) کہلاتے ہیں۔ سطح سمندر سے 5500 سے 5800 فٹ بلندی پر واقع علاقوں کو ’ہوا میں پائی جانے والی رطوبت (Humidity)‘ کے تناسب سے شناخت کیا جاتا ہے جو ’نمدار درجہ حرارت والے جنگلات (Moist Temperate Forest) کہلاتے ہیں۔ سطح سمندر سے 8 ہزار تا 10 ہزار فٹ کی بلندی اور اوسطاً پانچ سے پندرہ سنٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے علاقوں میں ’خشک موسمی جنگلات (Dry Temperate Forest) پائے جاتے ہیں۔ سطح سمندر سے 3 ہزار تا 5 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر جہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ ہو ’جزوی گرم چیڑپائن جنگلات (Sub-tropical Chir Pine Forest) ملتے ہیں۔ سطح سمندر سے 1500 تا 3500 فٹ کی بلندی پر جہاں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ اور کم سے کم 10 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے‘ وہاں کے جنگلات کو ’ہمہ وقت سرسبز (evergreen forest)‘ میں شمار کرتے ہیں۔ پانچ دیگر عمومی اِقسام کے جنگلات میں آبپاشی کے ذریعے مصنوعی طریقوں سے بھی درخت لگائے جاتے ہیں‘ جن کا مقصد سوختہ (ایندھن) یا تعمیراتی کام کے لئے لکڑی کا حصول ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان کے کل جنگلات کا 20فیصد حصہ پایا جاتا ہے‘ جسے بچانے اور اِس میں اضافہ کرنے کے لئے ’ایک ارب درخت‘ لگانے کی مہم کا آغاز 21 فروری کے روز ضلع ہری پور کے مقام سے کیا گیا‘ تاہم ضرورت زرعی شعبے پر توجہ دینے کی بھی ہے اور اگر خیبرپختونخوا حکومت ’ایک ارب درخت (سونامی) مہم‘ میں زرعی شعبے کو بھی شامل کر لیتی ہے تو ’ایک تیر سے دو شکار‘ یعنی ’سرسبز زرعی انقلابی تبدیلی‘ لائی جاسکتی ہے جس سے تیلدار اجناس کی پیداوار سمیت غذائی خودکفالت کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے لیکن خواب کی صورت نازل ہونے والے خیالات پر عملدرآمد کرنے والے ارباب اختیار جس طوفانی جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس کی وجہ سے ماضی میں بھی ایسی ہی درجنوں ’شجرکاری مہمات‘ سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے!

انسان کی طرح اَنوکھی تخلیق ’’درخت‘‘ کی حیثیت عمومی معدنی ذخائر جیسا کہ تیل و گیس (ایندھن کے ذرائع) جیسی نہیں کہ اگر اِن سے ایک مرتبہ اِستفادہ کر لیا جائے‘ تو یہ پھر سے حاصل (renew) نہیں کئے جا سکتے۔ یقیناًپاکستان جیسے ملک کہ جہاں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں اور تنازعات بالخصوص گذشتہ بارہ برس سے اُنہی (قبائلی و بالائی بندوبستی) علاقوں کو مرکز بنائے ہوئے ہیں‘ جہاں کبھی گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے‘ اِس لئے دہشت گرد کارروائیوں کی روک تھام کے علاؤہ ’امن کی بحالی‘ اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ہمیں ہم وطنوں (انسانوں)کی طرح اپنے ہاں اَشجار کی سلامتی بھی عزیز ہے! قیام پاکستان کے وقت جنگلات ملک کے مجموعی رقبے کے کم اَز کم 6 فیصد حصے پر مشتمل تھے‘ جو ماہرین کے بقول سال دو ہزار چودہ کے اِختتام تک 2 فیصد سے بھی کم رقبے پر محیط بھی ہیں اُور سال بہ سال سکڑ بھی رہے ہیں! گذشتہ ہفتے ’زرعی یونیورسٹی فیصل آباد‘ کے زیراہتمام منعقدہ ’ابلاغیات کی صلاحیت اور زراعت‘ کے عنوان سے منعقدہ نشست کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اِس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ۔۔۔’’جنگلات کا رقبہ 2فیصد سے کم رہ گیا ہے جبکہ زرعی شعبے کی ترقی پر بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی!‘‘ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ’شعبہ زراعت‘ کے سربراہ (ڈین) پروفیسر ڈاکٹر محمد اشفاق نے اِس امر کی جانب توجہ دلائی کہ ۔۔۔ ’’ہمیں شجرکاری کے ساتھ ایسے پودے بھی اُگانے ہیں جو ہمارے لئے اجناس‘ دودھ اُور گوشت جیسی ضروریات پوری کر سکیں۔‘‘ اُنہوں نے بطور خاص ’موریناگا (Morinaga)‘ نامی پودے کا ذکر کیا‘ جس میں مالٹے کے مقابلے سات گنا زیادہ ‘حیاتین سی‘ اُور گاجر کے مقابلے چار گنا زیادہ ’حیاتین اے‘ ہوتی ہے‘ یاد رہے کہ حیاتین (وٹامن) وہ نامیاتی مادہ ہے جو اِنسان و دیگر جانداروں کے جسم میں مناسب استحالے کے لئے روزمرہ خوراک کا لازمی جز قرار دیا جاتا ہے۔ اِسی طرح ’موریناگا‘ پودا دُودھ دینے والے جانوروں کو اَگر بطور چارہ کھلایا جائے تو اِس سے دودھ کی 43 فیصد زیادہ پیداوار حاصل ہوگی۔

خیبرپختونخوا حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’ایک ارب‘ درخت اُگانے کا ہدف مقرر کرنے کے بعد کثیرالجہت منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے‘ جس سے ماحول دوست افراد کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح روائتی ’شجرکاری مہمات‘ کے مقابلے موجودہ مہم کس قدر مختلف ثابت ہوتی ہے اور درد میں آرام کے لئے صرف ’پین کلر (pain killer)‘ ہی پر اِکتفا کیا جاتا ہے یا اُس عارضے کا علاج بھی کیا جاتا ہے‘ جو سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت‘ بااثرشخصیات کی مالی و انتظامی بدعنوانیوں اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے بڑھتے‘ پلتے رجحان کے سبب ناسور (سرطان) کی شکل اِختیار کر چکا ہے!

Chairman Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) Imran Khan started tree plantation campaign by planting sapling here in Makeyani area of Haripur on Feb 21, 2015. According to details, Imran Khan said that one billion trees would be planted in next 5 years, and a volunteer force would be established in this regard in KPK. On the occasion, PTI Central Deputy General Secretary Dr. Raja Amir Zaman,ex-provisional Minister Yousaf Ayub Khan, students and other notables were also present.PTI Chairman said all out efforts would be made to protect the forest and stren action would be taken against illegal timber cutter.Plantation drive in schools would also be started, he added.

No comments:

Post a Comment