ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لہو لہو پشاور!
لہو لہو پشاور!
سولہ دسمبر دوہزار چودہ کے روز تعلیمی اِدارے پر حملہ کرکے معصوم بچوں کو
قتل کرنے کے واقعات‘ دکھ اور صدمے سے ابھی پشاور سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا
کہ 59دن (ایک ماہ اٹھائیس دن بعد) تیرہ فروری کے روز‘ حیات آباد میں نماز
جمعہ کے اجتماع کو نشانہ بنایا گیا‘ جس میں ہلاک وزخمی ہونے والوں کی بڑی
تعداد ’نمازی نوجوانوں اور بچوں‘ کی ہے! کیا ہم یونہی ’وار پر وار‘ سہتے
جائیں گے؟ کیا پشاور کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ اِس کے زخم ہمیشہ تازہ
رہیں؟
سب سے پہلی بات تو پشاور کی جدید رہائشی بستی حیات آباد کا محل وقوع ہے جو خیبرایجنسی کے قبائلی علاقے سے متصل ہے بالخصوص یہاں کا ’فیز فائیو‘ درجنوں اہم سرکاری دفاتر کا مرکز ہے‘ جو زمینی آمدورفت کے لحاظ سے دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقے سے نزدیک ترین ہے۔ اِس غیرمحفوظ علاقے میں اہم سرکاری دفاتر (پاسپورٹ آفس و بینک) اُور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت کیوں دی گئی‘ جبکہ اِن کی حفاظت کے خاطرخواہ انتظامات پولیس کی محدود افرادی قوت و وسائل کی وجہ سے ممکن نہیں۔ ایسے علاقے میں مسجد کی تعمیر کی اجازت بھی تعجب خیز ہے‘ بالخصوص ایک ایسی مسجد جس سے وابستہ لوگ اپنے مسلک کی وجہ سے مستقل نشانے پر ہوں۔ ’’اب یہی آخری حل ہے کہ مجھے ڈھال بنا۔۔۔ تیرے پاس اُور کوئی تیر نہیں ہے‘ میں ہوں!‘‘ ایک جامع مسجد میں اگر آٹھ سے نو سو افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش رکھی گئی ہے اُور وہاں ہر نماز جمعہ کے موقع پر پانچ سے چھ سو افراد نماز کی ادائیگی کے لئے جمع ہونے کے علاؤہ دیگر مذہبی اجتماعات بھی تواتر سے منعقد ہوتے رہے ہیں تو پھر ایک پولیس اہلکار سے پورے احاطۂ مسجد کی حفاظت کرنا کونسی منطق ہے؟ حیات آباد مسجد پر حملہ نے اُن تمام سوالات کو ایک مرتبہ پھر اُٹھایا ہے جو سولہ دسمبر کے سانحۂ پشاور کے موقع پر بھی اُٹھائے گئے لیکن صوبائی حکومت اور پشاور شہر کی پولیس فورس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ’آرمی پبلک سکول‘ تو چھاؤنی کی حدود میں واقع تھا اور اُس تمام علاقے کی سیکورٹی فوج (ملٹری پولیس) کے پاس تھی۔ کیا حیات آباد کا شمار بھی چھاؤنی میں کیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر مسجد پر حملے کے بعد متعلقہ پولیس تھانے اور سرکل کے انتظامی نگرانوں کو نہ صرف معطل بلکہ اُن کے خلاف مجرمانہ غفلت کے مقدمات درج ہونے چاہئے۔ جب تک سرکاری اہلکاروں بشمول و بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انتظامی نگرانوں کی ’سزا و جزا‘ کا تصور سامنے نہیں آئے گا‘ جب تک اُن کے اثاثہ جات پر نظررکھتے ہوئے احتساب کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی‘ ایسے واقعات کا تسلسل ہوتا رہے گا کیونکہ ہمیں اپنے دشمن کا تو علم ہے لیکن اُس کی سرکوبی کرنے کی تنخواہ و مراعات حاصل کرنے والے (یوں لگتا ہے کہ ۔۔۔) دانستہ طور پر غفلت کا مرتکب ہو رہے ہیں!
حیات آباد کی مسجد پر حملہ نہ تو پہلا تھا اور نہ ہی اِس قدر معمولی کہ اِسے نظرانداز کر دیا جائے۔ افسوس کہ حیات آباد کی بستی میں ’اغوأ برائے تاوان‘ اور ’بھتہ خوری‘ جیسے جرائم اِس قدر تواتر سے ہوتے ہیں کہ اب اِس بات پر زیادہ تشویش کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا۔ رواں برس دس جنوری کے روز فیز ون میں ایک ڈاکٹر (محمد سعید) کو کلینک کے اندر گھس کر قتل کیا گیا۔ سولہ اگست دو ہزار آٹھ ایک معروف شخصیت سردار ممتاز قزلباش کو اُن کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا‘ جن کی لاش اُٹھانے سب سے پہلے اُن کا بیٹا پہنچا۔ اِکیس مئی دوہزار چودہ مسلح افراد نے بینک منیجر محمد اَنور کو حیات آباد سے اَغوأ کیا اور چلتے بنے! ایسے بہت سے چھوٹے بڑے منظم جرائم کے واقعات کی تفصیلات بیان کی جاسکتی ہیں‘ جن سے اِس بات کا اَندازہ لگانا مشکل نہیں کہ‘ حیات آباد میں زندگی بسر کرنے والوں کو ’یومیہ بنیادوں پر‘ کن تشویش بھرے حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
تمہیداً عرض ہے کہ ۔۔۔ پشاور کی حفاظتی حکمت عملی چاہے کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو‘ کارگر ثابت نہیں ہوگی‘ جب تک قبائلی علاقوں کی غیرمنطقی آزادانہ و خودمختاری آئینی حیثیت تبدیل نہیں کی جاتی۔ تین اطراف میں قبائلی علاقوں کے درمیان پھنسے ہوئے پشاور کو ایک ایسے گرداب اور سراب سے نکالنے کی ضرورت ہے‘ جس کا حل تو معلوم ہے لیکن وفاق اور صوبے کے درمیان اِس بارے میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ یہ مشکل‘ نازک اور حساس لمحے ہیں‘ جو اپنے پیاروں کو مٹی کے سپرد کرتے ہیں‘ اُن نہ تو آنکھیں خشک ہوتی ہیں اور نہ ہی سینے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف منظم سازش کا ایک باب ’خانہ جنگی‘ ہے‘ جس کے لئے ماحول بنایا جا رہا ہے اور یہ صورتحال دہشت گردی کے عذاب سے زیادہ گھمبیر و پیچیدہ ثابت ہوگی‘ جس میں ہمارے دوست ممالک بھی ساتھ نہیں دے سکیں گے! حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ۔۔۔ سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر پشاور کو ’لاحق خطرات‘ کے بارے میں لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ پانچ مارچ کے سینیٹ اِنتخابات کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف سیاسی جماعتوں سے التجا ہے کہ‘ وہ اپنی توجہات ’سیکورٹی خدشات‘ کی جانب مرکوز کریں۔ منظورنظر افراد کو من پسند عہدوں پر تعینات کرنے کے نتائج و کارکردگی سب کے سامنے ہیں۔ اِیک سے بڑھ کر اِیک سانحہ اور اِیک سے بڑھ کر ایک ظلم پورے ملک کے لئے دُکھ اُور بدنامی کا باعث بن رہا تو اِس سلسلے کو مزید بڑھنے سے روکنے اور اِسی مقام پر روکنے کے لئے اقدامات ناگزیر حد تک ضروری ہیں۔
سب سے پہلی بات تو پشاور کی جدید رہائشی بستی حیات آباد کا محل وقوع ہے جو خیبرایجنسی کے قبائلی علاقے سے متصل ہے بالخصوص یہاں کا ’فیز فائیو‘ درجنوں اہم سرکاری دفاتر کا مرکز ہے‘ جو زمینی آمدورفت کے لحاظ سے دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقے سے نزدیک ترین ہے۔ اِس غیرمحفوظ علاقے میں اہم سرکاری دفاتر (پاسپورٹ آفس و بینک) اُور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت کیوں دی گئی‘ جبکہ اِن کی حفاظت کے خاطرخواہ انتظامات پولیس کی محدود افرادی قوت و وسائل کی وجہ سے ممکن نہیں۔ ایسے علاقے میں مسجد کی تعمیر کی اجازت بھی تعجب خیز ہے‘ بالخصوص ایک ایسی مسجد جس سے وابستہ لوگ اپنے مسلک کی وجہ سے مستقل نشانے پر ہوں۔ ’’اب یہی آخری حل ہے کہ مجھے ڈھال بنا۔۔۔ تیرے پاس اُور کوئی تیر نہیں ہے‘ میں ہوں!‘‘ ایک جامع مسجد میں اگر آٹھ سے نو سو افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش رکھی گئی ہے اُور وہاں ہر نماز جمعہ کے موقع پر پانچ سے چھ سو افراد نماز کی ادائیگی کے لئے جمع ہونے کے علاؤہ دیگر مذہبی اجتماعات بھی تواتر سے منعقد ہوتے رہے ہیں تو پھر ایک پولیس اہلکار سے پورے احاطۂ مسجد کی حفاظت کرنا کونسی منطق ہے؟ حیات آباد مسجد پر حملہ نے اُن تمام سوالات کو ایک مرتبہ پھر اُٹھایا ہے جو سولہ دسمبر کے سانحۂ پشاور کے موقع پر بھی اُٹھائے گئے لیکن صوبائی حکومت اور پشاور شہر کی پولیس فورس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ’آرمی پبلک سکول‘ تو چھاؤنی کی حدود میں واقع تھا اور اُس تمام علاقے کی سیکورٹی فوج (ملٹری پولیس) کے پاس تھی۔ کیا حیات آباد کا شمار بھی چھاؤنی میں کیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر مسجد پر حملے کے بعد متعلقہ پولیس تھانے اور سرکل کے انتظامی نگرانوں کو نہ صرف معطل بلکہ اُن کے خلاف مجرمانہ غفلت کے مقدمات درج ہونے چاہئے۔ جب تک سرکاری اہلکاروں بشمول و بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انتظامی نگرانوں کی ’سزا و جزا‘ کا تصور سامنے نہیں آئے گا‘ جب تک اُن کے اثاثہ جات پر نظررکھتے ہوئے احتساب کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی‘ ایسے واقعات کا تسلسل ہوتا رہے گا کیونکہ ہمیں اپنے دشمن کا تو علم ہے لیکن اُس کی سرکوبی کرنے کی تنخواہ و مراعات حاصل کرنے والے (یوں لگتا ہے کہ ۔۔۔) دانستہ طور پر غفلت کا مرتکب ہو رہے ہیں!
حیات آباد کی مسجد پر حملہ نہ تو پہلا تھا اور نہ ہی اِس قدر معمولی کہ اِسے نظرانداز کر دیا جائے۔ افسوس کہ حیات آباد کی بستی میں ’اغوأ برائے تاوان‘ اور ’بھتہ خوری‘ جیسے جرائم اِس قدر تواتر سے ہوتے ہیں کہ اب اِس بات پر زیادہ تشویش کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا۔ رواں برس دس جنوری کے روز فیز ون میں ایک ڈاکٹر (محمد سعید) کو کلینک کے اندر گھس کر قتل کیا گیا۔ سولہ اگست دو ہزار آٹھ ایک معروف شخصیت سردار ممتاز قزلباش کو اُن کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا‘ جن کی لاش اُٹھانے سب سے پہلے اُن کا بیٹا پہنچا۔ اِکیس مئی دوہزار چودہ مسلح افراد نے بینک منیجر محمد اَنور کو حیات آباد سے اَغوأ کیا اور چلتے بنے! ایسے بہت سے چھوٹے بڑے منظم جرائم کے واقعات کی تفصیلات بیان کی جاسکتی ہیں‘ جن سے اِس بات کا اَندازہ لگانا مشکل نہیں کہ‘ حیات آباد میں زندگی بسر کرنے والوں کو ’یومیہ بنیادوں پر‘ کن تشویش بھرے حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
تمہیداً عرض ہے کہ ۔۔۔ پشاور کی حفاظتی حکمت عملی چاہے کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو‘ کارگر ثابت نہیں ہوگی‘ جب تک قبائلی علاقوں کی غیرمنطقی آزادانہ و خودمختاری آئینی حیثیت تبدیل نہیں کی جاتی۔ تین اطراف میں قبائلی علاقوں کے درمیان پھنسے ہوئے پشاور کو ایک ایسے گرداب اور سراب سے نکالنے کی ضرورت ہے‘ جس کا حل تو معلوم ہے لیکن وفاق اور صوبے کے درمیان اِس بارے میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ یہ مشکل‘ نازک اور حساس لمحے ہیں‘ جو اپنے پیاروں کو مٹی کے سپرد کرتے ہیں‘ اُن نہ تو آنکھیں خشک ہوتی ہیں اور نہ ہی سینے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف منظم سازش کا ایک باب ’خانہ جنگی‘ ہے‘ جس کے لئے ماحول بنایا جا رہا ہے اور یہ صورتحال دہشت گردی کے عذاب سے زیادہ گھمبیر و پیچیدہ ثابت ہوگی‘ جس میں ہمارے دوست ممالک بھی ساتھ نہیں دے سکیں گے! حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ۔۔۔ سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر پشاور کو ’لاحق خطرات‘ کے بارے میں لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ پانچ مارچ کے سینیٹ اِنتخابات کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف سیاسی جماعتوں سے التجا ہے کہ‘ وہ اپنی توجہات ’سیکورٹی خدشات‘ کی جانب مرکوز کریں۔ منظورنظر افراد کو من پسند عہدوں پر تعینات کرنے کے نتائج و کارکردگی سب کے سامنے ہیں۔ اِیک سے بڑھ کر اِیک سانحہ اور اِیک سے بڑھ کر ایک ظلم پورے ملک کے لئے دُکھ اُور بدنامی کا باعث بن رہا تو اِس سلسلے کو مزید بڑھنے سے روکنے اور اِسی مقام پر روکنے کے لئے اقدامات ناگزیر حد تک ضروری ہیں۔
No comments:
Post a Comment