ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بہ اَمر مجبوری‘ مجبوری!
بہ اَمر مجبوری‘ مجبوری!
خیبرپختونخوا میں نئی گاڑیوں کے کوائف کا اندراج (رجسٹریشن) کا عمل قومی
شناختی کارڈ کی طرز پر کرنے کا اصولی فیصلہ خوش آئند ہے جس کے بعد گاڑی
مالکان کو کتابچوں کی صورت چھوٹی بڑی گاڑیوں کے کاغذات ہمراہ رکھنے کی زحمت
نہیں ہوگی اُور نہ ہی عمومی حالات میں ’رجسٹریشن کارڈ‘ کے گم ہونے کا خدشہ
رہے گا۔ یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا‘ جس میں ’کمپیوٹرائزڈ چپ (chip)‘ کے
ذریعے جملہ کوائف ایک کارڈ میں پوشیدہ رکھے جا سکیں گے اور ضرورت کی صورت
قانون نافذ کرنے والے ادارے ان معلومات کو اخذ کرکے تصدیق کر سکیں گے۔
یاد رہے کہ اِس قسم کا نظام پہلے ہی وفاقی دارالحکومت اِسلام آباد میں متعارف کرایا جاچکا ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ابتدأ میں ’کمپیوٹرائرڈ کارڈز‘ صرف نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی صورت جاری کئے جائیں گے‘ جنہیں بعدازاں ماضی میں رجسٹر شدہ گاڑیوں کے مالکان کو جاری کئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں وفاقی حکومت کے اِدارے سے رابطہ کرکے ’رجسٹریشن سسٹم‘ بشمول ’ڈیٹابیس (database) کے حصول کی درخواست کر دی گئی ہے اُور رواں ہفتے اِس سلسلے میں تعاون کی یاداشت پر دستخط متوقع ہیں۔ خیبرپختونخوا کے سیکرٹری ایکسائز ڈاکٹر راحیل احمد کے مطابق آئندہ تین ماہ میں نیا سسٹم متعارف کرا دیا جائے گا اُور اِس سلسلے میں حکام سندھ و پنجاب میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے مروجہ طریقۂ کار کا مطالعہ بھی کریں گے۔ رجسٹریشن کارڈ میں معلومات کس حد تک محفوظ رہیں گی اُور اِن معلومات میں تبدیلی کے امکانات کس طرح ختم کئے جائیں گے‘ اِس سلسلے میں حکام کا کہنا ہے کہ ’انکرپٹیڈ (encrypted)‘ چپ (chip) کا استعمال کیا جائے گا‘ جس سے معلومات میں ردوبدل اور اُن تک رسائی غیرمتعلقہ افراد نہیں کر سکیں گے۔
خیبرپختونخوا میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نظام سنجیدہ و عملی اصلاحات چاہتا ہے کیونکہ خود ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا کو گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں سالانہ 30سے 35 فیصد خسارہ ہورہا ہے کیونکہ عمومی رجحان یہی ہے کہ لوگ نئی گاڑیاں اسلام آباد یا صوبہ پنجاب میں رجسٹر کرنے کوترجیح دیتے ہیں اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں تاہم سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا موجودہ نظام ’بوسیدہ‘ اور ’روائتی‘ ہے‘ جس کا انحصار کاغذی کارروائی اور ریکارڈ فائلوں کی صورت ایک ڈیسک سے دوسرے ڈیسک کو منتقل ہونے کے بعد جس انداز سے محفوظ و ذخیرہ کیا جاتا ہے‘ اُس کی خامیوں کا شمار ممکن نہیں۔ اُمید تھی کہ تحریک انصاف صوبائی حکومت تشکیل دینے کے پہلے ہی برس ’جائیداد (اراضی) کا ریکارڈ‘ کمپیوٹرائزڈ کرکے مال خانے‘ تھانے اور کچہری سے رجوع کرنے کے بنیادی اسباب کا تدارک کردے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا تو اب بھی دیر نہیں ہوئی اور جائیداد (اراضی) کی ملکیت کا ’کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن‘ متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
سننے میں آیا کہ ’آن لائن پٹوار خانے (لینڈ ریکارڈ)‘ کی تیاری کا عمل بھی شروع ہوا‘ جو متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہو گیا ہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آئندہ دو روز میں پشاور کا دورہ کرنے والے ہیں تو اُن سے درخواست ہے کہ ’لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن‘ کا وعدہ پورا کریں‘ جو شفاف طرز حکمرانی کی جانب بڑھتے ہوئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ یقیناًتحریک انصاف کی قیادت کے لئے یہ بات تشویشناک ہوگی کہ صوبے کو گاڑیوں رجسٹریشن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں ہرسال کمی ہو رہی ہے اور یہ کمی چونکہ تیس سے پینتیس فیصد ہے‘ اِس لئے ’معمولی ردوبدل‘ قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس سلسلے میں اگر فوری اصلاحات نہ لائی گئیں تو اندیشہ ہے کہ رواں برس (دوہزار پندرہ) میں خسارہ پچاس فیصد کو عبور کر جائے گا اور پھر وہ وقت دور نہیں جب نئی گاڑیوں بالخصوص موٹرکارز کی مکمل رجسٹریشن کے لئے اسلام آباد کا رخ کرنے والے سوفیصدی افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہو!
