ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرکٹ: جزوی اَمور
کرکٹ: جزوی اَمور
وہی ہوا جس کے بارے میں کھیل کے تجزیہ کار اپنی اپنی قومی شناخت کی بنیاد
پر پیشنگوئیاں کر رہے تھے لیکن یہاں بات ’پاک بھارت کرکٹ مقابلے‘ میں جیت
یا ہار کی نہیں بلکہ روائتی حریفوں کے درمیان ایک کانٹے دار مقابلے سے ایک
دن قبل ’وزیراعظم‘ نے جو اعلان کیا تھا کہ ’’میچ کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ
نہیں ہوگی‘‘ تو عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کی سیاست ایسی انہونیوں کا
مرکب ہے‘ جس میں اگر رہنما ’انکار‘ کریں تو اِس بات کا مطلب ’اقرار‘ ہوتا
ہے جیسا کہ اگر یہ کہا جائے کہ رمضان میں اشیائے خوردونوش کی قلت نہیں ہوگی
اور نہ ہی قیمتیں بڑھیں گی تو عام آدمی نے سمجھ لیا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
اسی طرح بجٹ سے قبل کہا جاتا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا اور نہ
ہی ٹیکس کی شرح بڑھائی جا رہی ہے تو اِس کا نتیجہ بھی جلد ہی سامنے آ جاتا
ہے۔ قصہ مختصر ’عام آدمی‘ نے سمجھ لیا ہے کہ وہ اعلان ہی کیا‘ جو پورا ہو
جائے‘ وہ سیاسی وعدہ ہی کیا جو ایفاء ہو جائے۔ پندرہ فروری کے روز کھیل کے
پہلے اور دوسرے حصے میں بار بار برقی رو کے معطل ہونے سے اہل پشاور وہ
درمیانی و اختتامی لمحات نہ دیکھ سکے‘ جس نے پورے کھیل کو فیصلہ کن بنایا
تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ہماری قومی لیڈرشپ کا قول و فعل ’لائق اعتبار‘
نہیں رہا؟ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) حکام کا کہنا ہے کہ ’’جن
علاقوں میں بجلی کا تعطل ہوا‘ وہ ’لوڈشیڈنگ‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر
محرکات کے سبب تھا‘ یعنی سسٹم پر بوجھ (لوڈ) بڑھ گیا‘ جس کی وجہ سے خودکار
نظام کے تحت برقی رو معطل ہو جاتی ہے۔‘‘ اُن کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ’’اگر
بجلی کے مرکزی تقسیم کار نظام سے فراہمی بند کردی جائے تو پیسکو کے پاس
کوئی ایسا ’پیداواری ذریعہ‘ نہیں کہ وہ اپنے وسائل سے بجلی کی روانی برقرار
رکھ سکے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کے واضح احکامات کے باوجود بجلی کے بار
بار تعطل کے لئے کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ سب کے سب ’بے
قصور‘ ہیں اور سب کے سب ہاتھوں پر ’دستانے‘ چڑھے ہوئے ہیں یعنی جواز کی کمی
نہیں۔
پاک بھارت کرکٹ مقابلہ اور ہفتہ وار تعطیل کے سبب صوبائی دارالحکومت کی سڑکیں اور کاروباری مراکز سنسان رہے۔ وہ بازار جو ہفتہ وار تعطیل جمعۃ المبارک کے روز کرتے ہیں وہاں بھی اکا دکا دکانیں ہی کھلی تھیں یا پھر دکانداروں نے ’میچ اسکریننگ‘ کا خصوصی اہتمام کر رکھا تھا۔ ’کرکٹ‘ پاکستان کا قومی کھیل نہیں لیکن ملک گیر سطح پر اِس کھیل کو جس انداز سے پسند کیا جاتا ہے‘اُس کا تقاضا یہ ہے کہ کرکٹ کو بھی قومی کھیل کا درجہ دے دیا جائے۔ ملک میں کرکٹ کنٹرول کرنے کا ادارے (پی سی بی) میں سیاسی مداخلت ختم کرنے اور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے تو اِس سے نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ کھیل فکری وذہنی انتشار‘ جوئے‘ سٹہ بازی اور دیگر منفی محرکات سے بھی پاک ہو جائے گا۔ بطور قومی کھیل کرکٹ کی سرپرستی ’ہاکی‘ کے متبادل کے طور پر نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں کسی ایک کھیل کی نہیں بلکہ نوجوانوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے لئے ہر کھیل کی سرپرستی کے ساتھ اُس حرص و طمع اور کاروباری ذہنیت کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا‘ جس کی وجہ سے کھیل دیکھنے کو تفریح اور تفریح کی آڑ میں بیہودگی و بدتمیزی کو عام کیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے وسائل‘ چمک دمک بروئے کار لاتے ہوئے ’اشیائے خوردونوش‘ بنانے والے ملکی و غیرملکی اِدارے اِس کھیل کو ’مقبول عام‘ بنانے میں ’خاص کردار‘ اَدا کر رہے ہیں۔ ماضی میں سگریٹ بنانے والے ادارے کرکٹ کے ذریعے ’سگریٹ نوشی‘ عام کرتے رہے اور اب وہ سبھی کچھ ’جوش جذبے اور جنون‘ کے نام پر بیچا جاتا ہے‘ جو انسانی صحت کے لئے مفید نہیں۔
پاکستان میں ہر روز گیارہ کروڑ ستر لاکھ سے زائد سگریٹ فروخت ہوتے ہیں اور ایک حالیہ جائزے کے مطابق نوجوان لڑکیوں (خواتین) میں سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے اور گذشتہ تین برس کے دوران پانچ فیصد لڑکیاں سگریٹ نوشی کی طرف راغب ہوئی ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے کے اِس جائزے میں ماہرین نے جس تشویش کا اظہار کیا‘ اُس میں ایسی اشتہاری ممہات‘ ٹیلی ویژن ڈرامے اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ جس میں صحت و سرمایہ دھویں میں اُڑانے کو ’بطور فیشن‘ اختیار کرنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ سگریٹ نوشی کی طرح ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس (ہر قسم کے رنگ برنگے کولا مشروبات)‘ بھی نوجوانوں کی صحت و تندرستی کے دشمن ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پانی کا کوئی بھی دوسرا مشروب بیٹھ کر اور کم از کم تین سانسوں میں پینا چاہئے لیکن بذریعہ اشتہارات ایک ہی سانس میں کھڑے کھڑے مشروبات پینے کو پرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے (مضرصحت) نقصانات پوشیدہ نہیں لیکن ’بھیڑچال‘ نے سب کو ’نمودونمائش‘ کا آسیر بنا رکھا ہے۔ یہی رویہ ہے کہ جس کی وجہ سے موبائل فون ضرورت سے زیادہ نمائش کا ذریعہ بن چکی ہے! ہمارے ہاں ’صارفین کے حقوق‘ سے متعلق قواعد تو موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد اور قواعد کے بارے میں معلومات عام نہیں۔ بھلا مصنوعی رنگوں‘ کیمیائی ذائقے اور مٹھاس کی حد سے زیادہ مقدار سے بنا ہوا مشروب ہر عمر کے شخص کے لئے کس طرح مفید ہوسکتا ہے۔ جگر‘ گردوں‘ نظام ہضم اور دانتوں پر فوری منفی اثر کرنے والے مشروبات کی تعلیمی اداروں میں فروخت پر پابندی کے حوالے سے صوبائی حکومت اپنے تیءں اقدامات کر سکتی ہے اور اِس سلسلے میں اِسلام آباد کی مثال موجود ہے جہاں والدین کی کوششوں سے بذریعہ عدالت نجی و سرکاری تعلیمی اِداروں میں ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس‘ کی فروخت ممنوع قرار دی جاچکی ہے۔
خیبرپختونخوا میں جہاں تعلیمی اداروں کو لاحق سیکورٹی خدشات سے محفوظ بنایا جا رہا ہے وہیں اُن محرکات پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے نوجوان بالخصوص بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ نابالغ بچے بچیوں کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کے بارے اُن والدین کو بھی آگاہ کیا جائے جو بچوں کی موجودگی میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ پینے پر اگرچہ پابندی عائد ہے لیکن اِن قواعد پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔
پاک بھارت کرکٹ مقابلہ اور ہفتہ وار تعطیل کے سبب صوبائی دارالحکومت کی سڑکیں اور کاروباری مراکز سنسان رہے۔ وہ بازار جو ہفتہ وار تعطیل جمعۃ المبارک کے روز کرتے ہیں وہاں بھی اکا دکا دکانیں ہی کھلی تھیں یا پھر دکانداروں نے ’میچ اسکریننگ‘ کا خصوصی اہتمام کر رکھا تھا۔ ’کرکٹ‘ پاکستان کا قومی کھیل نہیں لیکن ملک گیر سطح پر اِس کھیل کو جس انداز سے پسند کیا جاتا ہے‘اُس کا تقاضا یہ ہے کہ کرکٹ کو بھی قومی کھیل کا درجہ دے دیا جائے۔ ملک میں کرکٹ کنٹرول کرنے کا ادارے (پی سی بی) میں سیاسی مداخلت ختم کرنے اور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے تو اِس سے نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ کھیل فکری وذہنی انتشار‘ جوئے‘ سٹہ بازی اور دیگر منفی محرکات سے بھی پاک ہو جائے گا۔ بطور قومی کھیل کرکٹ کی سرپرستی ’ہاکی‘ کے متبادل کے طور پر نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں کسی ایک کھیل کی نہیں بلکہ نوجوانوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے لئے ہر کھیل کی سرپرستی کے ساتھ اُس حرص و طمع اور کاروباری ذہنیت کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا‘ جس کی وجہ سے کھیل دیکھنے کو تفریح اور تفریح کی آڑ میں بیہودگی و بدتمیزی کو عام کیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے وسائل‘ چمک دمک بروئے کار لاتے ہوئے ’اشیائے خوردونوش‘ بنانے والے ملکی و غیرملکی اِدارے اِس کھیل کو ’مقبول عام‘ بنانے میں ’خاص کردار‘ اَدا کر رہے ہیں۔ ماضی میں سگریٹ بنانے والے ادارے کرکٹ کے ذریعے ’سگریٹ نوشی‘ عام کرتے رہے اور اب وہ سبھی کچھ ’جوش جذبے اور جنون‘ کے نام پر بیچا جاتا ہے‘ جو انسانی صحت کے لئے مفید نہیں۔
پاکستان میں ہر روز گیارہ کروڑ ستر لاکھ سے زائد سگریٹ فروخت ہوتے ہیں اور ایک حالیہ جائزے کے مطابق نوجوان لڑکیوں (خواتین) میں سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے اور گذشتہ تین برس کے دوران پانچ فیصد لڑکیاں سگریٹ نوشی کی طرف راغب ہوئی ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے کے اِس جائزے میں ماہرین نے جس تشویش کا اظہار کیا‘ اُس میں ایسی اشتہاری ممہات‘ ٹیلی ویژن ڈرامے اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ جس میں صحت و سرمایہ دھویں میں اُڑانے کو ’بطور فیشن‘ اختیار کرنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ سگریٹ نوشی کی طرح ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس (ہر قسم کے رنگ برنگے کولا مشروبات)‘ بھی نوجوانوں کی صحت و تندرستی کے دشمن ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پانی کا کوئی بھی دوسرا مشروب بیٹھ کر اور کم از کم تین سانسوں میں پینا چاہئے لیکن بذریعہ اشتہارات ایک ہی سانس میں کھڑے کھڑے مشروبات پینے کو پرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے (مضرصحت) نقصانات پوشیدہ نہیں لیکن ’بھیڑچال‘ نے سب کو ’نمودونمائش‘ کا آسیر بنا رکھا ہے۔ یہی رویہ ہے کہ جس کی وجہ سے موبائل فون ضرورت سے زیادہ نمائش کا ذریعہ بن چکی ہے! ہمارے ہاں ’صارفین کے حقوق‘ سے متعلق قواعد تو موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد اور قواعد کے بارے میں معلومات عام نہیں۔ بھلا مصنوعی رنگوں‘ کیمیائی ذائقے اور مٹھاس کی حد سے زیادہ مقدار سے بنا ہوا مشروب ہر عمر کے شخص کے لئے کس طرح مفید ہوسکتا ہے۔ جگر‘ گردوں‘ نظام ہضم اور دانتوں پر فوری منفی اثر کرنے والے مشروبات کی تعلیمی اداروں میں فروخت پر پابندی کے حوالے سے صوبائی حکومت اپنے تیءں اقدامات کر سکتی ہے اور اِس سلسلے میں اِسلام آباد کی مثال موجود ہے جہاں والدین کی کوششوں سے بذریعہ عدالت نجی و سرکاری تعلیمی اِداروں میں ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس‘ کی فروخت ممنوع قرار دی جاچکی ہے۔
خیبرپختونخوا میں جہاں تعلیمی اداروں کو لاحق سیکورٹی خدشات سے محفوظ بنایا جا رہا ہے وہیں اُن محرکات پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے نوجوان بالخصوص بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ نابالغ بچے بچیوں کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کے بارے اُن والدین کو بھی آگاہ کیا جائے جو بچوں کی موجودگی میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ پینے پر اگرچہ پابندی عائد ہے لیکن اِن قواعد پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔
No comments:
Post a Comment