ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حقیقی غدار
حقیقی غدار
انگریزی زبان کی لغت کے مطابق ’غدار‘ کا لفظ ’خزانے‘ سے ماخوذ ہے‘ یعنی
غدار کی ایک تعریف یہ بھی ہوگی کہ ایک ایسا کردار جو کسی ذمہ داری کی
اَدائیگی کے لئے ملنے والے اِختیارات یا اپنے قول و فعل کا استعمال ایسے
مالی فوائد کے حصول کے لئے کرے جن کا اُسے بصورت دیگر استحقاق نہ ہو۔ ہر
قسم کی مالی بدعنوانیوں جن میں ٹیکس چوری بھی آتی ہے کا شمار اصطلاحی و
معنوی لحاظ سے ’غداری‘ ہی کے زمرے میں آتی ہے تو پاکستان کے تناظر میں ’حب
الوطنی‘ اور ’غداری‘ کی درست تعریف یہ نہیں بنتی کہ آمدنی کے غیرمستقل
ذرائع رکھنے والے‘ غریب‘ متوسط یا کم سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات ’حب
الوطن‘ ہیں کیونکہ وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ٹیکسوں کی صورت ادا کر رہے ہیں
جبکہ سرمایہ دار اور حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے حسب توفیق تمام
ممکنہ ذرائع کا استعمال کرکے مالی طور پر اُس بدعنوان طبقے کا حصہ ہیں جو
قانون میں موجود سقم سے فائدہ اُٹھانے‘ حسب آمدن و بودوباش ٹیکس ادا نہ
کرنے کے علاؤہ اندرون ملک کی بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری کو زیادہ محفوظ
سمجھتے ہوئے ترجیح دیتا ہے‘ کسی ایسے ملک کا اقتصادی مستقبل بھلا کس طرح
محفوظ ہوسکتا ہے‘ جہاں کے سرمایہ دار ’حب الوطنی‘ کی بنیادی تشریح اور
کسوٹی پر ہی پورا نہ اُترتے ہوں؟
وفاقی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے ’آف دی ریکارڈ‘ کہا ہے کہ ’’حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہونے کے رجحان میں تیزی آئی ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت و اقتصادیات پر دباؤ بڑھ رہا ہے جبکہ دوسرا خطرہ اشیاء کی غیرقانونی ذرائع سے درآمد ہے‘ جس کی وجہ سے ایک طرف ملکی صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں اور دوسری جانب محصولات (ٹیکسوں) کی مد میں آمدنی نہیں ہو رہی۔‘‘ حکومت کی جانب سے ’انٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2014ء‘ لایا گیا ہے جس کی رو سے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو ’انٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء‘ کے تحت جرمانہ اور دیگر سزائیں دی جا سکیں گی لیکن پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ ایسے کسی بھی قانون سے خوفزدہ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں قوانین کے اندر ہی یہ خرابی بصورت کمال رکھی جاتی ہے‘ کہ اس سے وکلأ برادری کے گھروں کا چولہا جلتا رہے۔ سب سے پہلے تو قوانین اور قواعد کا اطلاق نہیں کیا جاتا اور پھر جہاں کہیں کوئی پھنس بھی جائے تو قانون میں اس قدر لچک موجود ہے کہ وہ دوسرے ٹیکس چوروں اور ملک کو مالیاتی طور پر نقصان پہنچانے والوں کے لئے ’نشان عبرت‘ نہیں بنتا۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ جن کرداروں کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے پر گرفتار کیا بھی جاتا ہے تو اُن کا زیادہ سے زیادہ احتساب یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ادائیگیاں کرکے باعزت رہا ہوجاتے ہیں۔ احتساب کا قومی ادارہ کسی مذاق سے کم نہیں جو حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک خاص تناسب ’انعام‘ کی صورت خود ہی وصول کر لیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر کسی نے ایک ارب روپے کی بدعنوانی کی اُس سے کم از کم ایک ارب روپے تو ضرور وصول کئے جائیں لیکن دس سے تیس فیصد وصولی کے قواعد مرتب کرنے والوں نے یقیناًاپنے بارے میں بھی سوچا ہوگا ایسے سخت گیر قواعد تشکیل نہ دیئے جائیں‘ جس سے کل اُنہیں خود ہی مشکلات جھیلنا پڑیں۔
دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان) کا حصہ ’اِقتصادی اَیکشن پلان‘ بھی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے اُن گیارہ ممالک میں شامل ہے جو غیرقانونی طورپر ملک سے سرمائے کے انتقال (منی لانڈرنگ) روکنے میں عملاً ناکام و نااہل ثابت ہوئے ہیں اور اِس کا ثبوت رواں ہفتے ’متحدہ عرب امارات‘ میں جائیداد کی خریدوفروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ’دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ‘ کی وہ رپورٹ ہے جس کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران پاکستانیوں نے 2.6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ’متحدہ عرب امارات‘ میں کی ہے جس کا 90فیصد دبئی میں جائیداد خریدنے کے لئے کیاگیا ہے! علاؤہ ازیں 7 ارب ڈالر کی ترسیل غیرقانونی ذرائع سے بھی کی گئی ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت کے کل 17 ہزار 289 سودے ہوئے جن میں سے 14 ہزار 231 بھارت‘ پاکستان‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ روس‘ چین‘ امریکہ‘ فرانس اور افغان باشندوں نے کئے ہیں!