مالی سال 2014-15ء کے ابتدائی سات ماہ کے دوران خیبرپختونخوا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کو ’نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ 17 کروڑ پچاس لاکھ روپے لگایا گیا تھا لیکن اِس عرصے میں 12 کروڑ 33 لاکھ پچاس ہزار رورپے حاصل ہو سکے ہیں۔ آمدنی میں اِس تیس فیصد کمی کا منفی اَثر یقیناًصوبائی آمدنی کے میزانیئے (بجٹ) پر پڑے گا‘ جس میں آمدن سے قبل ہی اخراجات طے کر لئے جاتے ہیں اور جب کوئی حکومتی محکمہ خاطرخواہ آمدنی نہیں دیتا تو بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گذشتہ مالی سال کے دوران گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ 14 کروڑ 58لاکھ 30 ہزار روپے لگایا گیا تھا جس میں سے 13 کروڑ 95لاکھ 90 ہزار روپے آمدنی حاصل ہوئی‘ یعنی بجٹ اَندازے سے صرف چار فیصد کم وصولی ہوئی تھی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے 90فیصد رہائشی جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کراتے ہیں جہاں کے قواعد کے مطابق اسلام آباد میں عارضی یا مستقل رہائش یا ملازمت رکھنے والے اپنی گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے کہ جس کے تحت اسلام آباد اور پنجاب میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کی جا رہی ہے۔
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل جاوید مروت کے مطابق ’’150 ایسی گاڑیاں مہم کے پہلے مرحلے میں پکڑی گئی ہیں جن کے مالکان نے جعلی (سکونتی و ملازمتی) دستاویزات کے ذریعے اسلام آباد میں گاڑیاں رجسٹر (درج) کرائی ہیں۔‘‘ اسلام آباد گاڑیوں کی ’مشروط رجسٹریشن‘ غیرمنطقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہ امر مجبوری‘ جعلی دستاویزات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا میں رجسٹریشن کا نظام معیاری اور قابل اعتماد ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ‘ لوگ اِسلام آباد یا پنجاب کا رُخ کرتے یا پھر اِسلام آباد کی رجسٹرڈ گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دی جاتی۔
مقابلے کی فضاء میں صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اِس سلسلے میں ساکھ‘ معیار اور اعتماد کی بحالی کے لئے اِصلاحات سے گریز کی بجائے ’احکامات مسلط‘ کرنے سے کسی بھی صورت نہ تو خاطرخواہ بہتری آئے گی اور نہ ہی حسب توقع مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
یاد رہے کہ اِس قسم کا نظام پہلے ہی وفاقی دارالحکومت اِسلام آباد میں متعارف کرایا جاچکا ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ابتدأ میں ’کمپیوٹرائرڈ کارڈز‘ صرف نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی صورت جاری کئے جائیں گے‘ جنہیں بعدازاں ماضی میں رجسٹر شدہ گاڑیوں کے مالکان کو جاری کئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں وفاقی حکومت کے اِدارے سے رابطہ کرکے ’رجسٹریشن سسٹم‘ بشمول ’ڈیٹابیس (database) کے حصول کی درخواست کر دی گئی ہے اُور رواں ہفتے اِس سلسلے میں تعاون کی یاداشت پر دستخط متوقع ہیں۔ خیبرپختونخوا کے سیکرٹری ایکسائز ڈاکٹر راحیل احمد کے مطابق آئندہ تین ماہ میں نیا سسٹم متعارف کرا دیا جائے گا اُور اِس سلسلے میں حکام سندھ و پنجاب میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے مروجہ طریقۂ کار کا مطالعہ بھی کریں گے۔ رجسٹریشن کارڈ میں معلومات کس حد تک محفوظ رہیں گی اُور اِن معلومات میں تبدیلی کے امکانات کس طرح ختم کئے جائیں گے‘ اِس سلسلے میں حکام کا کہنا ہے کہ ’انکرپٹیڈ (encrypted)‘ چپ (chip) کا استعمال کیا جائے گا‘ جس سے معلومات میں ردوبدل اور اُن تک رسائی غیرمتعلقہ افراد نہیں کر سکیں گے۔
