ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شیوراتری تہوار!
شیوراتری تہوار!
دنیا کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کی ’ہندو برادری‘ ماہ فروری اور
مارچ میں دو ایسے تہوار مناتی ہے‘ جن کے لئے عبادت گاہوں میں اجتماعات
منعقد ہوتے ہیں۔ یہ دن منانے والے شوخ رنگوں والے ملبوسات پہن کر
مبارکبادوں کا تبادلہ‘ روائتی جوش وخروش اُور خوب اہتمام سے کرتے ہیں۔ طے
یہ تھا کہ ’’صوبائی دارالحکومت پشاور اور اِس سے ملحقہ دیگر اضلاع کے ہندو
سولہ فروری سے تین دن کے لئے اکٹھا ہوں گے تاکہ ’شیوراتری (مہا شیوراتری)‘
نامی تہوار منائیں۔‘‘ اِن تقریبات کے لئے گذشتہ برس کی طرح اِس مرتبہ بھی
جس مقام کا انتخاب کیا گیا وہ ’گورگٹھڑی‘ کے احاطے میں قائم ’شیو مندر‘ ہے
تاہم بیت الخلأ‘ کھانے‘ پینے اور اشیائے خوردونوش پکانے کے لئے انتظامات نہ
ہونے کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’شیوراتری‘ کا تہوار چھوٹے پیمانے پر
عبادت کے ساتھ ملتوی کر دیا جائے! یاد رہے کہ یہ تہوار ’شیو دیوتا‘ سے
منسوب ہے جب اُن کی شادی پاروتی سے ہوئی تھی۔ اِس دن کی مناسبت سے روزہ
رکھا جاتا ہے اور شیولنگ (Shiv Lingam) کی پوجا کی جاتی ہے۔ گورگٹھڑی مندر
میں شیولنگم موجود ہے‘ جسے دودھ سے غسل دینے اور عبادت کرنے کا سلسلہ یوں
تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن شیوراتری کے موقع پر اِس کا اہتمام خصوصی
طور سے کیا جاتا ہے۔ پورے مندر کو برقی قمقموں سے جگمایا جاتا ہے۔ لوبان
جلائے جاتے ہیں۔ مختلف سنگتیں بھجن گاتی ہیں اور سرڈھانپ کر عبادت میں شریک
ہونے والے چھوٹے بڑے‘ جوان بزرگ دعائیں مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنڈتوں کے
مرتب کردہ کلینڈر کے مطابق ’’اِس سالانہ تہوار کے لئے رواں برس ’سترہ
فروری‘ جبکہ دو ہزار سولہ میں 7 مارچ کا دن طے کیا گیا ہے۔‘‘ اپنے خاوند کی
لمبی عمر و خوشحالی کے لئے ہندو خواتین پورا دن کھانا پینا ترک رکھتی ہیں
اور چاند کو دیکھ کر روزہ توڑتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور ہندو مذہب کا
مرکز رہا ہے اور بھارت سمیت دنیا میں جہاں بھی کہیں بھی ہندو ازم کو ماننے
والے آباد ہیں‘ اُن کے لئے پشاور ایک ’’مقدس شہر‘‘ ہے‘ جہاں سے اِس مذہب کی
تعلیمات اور رسم و رواجوں کا تعین یعنی ابتدأ ہوئی تھی۔ سیاحت کی ترقی کے
ادارے اِس حقیقت سے آشنا ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ہاں امن و
امان برقرار رہتا تو ’مذہبی سیاحت (ریلیجیس ٹورازم)‘ کے امکانات سے بھرپور
فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا لیکن یہ ایک بہانہ ہی ہے۔ اگر غیرملکی سیاح نہیں آ
رہے تو پاکستانی سیاحوں کو پشاور کی جانب کونسا راغب کیا جارہا ہے! بھلا
یہ کیسا رویہ ہے کہ گورگٹھڑی کے احاطے میں قائم دو عبادت گاہوں میں سے ایک
میں تو مہمان خانہ‘ رہائش‘ قیام و طعام کی جملہ سہولیات میسر ہیں اور وہاں
بودوباش پر کسی قسم کی پابندی نہیں لیکن اُسی کے مدمقابل دوسری عبادت گاہ
کو ’آثار قدیمہ‘ قرار دے کر وہاں عبادت کے لئے اجتماع تو منعقد کیا جاسکتا
ہے لیکن نہ بیت الخلأ ہوں گے اور نہ ہی گیس‘ کہ سینکڑوں کی تعداد میں جمع
ہونے والے یاتریوں کے لئے حسب ضرورت کھانا اور وقتا فوقتاً چائے قہوہ بنایا
جاسکے۔ اگر صوبائی حکومت اور سیاحت و آثار قدیمہ سے وابستہ ایک سے زیادہ
محکمے ہندو برادری کو سہولیات فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم اُنہیں اپنے
خرچ پر‘ تہوار شایان شان منانے کی اجازت تو دے سکتے ہیں! اگر کسی وجہ سے ہم
خوشیاں نہیں مناسکتے تو کیا جواز ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے مذہبی جشن و