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز (Reuters) کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ’’متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی قیمت میں گذشتہ دو برس کے دوران 60 فیصد بڑھی ہے لیکن سال 2015ء کے دوران اِس میں 10فیصد کمی آئی ہے۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ سال 2008-09ء کے دوران متحدہ عرب امارات کی معیشت جس خسارے (عالمی قصادبازاری) سے متاثر ہوئی‘ اُس سے نکلنے میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی پرخلوص کوششیں شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ سال 2013ء اور 2014ء کے دوران پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات میں 16ارب درہم کی جائیداد خریدی! اگر ہم 27 روپے فی درہم کے حساب سے اِس سرمایہ کاری کا حجم معلوم کریں تو یہ 430 ارب روپے بنتا ہے! لیکن صرف یہی نہیں کہ پاکستانیوں کی نظرکرم متحدہ عرب اَمارات پر جمی ہوئی ہے‘ اِس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری مغربی ممالک اور امریکہ میں بھی کی گئی‘ جس سے حکمراں خاندان نہ تو اِنکار کرتے ہیں اور نہ ہی ملکیت کو کھلے عام تسلیم کرتے ہوئے اِس کا ذکر کرنا یا سننا پسند کرتے ہیں!
برطانیہ میں ایک قانون کے مطابق کسی بھی حکومتی عہدے یا سرکاری ملازمت پر تعینات رہنے والے شخص (مرد یا عورت) کے اثاثوں کا بیس سالہ حساب نکالا جاتا ہے اور اگر اس کی مالی حیثیت میں ردوبدل (بے قاعدگی) سامنے آئے‘ تو ایسے شخص کو ’غدار‘ کے طور پر نہ صرف عدالت کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے بلکہ ذرائع ابلاغ اور معاشرے کی نظروں میں اُس کی حیثیت بھی ’زیرو‘ ہو جاتی ہے‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں گذشتہ چند برس کے دوران ’ارب پتی‘ بننے والوں اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی تعداد کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘ اُن کی عزت و تکریم اور سول قومی اعزازات تک اُن کے نام ہیں! جب تک اِن حقیقی غداروں (مالی بدعنوانیوں کے موجد و سرپرستوں اور بیرون ملک سرمایہ کاروں) سے ’حقیقی معاملہ‘ نہیں کیا جاتا‘ ملکی وسائل کی لوٹ مار‘ اِختیارات کا ناجائز استعمال اور دولت کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ (رجحان) یونہی جاری و ساری رہے گا!