خیبرپختونخوا میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نظام سنجیدہ و عملی اصلاحات چاہتا ہے کیونکہ خود ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا کو گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں سالانہ 30سے 35 فیصد خسارہ ہورہا ہے کیونکہ عمومی رجحان یہی ہے کہ لوگ نئی گاڑیاں اسلام آباد یا صوبہ پنجاب میں رجسٹر کرنے کوترجیح دیتے ہیں اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں تاہم سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا موجودہ نظام ’بوسیدہ‘ اور ’روائتی‘ ہے‘ جس کا انحصار کاغذی کارروائی اور ریکارڈ فائلوں کی صورت ایک ڈیسک سے دوسرے ڈیسک کو منتقل ہونے کے بعد جس انداز سے محفوظ و ذخیرہ کیا جاتا ہے‘ اُس کی خامیوں کا شمار ممکن نہیں۔ اُمید تھی کہ تحریک انصاف صوبائی حکومت تشکیل دینے کے پہلے ہی برس ’جائیداد (اراضی) کا ریکارڈ‘ کمپیوٹرائزڈ کرکے مال خانے‘ تھانے اور کچہری سے رجوع کرنے کے بنیادی اسباب کا تدارک کردے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا تو اب بھی دیر نہیں ہوئی اور جائیداد (اراضی) کی ملکیت کا ’کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن‘ متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
سننے میں آیا کہ ’آن لائن پٹوار خانے (لینڈ ریکارڈ)‘ کی تیاری کا عمل بھی شروع ہوا‘ جو متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہو گیا ہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آئندہ دو روز میں پشاور کا دورہ کرنے والے ہیں تو اُن سے درخواست ہے کہ ’لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن‘ کا وعدہ پورا کریں‘ جو شفاف طرز حکمرانی کی جانب بڑھتے ہوئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ یقیناًتحریک انصاف کی قیادت کے لئے یہ بات تشویشناک ہوگی کہ صوبے کو گاڑیوں رجسٹریشن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں ہرسال کمی ہو رہی ہے اور یہ کمی چونکہ تیس سے پینتیس فیصد ہے‘ اِس لئے ’معمولی ردوبدل‘ قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس سلسلے میں اگر فوری اصلاحات نہ لائی گئیں تو اندیشہ ہے کہ رواں برس (دوہزار پندرہ) میں خسارہ پچاس فیصد کو عبور کر جائے گا اور پھر وہ وقت دور نہیں جب نئی گاڑیوں بالخصوص موٹرکارز کی مکمل رجسٹریشن کے لئے اسلام آباد کا رخ کرنے والے سوفیصدی افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہو!
مالی سال 2014-15ء کے ابتدائی سات ماہ کے دوران خیبرپختونخوا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کو ’نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ 17 کروڑ پچاس لاکھ روپے لگایا گیا تھا لیکن اِس عرصے میں 12 کروڑ 33 لاکھ پچاس ہزار رورپے حاصل ہو سکے ہیں۔ آمدنی میں اِس تیس فیصد کمی کا منفی اَثر یقیناًصوبائی آمدنی کے میزانیئے (بجٹ) پر پڑے گا‘ جس میں آمدن سے قبل ہی اخراجات طے کر لئے جاتے ہیں اور جب کوئی حکومتی محکمہ خاطرخواہ آمدنی نہیں دیتا تو بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گذشتہ مالی سال کے دوران گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ 14 کروڑ 58لاکھ 30 ہزار روپے لگایا گیا تھا جس میں سے 13 کروڑ 95لاکھ 90 ہزار روپے آمدنی حاصل ہوئی‘ یعنی بجٹ اَندازے سے صرف چار فیصد کم وصولی ہوئی تھی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے 90فیصد رہائشی جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کراتے ہیں جہاں کے قواعد کے مطابق اسلام آباد میں عارضی یا مستقل رہائش یا ملازمت رکھنے والے اپنی گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے کہ جس کے تحت اسلام آباد اور پنجاب میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کی جا رہی ہے۔
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل جاوید مروت کے مطابق ’’150 ایسی گاڑیاں مہم کے پہلے مرحلے میں پکڑی گئی ہیں جن کے مالکان نے جعلی (سکونتی و ملازمتی) دستاویزات کے ذریعے اسلام آباد میں گاڑیاں رجسٹر (درج) کرائی ہیں۔‘‘ اسلام آباد گاڑیوں کی ’مشروط رجسٹریشن‘ غیرمنطقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہ امر مجبوری‘ جعلی دستاویزات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا میں رجسٹریشن کا نظام معیاری اور قابل اعتماد ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ‘ لوگ اِسلام آباد یا پنجاب کا رُخ کرتے یا پھر اِسلام آباد کی رجسٹرڈ گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دی جاتی۔
مقابلے کی فضاء میں صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اِس سلسلے میں ساکھ‘ معیار اور اعتماد کی بحالی کے لئے اِصلاحات سے گریز کی بجائے ’احکامات مسلط‘ کرنے سے کسی بھی صورت نہ تو خاطرخواہ بہتری آئے گی اور نہ ہی حسب توقع مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment