Monday, February 16, 2015

Feb2015: Provincial Rights & Wrongs!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بغض و عناد: سیاسی بدنیتی!
ایک طرف وفاق کے ذمے واجب الادأ صوبائی حقوق کی اَدائیگی نہیں ہورہی تو دوسری جانب دستیاب مالی وسائل ’ترقیاتی منصوبوں‘ پر خرچ نہیں ہو پا رہے جس سے خیبرپختونخوا میں ’تعمیر و ترقیاتی عمل‘ کا عمل بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ نے وفاق سے مطالبہ دہرایا ہے کہ ’’اٹھارہویں آئینی ترمیم کا پاس کرتے ہوئے تیل و گیس کے حال ہی میں دریافت ہونے والے ذخائر سے خیبرپختونخوا کو اُس کا جائز حق ملنا چاہئے!‘‘ آئین کے مطابق کسی بھی صوبے سے نکلنے والے معدنی ذخائر پر اُس صوبے کا پچاس فیصد حق ہوتا ہے۔ آٹھارہویں آئینی ترمیم سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی کھوج کے سلسلے میں وفاقی حکومت کا کم از کم حصہ پانچ فیصد مقرر تھا‘ جس میں وفاقی حکومت کو اضافہ کرنے کا اختیار بھی شامل تھا لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد یہ حصہ مستقل کر دیا گیا تاکہ صوبوں کو زیادہ مالی وسائل مل سکیں۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ تحریری اور یاد دہانی پر مبنی مکتوبات کے ذریعے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کو اُس کے جائز آئینی حقوق ادا کئے جائیں۔‘‘ صوبائی سطح پر ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کرنے کے مشاورتی عمل کا حصہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کے بقول ’’وفاقی حکومت سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ تحریری درخواستوں‘ یاد دہانی کے متعدد مراسلوں اور وزیراعلیٰ نے بات چیت کے دوران بھی یہ معاملہ وفاقی حکومت کے متعلقہ عہدیداروں کے گوش گزار کیا ہے لیکن حسب توقع خاطرخواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا! ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے اِس طرز عمل کی بڑی وجہ ’سیاسی بغض و عناد‘ ہے کیونکہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت ہے‘ جو نہیں چاہتی کہ ’پاکستان تحریک انصاف‘ ترقیاتی عمل سے اپنے انتخابی وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ یہ سیاسی بدنیتی کی انتہاء نہیں تو اُور کیا ہے کہ ’خیبرپختونخوا کو محض سیاسی وجوہات کی بناء پسماندہ رکھنے کے لئے اُس کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں؟‘

تجویز ہے کہ خط و کتابت‘ مراسلوں اور زبانی جمع خرچ کی بجائے ٹھوس پیش رفت کی جائے۔ خیبرپختونخوا حکومت صوبائی حقوق کے حوالے سے ایک ’جرگہ‘ تشکیل دے اور سینیٹ انتخابات (پانچ  مارچ) کے فوراً دیگر اتحادی و حزب اختلاف کی پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ اِس سلسلے میں مشاورتی عمل کا آغاز کیا جائے‘ یقیناًاِس سے سیاسی ماحول میں خوشگوار بہتری آئے گی‘ کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہوں‘ اُن کی خالص ترجیح اپنا صوبہ ہی ہوگا۔ حقوق کے حصول کے لئے سفر میں دوسروں کو شریک کرنے سے منزل تک رسائی کے امکانات زیادہ بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے صوبائی حقوق کا معاملہ بھی اُٹھایا جائے‘ صوبائی اطلاعات کا محکمہ سینئر صحافیوں سے نشست اُور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ’ایڈوکیسی‘ کی تراکیب سے رائے عامہ ہموار کر سکتا ہے تاہم تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل خود ’تحریک انصاف‘ ہی ہے کیونکہ صوبائی سطح پر ہونے والے کئی ایک فیصلوں کو پارٹی کی مرکزی قیادت بیک جنبش قلم رد کرنے کی مثالیں موجود ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حقوق کے معاملے میں بھی اِس مرتبہ اگر تحریک انصاف کی ’کور کمیٹی‘ کے اہم اراکین اور چیئرمین کو شروع دن سے ہمراہ کر لیا جائے یا انہیں کچھ عرصے کے لئے ’پشاور کا مہمان‘ ہی بنا لیا جائے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تحریک انصاف کو سمجھنا چاہئے کہ اُس نے صوبائی حکومت میں آکر فرائض و ذمہ داریاں سمجھنے میں جتنا وقت خرچ (بہ صورت ضائع) کردیا ہے‘ اتنا باقی نہیں رہا۔

قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا میں تیل و گیس کی ترقی کے اِدارے (خیبرپختونخوا آئل اینڈ گیس کمپنی لمیٹیڈ) کے نگران (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ریاض الدین نے ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ’کلاچی بلاک (حوالہ نمبر 3170-8) اُور باسکا نارتھ بلاک (حوالہ نمبر 3169-4)‘ کے نوٹیفیکیشنز گذشتہ برس مارچ اور جون میں بالترتیب جاری کئے گئے لیکن تاحال صوبائی ادارے کو اِس کے وسائل پر اختیارنہیں دیا گیا‘جس کی وجہ سے نہ صرف تیل وگیس کے نئے ذخائر کی تلاش کا عمل متاثر ہو رہا ہے بلکہ موجودہ ذخائر کی ممکنہ ترقی کا عمل بھی رکا ہوا ہے۔ اِس سلسلے میں ’الحاج انٹرپرائزیز‘ سمیت تین کمپنیوں (لاسمو اور طالا حصی) کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ الحاج انٹرپرائزیز کے ساتھ ہوئے معاہدے کی رو سے انہیں پانچ فیصد حصص وفاقی و صوبائی متعلقہ کمپنیوں کو منتقل کرنا تھے‘ اُنہیں جغرافیائی و ارضیاتی جائزے کرکے معلومات اکٹھا کرنی تھیں۔ اُنہیں پانچ سو کلومیٹر رقبے میں واقع دو بلاکوں کے حوالے سے آنے والے زلزلوں کا ریکارڈ خریدنا تھا لیکن یہ تینوں امور سرانجام نہیں دیئے گئے۔ علاؤہ ازیں یہ امر بھی خیبرپختونخوا حکومت کے لئے تشویشناک ہے کہ وفاقی حکومت نے کئی ایک ایسے اداروں کو بھی تیل و گیس کی کھوج کے اجازت نامے جاری کئے ہیں جنہیں ماضی میں ایسی مہمات کا تجربہ نہیں اور قواعد کی رو سے ایسے اجازت نامے بناء تجربے جاری نہیں کئے جا سکتے۔

معاملہ گھمبیر و سنگین ہے۔ ایک طرف صوبائی حقوق کا حجم پہاڑ کی صورت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب اِس صورتحال سے چند نجی اِدارے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے اِن اداروں کے مالکان عام لوگ نہیں کہ جو اگر ایک ماہ بجلی کا بل اَدا نہ کریں تو جرمانہ ادا کئے بناء چارہ نہیں ہوتا اور چند ماہ بل اَدا نہ کرنے کی صورت اُن کا کنکشن کاٹنے میں ذرا تاخیر نہیں کی جاتی۔ بااثر لوگ‘ بڑی بڑی وارداتیں کرتے ہیں۔ قومی خزانے کو اَربوں روپے کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری اور قرضہ جات کی معافی تو ایک جزوی پہلو ہے‘ اِس سے کئی زیادہ بڑی بے قاعدگیاں ہمارے وسائل کے ضیاع کا سبب ہیں‘ جن کی طرف توجہات تو مرکوز ہیں‘ لیکن قواعد کا خاطرخواہ اطلاق نہ ہونے کی وجہ وہی سیاسی دباؤ ہے جس کہیں حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کی حوصلہ افزائی تو کہیں وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کی پشت پناہی میں ملوث ہے!

No comments:

Post a Comment