وفاقی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے ’آف دی ریکارڈ‘ کہا ہے کہ ’’حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہونے کے رجحان میں تیزی آئی ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت و اقتصادیات پر دباؤ بڑھ رہا ہے جبکہ دوسرا خطرہ اشیاء کی غیرقانونی ذرائع سے درآمد ہے‘ جس کی وجہ سے ایک طرف ملکی صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں اور دوسری جانب محصولات (ٹیکسوں) کی مد میں آمدنی نہیں ہو رہی۔‘‘ حکومت کی جانب سے ’انٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2014ء‘ لایا گیا ہے جس کی رو سے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو ’انٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء‘ کے تحت جرمانہ اور دیگر سزائیں دی جا سکیں گی لیکن پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ ایسے کسی بھی قانون سے خوفزدہ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں قوانین کے اندر ہی یہ خرابی بصورت کمال رکھی جاتی ہے‘ کہ اس سے وکلأ برادری کے گھروں کا چولہا جلتا رہے۔ سب سے پہلے تو قوانین اور قواعد کا اطلاق نہیں کیا جاتا اور پھر جہاں کہیں کوئی پھنس بھی جائے تو قانون میں اس قدر لچک موجود ہے کہ وہ دوسرے ٹیکس چوروں اور ملک کو مالیاتی طور پر نقصان پہنچانے والوں کے لئے ’نشان عبرت‘ نہیں بنتا۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ جن کرداروں کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے پر گرفتار کیا بھی جاتا ہے تو اُن کا زیادہ سے زیادہ احتساب یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ادائیگیاں کرکے باعزت رہا ہوجاتے ہیں۔ احتساب کا قومی ادارہ کسی مذاق سے کم نہیں جو حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک خاص تناسب ’انعام‘ کی صورت خود ہی وصول کر لیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر کسی نے ایک ارب روپے کی بدعنوانی کی اُس سے کم از کم ایک ارب روپے تو ضرور وصول کئے جائیں لیکن دس سے تیس فیصد وصولی کے قواعد مرتب کرنے والوں نے یقیناًاپنے بارے میں بھی سوچا ہوگا ایسے سخت گیر قواعد تشکیل نہ دیئے جائیں‘ جس سے کل اُنہیں خود ہی مشکلات جھیلنا پڑیں۔
دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان) کا حصہ ’اِقتصادی اَیکشن پلان‘ بھی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے اُن گیارہ ممالک میں شامل ہے جو غیرقانونی طورپر ملک سے سرمائے کے انتقال (منی لانڈرنگ) روکنے میں عملاً ناکام و نااہل ثابت ہوئے ہیں اور اِس کا ثبوت رواں ہفتے ’متحدہ عرب امارات‘ میں جائیداد کی خریدوفروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ’دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ‘ کی وہ رپورٹ ہے جس کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران پاکستانیوں نے 2.6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ’متحدہ عرب امارات‘ میں کی ہے جس کا 90فیصد دبئی میں جائیداد خریدنے کے لئے کیاگیا ہے! علاؤہ ازیں 7 ارب ڈالر کی ترسیل غیرقانونی ذرائع سے بھی کی گئی ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت کے کل 17 ہزار 289 سودے ہوئے جن میں سے 14 ہزار 231 بھارت‘ پاکستان‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ روس‘ چین‘ امریکہ‘ فرانس اور افغان باشندوں نے کئے ہیں!
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز (Reuters) کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ’’متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی قیمت میں گذشتہ دو برس کے دوران 60 فیصد بڑھی ہے لیکن سال 2015ء کے دوران اِس میں 10فیصد کمی آئی ہے۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ سال 2008-09ء کے دوران متحدہ عرب امارات کی معیشت جس خسارے (عالمی قصادبازاری) سے متاثر ہوئی‘ اُس سے نکلنے میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی پرخلوص کوششیں شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ سال 2013ء اور 2014ء کے دوران پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات میں 16ارب درہم کی جائیداد خریدی! اگر ہم 27 روپے فی درہم کے حساب سے اِس سرمایہ کاری کا حجم معلوم کریں تو یہ 430 ارب روپے بنتا ہے! لیکن صرف یہی نہیں کہ پاکستانیوں کی نظرکرم متحدہ عرب اَمارات پر جمی ہوئی ہے‘ اِس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری مغربی ممالک اور امریکہ میں بھی کی گئی‘ جس سے حکمراں خاندان نہ تو اِنکار کرتے ہیں اور نہ ہی ملکیت کو کھلے عام تسلیم کرتے ہوئے اِس کا ذکر کرنا یا سننا پسند کرتے ہیں!
برطانیہ میں ایک قانون کے مطابق کسی بھی حکومتی عہدے یا سرکاری ملازمت پر تعینات رہنے والے شخص (مرد یا عورت) کے اثاثوں کا بیس سالہ حساب نکالا جاتا ہے اور اگر اس کی مالی حیثیت میں ردوبدل (بے قاعدگی) سامنے آئے‘ تو ایسے شخص کو ’غدار‘ کے طور پر نہ صرف عدالت کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے بلکہ ذرائع ابلاغ اور معاشرے کی نظروں میں اُس کی حیثیت بھی ’زیرو‘ ہو جاتی ہے‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں گذشتہ چند برس کے دوران ’ارب پتی‘ بننے والوں اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی تعداد کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘ اُن کی عزت و تکریم اور سول قومی اعزازات تک اُن کے نام ہیں! جب تک اِن حقیقی غداروں (مالی بدعنوانیوں کے موجد و سرپرستوں اور بیرون ملک سرمایہ کاروں) سے ’حقیقی معاملہ‘ نہیں کیا جاتا‘ ملکی وسائل کی لوٹ مار‘ اِختیارات کا ناجائز استعمال اور دولت کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ (رجحان) یونہی جاری و ساری رہے گا!
No comments:
Post a Comment