تہوار منانے سے روک دیں یا ایسے اقدامات کریں جن سے اُن کے تہواروں کی
رونقیں مانند پڑ جائیں۔
محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر کے دفاتر چونکہ ہفتے میں دو دن تعطیل کی وجہ سے بند ہوتے ہیں اِس لئے چودہ فروری کے روز اعلیٰ حکام سے باوجود کوشش بھی رابطہ نہیں ہوسکا لیکن خوش قسمتی سے گورگٹھڑی کے نگران اَحمد فراز ہاتھ آئے‘ جنہوں نے کہا کہ ۔۔۔’’ہندوؤں کی طرف سے اُنہیں مطلع نہیں کیا گیا‘ تاہم اُن کے مطالبات بذریعہ مرکزی دفتر معلوم ہوئے ہیں جس کے بعد ’شیو مندر‘ کا داخلی دروازہ مرمت کردیا گیا ہے۔ مندر کے احاطے میں قائم کنویں کو جال سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے‘ جس سے جانی نقصان ہو۔ مندر کے گرد پہلے ہی خاردار تار بچھا کر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ جہاں تک ہندوؤں کی جانب سے مندر کے احاطے کی فرش بندی اور بیت الخلأ کی تعمیر کا تعلق ہے تو یہ دونوں کام مختصر وقت میں مکمل کرنا ممکن نہیں۔ مندر سے کچھ فاصلے پر چھ بیت الخلأ (واش رومز) موجود ہیں جن میں سے تین خواتین جبکہ تین عدد مردوں کے لئے مخصوص ہیں‘ ہم نے ہندو برادری کے مہمانوں اور میزبانوں کو پہلے سے موجود بیت الخلأ کی سہولت استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ مندر کے احاطے کے اندر بیت الخلأ پر اصرار کر رہے ہیں جو نہ صرف اس عمارت کی خوبصورتی کے ساتھ میل نہیں کھائے گی بلکہ اِس سے حفظان صحت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے کیونکہ جہاں ایک باتھ روم سینکڑوں کی تعداد میں افراد استعمال کریں تو اُس سے بدبو و تعفن بھی پیدا ہوگا۔ پھر یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ ایسی تعمیرات آثارقدیمہ کے قانون ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ(Antiquities Act)‘کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘ انچارج گورگٹھڑی اَحمد فراز جس قانون کا حوالہ دے رہے تھے اُس کے مطابق پاکستان میں چار سو آثار قدیمہ کے مقامات کو تین درجات میں تحفظ دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وہ مقامات شامل ہیں جن کی بظاہر حالت اچھی ہے تاہم اُنہیں مزید خراب ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے ایسے مقامات کی تعداد خیبرپختونخوا میں چھبیس ہے۔ دوسرے درجے میں وہ مقامات ہیں جنہیں بحالی و تحفظ کی ضرورت ہے اور خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات کی تعداد 32 ہے۔ تیسرے درجے میں وہ مقامات ہیں جو انتہائی مخدوش حالت میں ہیں اور خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات کی تعداد 33ہے۔ گرباگریہاں (شیولنگ)‘ انترالہ (راہداری)‘ ویمانی (چار مندر) اور گورگھ ناتھ مندر پر مشتمل ’گورگٹھڑی‘ بھی انہیں خاص مقامات میں سے ایک ہے لیکن خاطرخواہ توجہ سے محروم۔ اِس عمارت کے احاطے میں مغلیہ عہد میں تعمیر ہونے والے 34 کمروں میں سے 28 کمرے محکمۂ سیاحت نے ایک حکمت عملی کے تحت قبضہ کر رکھے ہیں اور وہاں سیاحت و ثقافت کے نام پر جوکچھ ہو رہا ہے وہ ’1975ء‘ کے ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ گورگٹھڑی میں تعمیر ہونے والے شادی ہال کو مسمار کرنے کے احکامات پشاور ہائی کورٹ نے دے رکھے ہیں لیکن محکمہ یہ کام بھی نہیں کررہا کیونکہ ایسا کرنے سے بااثر سیاسی شخصیت کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یوں سب آنکھیں رکھنے کے باوجود نابینا اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیونکہ تنخواہوں اور مراعات ملنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اُور وقت تو گزر ہی رہا ہے!
گورگٹھڑی کے مقام پر ’شیوراتری‘ تہوار کی مناسبت سے ’بڑے پیمانے پر‘ اجتماعی تقریبات رواں برس نہیں ہو پائیں گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا ’شیومندر‘ مانسہرہ (ہزارہ ڈویژن) میں ہے اور پشاور کی ہندو برادری نے صوبائی سطح پر مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ناکافی سہولیات کی وجہ سے اِس سال یہ تہوار پشاور کی بجائے ’شیوراتری‘ مانسہرہ میں منایا جائے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ’آن دی ریکارڈ‘ متعلقہ سرکاری محکموں کی مذمت تک نہیں کرتے‘ کیونکہ وہ اِس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ ہی کا استعمال کرتے ہوئے اُنہیں ’گورگٹھڑی شیومندر‘ ہی سے محروم نہ کردیا جائے۔ عجب ہے کہ ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ کا اطلاق گورگٹھڑی سے استفادہ کرنے والے ایک طبقے پر تو ہوتا ہے لیکن دوسرے پر نہیں‘ کیا یہی انصاف ہے؟
محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر کے دفاتر چونکہ ہفتے میں دو دن تعطیل کی وجہ سے بند ہوتے ہیں اِس لئے چودہ فروری کے روز اعلیٰ حکام سے باوجود کوشش بھی رابطہ نہیں ہوسکا لیکن خوش قسمتی سے گورگٹھڑی کے نگران اَحمد فراز ہاتھ آئے‘ جنہوں نے کہا کہ ۔۔۔’’ہندوؤں کی طرف سے اُنہیں مطلع نہیں کیا گیا‘ تاہم اُن کے مطالبات بذریعہ مرکزی دفتر معلوم ہوئے ہیں جس کے بعد ’شیو مندر‘ کا داخلی دروازہ مرمت کردیا گیا ہے۔ مندر کے احاطے میں قائم کنویں کو جال سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے‘ جس سے جانی نقصان ہو۔ مندر کے گرد پہلے ہی خاردار تار بچھا کر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ جہاں تک ہندوؤں کی جانب سے مندر کے احاطے کی فرش بندی اور بیت الخلأ کی تعمیر کا تعلق ہے تو یہ دونوں کام مختصر وقت میں مکمل کرنا ممکن نہیں۔ مندر سے کچھ فاصلے پر چھ بیت الخلأ (واش رومز) موجود ہیں جن میں سے تین خواتین جبکہ تین عدد مردوں کے لئے مخصوص ہیں‘ ہم نے ہندو برادری کے مہمانوں اور میزبانوں کو پہلے سے موجود بیت الخلأ کی سہولت استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ مندر کے احاطے کے اندر بیت الخلأ پر اصرار کر رہے ہیں جو نہ صرف اس عمارت کی خوبصورتی کے ساتھ میل نہیں کھائے گی بلکہ اِس سے حفظان صحت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے کیونکہ جہاں ایک باتھ روم سینکڑوں کی تعداد میں افراد استعمال کریں تو اُس سے بدبو و تعفن بھی پیدا ہوگا۔ پھر یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ ایسی تعمیرات آثارقدیمہ کے قانون ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ(Antiquities Act)‘کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘ انچارج گورگٹھڑی اَحمد فراز جس قانون کا حوالہ دے رہے تھے اُس کے مطابق پاکستان میں چار سو آثار قدیمہ کے مقامات کو تین درجات میں تحفظ دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وہ مقامات شامل ہیں جن کی بظاہر حالت اچھی ہے تاہم اُنہیں مزید خراب ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے ایسے مقامات کی تعداد خیبرپختونخوا میں چھبیس ہے۔ دوسرے درجے میں وہ مقامات ہیں جنہیں بحالی و تحفظ کی ضرورت ہے اور خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات کی تعداد 32 ہے۔ تیسرے درجے میں وہ مقامات ہیں جو انتہائی مخدوش حالت میں ہیں اور خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات کی تعداد 33ہے۔ گرباگریہاں (شیولنگ)‘ انترالہ (راہداری)‘ ویمانی (چار مندر) اور گورگھ ناتھ مندر پر مشتمل ’گورگٹھڑی‘ بھی انہیں خاص مقامات میں سے ایک ہے لیکن خاطرخواہ توجہ سے محروم۔ اِس عمارت کے احاطے میں مغلیہ عہد میں تعمیر ہونے والے 34 کمروں میں سے 28 کمرے محکمۂ سیاحت نے ایک حکمت عملی کے تحت قبضہ کر رکھے ہیں اور وہاں سیاحت و ثقافت کے نام پر جوکچھ ہو رہا ہے وہ ’1975ء‘ کے ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ گورگٹھڑی میں تعمیر ہونے والے شادی ہال کو مسمار کرنے کے احکامات پشاور ہائی کورٹ نے دے رکھے ہیں لیکن محکمہ یہ کام بھی نہیں کررہا کیونکہ ایسا کرنے سے بااثر سیاسی شخصیت کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یوں سب آنکھیں رکھنے کے باوجود نابینا اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیونکہ تنخواہوں اور مراعات ملنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اُور وقت تو گزر ہی رہا ہے!
گورگٹھڑی کے مقام پر ’شیوراتری‘ تہوار کی مناسبت سے ’بڑے پیمانے پر‘ اجتماعی تقریبات رواں برس نہیں ہو پائیں گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا ’شیومندر‘ مانسہرہ (ہزارہ ڈویژن) میں ہے اور پشاور کی ہندو برادری نے صوبائی سطح پر مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ناکافی سہولیات کی وجہ سے اِس سال یہ تہوار پشاور کی بجائے ’شیوراتری‘ مانسہرہ میں منایا جائے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ’آن دی ریکارڈ‘ متعلقہ سرکاری محکموں کی مذمت تک نہیں کرتے‘ کیونکہ وہ اِس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ ہی کا استعمال کرتے ہوئے اُنہیں ’گورگٹھڑی شیومندر‘ ہی سے محروم نہ کردیا جائے۔ عجب ہے کہ ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ کا اطلاق گورگٹھڑی سے استفادہ کرنے والے ایک طبقے پر تو ہوتا ہے لیکن دوسرے پر نہیں‘ کیا یہی انصاف ہے؟
Maha Shivratri is a Hindu festival celebrated every year in reverence of Lord Shiva. It is the day Shiva was married to Parvati. The Maha Shivratri festival, also popularly known as 'Shivratri' or 'Great Night of Lord Shiva', is observed on the 13th night/14th day in the Krishna Paksha every year on the month of Falgun according to the Hindu calendar. Alternate common spellings include Sivaratri, Shivaratri, Sivarathri, and Shivarathri. It marks the convergence of Shiva and Shakti. Maha Shivratri is celebrated on the Krishna Paksha Chaturdashi of Hindu calendar month Maagha as per Amavasya-ant month calculation. As per Poornima-ant month calculation, the day is Krishna Paksha Chaturdashi of Hindu calendar month Phalguna which falls in February or March as per the Gregorian calendar. Of the twelve Shivaratris in the year, the Maha Shivarathri is the most holy.
ReplyDeletehttp://en.wikipedia.org/wiki/Maha_Shivaratri
ReplyDeleteHindu of Peshawar to celebrate Shivatri Celebrations in Gorkhattree Compound, but due to lack of facilities the said annual event shifted to Mansehra (Hazara Division).
ReplyDeleteArchaeology department of KP reluctant to construct Bathroom, flooring and providing basic facilities as the Temple associated with lord Shiva counted archaeological site under the Antiquities Act 1975.
This is double standards of Archaeology department that in one Gorkhattree compound mosque is allowed to have residential rooms, kitchen, washrooms and even a guestroom but temple is locked and only allowed to open for prayers hours!
Read my Column in today's Daily Aaj about Shivratri!
Also can read online on
http://dailyaaj.com.pk/epaper/index.php?city=peshawar&page=20&date=2015-02-15
The three-day festival of Shivratri or Great Night of Shiva usually falls between mid-February and early March. It falls on 13th day of Phalguna, the twelfth month of the Hindu calendar.
ReplyDeleteThe festival marks the night when Lord Shiva married Parvati and performed the Tandaya Nritya or the dance of primordial creation, preservation and destruction.
ReplyDelete