ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جاگتے رہو!
جاگتے رہو!
خیبرپختونخوا کے فرض شناس پولیس کے اعلیٰ انتظامی اہلکار ’محمد علی بابا
خیل (پیدائش 12 مارچ 1969ء)‘ صحافت سے دلی تعلق رکھتے ہیں اور یہ لکھنے کے
بعد اُن کے کسی اضافی تعارف کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک ایسے باصلاحیت شخص ہیں
جنہوں نے خود کو دیگر ہم عصروں کی طرح چاردیواریوں اور مسلح دستوں کے
درمیان محصور نہیں کر رکھا بلکہ وہ دل کی ہر بات اور ہر سوچ کو بیان کرنے
کا ہنر جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنے علم پر ناز نہیں لیکن اِس بات کو ذمہ داری
سمجھتے ہیں کہ صائب الرائے بن کر دوسروں کی رہنمائی کریں۔ ’جاگتے رہو‘ کی
صدائیں لگانے والے اِس درویش صفت شخص کی ’مستقل مزاجی‘ کا کیا ہی بیان ہو
کہ وہ معروف اخبارات کے ادارتی صفحات پر مضامین کی صورت یا پھر سماجی رابطہ
کاری کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر اِظہار خیال کرنے سے نہ تو گھبراتے ہیں اور
نہ ہی تحقیق کرنے سے جی چراتے ہیں‘ یقیناًاُنہیں اپنے آرام کا بہت سا وقت
اُن مضامین کی تکمیل کے لئے وقف کرنا پڑتا ہوگا‘ جو اپنی جگہ ملک کی سیاسی
تاریخ اور ہمارے گردوپیش کے حالات حاضرہ کا ’مخلصانہ بیان‘ ہوتا ہے۔ الفاظ
کے چناؤ میں بھی باباخیل کے ہم پلہ کوئی اُور نہیں۔ وہ مختصر لیکن جامع
انداز میں ایسی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں‘ جن کی تشریح ابواب اور کتب کی صورت
نثر میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوسکتی۔ سچ جیسی طاقت اور سچائی سے ملنے
خوداعتمادی اُن کی شخصیت اُور قول و فعل کا ایسا درپردہ محرک ہے‘ جس سے
اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اِس کے وجود و گہرائی سے انکار ممکن نہیں۔
بائیس فروری کی شام ’فیس بک‘ پر باباخیل نے انگریزی زبان کے محض ’چھ الفاظ‘ کا ایک جملہ تخلیق کیا‘ اور اُن اربوں الفاظ کے معانی سمیٹ کر بیان کر دیئے‘ جو آج کے پاکستان کا ’سب سے بڑا سچ‘ اور ہماری قومی ترقی کی راہ میں حائل ’سب سے بڑی رکاوٹ‘ ہے۔ باباخیل نے لکھا ’’پاکستان میں اہلیت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ محب الوطن باباخیل نے ’روبہ زوال اہلیت‘ کے معیار پر جس دُکھ کا اظہار کیا‘ اُس کے سیاق و سباق بھی ہوں گے اور اُن جیسے جہاندیدہ و تجربہ کار پولیس اہلکار کے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہوں گی‘ جن کا اگرچہ اُنہوں نے حوالہ تو نہیں دیا لیکن درون خانہ حالات سے آگاہ ہونے کی وجہ سے یہ بات اُنہی کے منہ سے وزنی دکھائی دیتی ہے۔ کاش ہم اُس دکھ اور تشویش کو سمجھ (بھانپ) سکیں‘ جس کی جانب باباخیل نے اِشارہ کیا ہے یا کم اَز کم خود میں اِتنی اِخلاقی جرأت ہی پیدا کر لیں کہ اپنے ہاں ’اہلیت کی رحلت‘ کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کی تدفین میں شریک ہو جائیں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ اداروں میں سیاسی مداخلت حسب سابق جاری بھی ہے اور تبدیلی کے نام سے انقلاب برپا کرنے والے اہلیت کی پاسداری کرنے سے متعلق روائتی بیانات داغنے کی شدت بھی کم نہیں ہوئی! فی الوقت سب کی نظریں آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے ہونے والے ’سینیٹ (قانون ساز ایوان بالا)‘ کے انتخابات پر جمی ہوئی ہیں جن کے لئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اپنا حق رائے دہی دینا ہے۔
خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت ’تحریک اِنصاف‘ کے سربراہ ’آن دی ریکارڈ‘ کہہ چکے ہیں کہ ’’سینیٹ الیکشن کے لئے ایک ووٹ کی قیمت دو کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے۔‘‘ حالانکہ اُنہوں نے کسرنفسی سے کام لیا ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ فی ووٹ قیمت ’پانچ سے پندرہ کروڑ روپے‘ کے درمیان ہے۔ عجب ہے کہ بائیس فروری کی شام ’اِلیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ سینیٹ الیکشن میں ہونے والی ’مبینہ بدعنوانیوں‘ کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایسا کرنے کے لئے اُس کے پاس آئینی اختیارات موجود ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے آئین میں ایک سے زیادہ شقیں (باسٹھ‘ تریسٹھ اور 218) کے تحت صاف و شفاف انتخابات کے اِنعقاد کو ممکن بنانے کی آزادی دی گئی ہے اور اُمیدواروں کے لئے ’امانت و دیانت‘ جیسی شرائط کی موجودگی میں کسی اضافی قانون سازی کا جواز یا ضرورت بھلا کیا رہ جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ تو ’اہلیت کے فقدان‘ کا ہے۔ اگر دیگر قواعد و ہدایات کے ساتھ سینیٹ انتخابات کے ریٹرنگ آفیسرز کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ وہ موبائل فون ساتھ لیجانے والوں‘ ووٹ ڈالنے سے قبل بیلٹ پیپر ظاہر کرنے‘ کسی قسم کا اشارہ یا ذومعنی و غیرضروری الفاظ کے ذریعے اپنے ووٹ کی اصلیت ظاہر کردیں تو ایسا ووٹ اُسی وقت منسوخ کر دیا جائے۔ اِس سلسلے ذرائع ابلاغ الیکشن کمیشن کی بہت مدد کر سکتے ہیں جنہوں نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اگر ’اہلیت فائز ہوتی‘ تو آج پوری دنیا کے سامنے پاکستانی جمہوریت ایک ’تماشا اُور مذاق‘ نہ سمجھا جاتا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سینیٹ کا ووٹ خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر رکھا گیا ہے‘ جبکہ سبھی جماعتوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں عیاں ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ بائیس فروری کی شام پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین کے لئے ایک ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فنڈز سینیٹ انتخابات سے قبل جاری کئے جائیں گے‘ کہیں یہ سینیٹ کے ووٹوں کی خریداری تو نہیں ہورہی لیکن قیمت قومی خزانے سے ادا کی جا رہی ہے؟
سینیٹ انتخابات اور اِن میں حصہ لینے والوں کی اہلیت و اصلیت سے قوم بخوبی آگاہ ہے‘ جن کے پاس مسائل کا حل نہیں بلکہ وہ خود ایک ایسا مسئلہ بنے ہوئے ہیں‘ جس کا حل ناگزیر حدوں کو چھو رہا ہے! ’’تھا مگر ایسا اکیلا میں کہاں تھا پہلے۔۔۔میری تنہائی مکمل تیرے آنے سے ہوئی!‘‘
بائیس فروری کی شام ’فیس بک‘ پر باباخیل نے انگریزی زبان کے محض ’چھ الفاظ‘ کا ایک جملہ تخلیق کیا‘ اور اُن اربوں الفاظ کے معانی سمیٹ کر بیان کر دیئے‘ جو آج کے پاکستان کا ’سب سے بڑا سچ‘ اور ہماری قومی ترقی کی راہ میں حائل ’سب سے بڑی رکاوٹ‘ ہے۔ باباخیل نے لکھا ’’پاکستان میں اہلیت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ محب الوطن باباخیل نے ’روبہ زوال اہلیت‘ کے معیار پر جس دُکھ کا اظہار کیا‘ اُس کے سیاق و سباق بھی ہوں گے اور اُن جیسے جہاندیدہ و تجربہ کار پولیس اہلکار کے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہوں گی‘ جن کا اگرچہ اُنہوں نے حوالہ تو نہیں دیا لیکن درون خانہ حالات سے آگاہ ہونے کی وجہ سے یہ بات اُنہی کے منہ سے وزنی دکھائی دیتی ہے۔ کاش ہم اُس دکھ اور تشویش کو سمجھ (بھانپ) سکیں‘ جس کی جانب باباخیل نے اِشارہ کیا ہے یا کم اَز کم خود میں اِتنی اِخلاقی جرأت ہی پیدا کر لیں کہ اپنے ہاں ’اہلیت کی رحلت‘ کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کی تدفین میں شریک ہو جائیں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ اداروں میں سیاسی مداخلت حسب سابق جاری بھی ہے اور تبدیلی کے نام سے انقلاب برپا کرنے والے اہلیت کی پاسداری کرنے سے متعلق روائتی بیانات داغنے کی شدت بھی کم نہیں ہوئی! فی الوقت سب کی نظریں آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے ہونے والے ’سینیٹ (قانون ساز ایوان بالا)‘ کے انتخابات پر جمی ہوئی ہیں جن کے لئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اپنا حق رائے دہی دینا ہے۔
خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت ’تحریک اِنصاف‘ کے سربراہ ’آن دی ریکارڈ‘ کہہ چکے ہیں کہ ’’سینیٹ الیکشن کے لئے ایک ووٹ کی قیمت دو کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے۔‘‘ حالانکہ اُنہوں نے کسرنفسی سے کام لیا ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ فی ووٹ قیمت ’پانچ سے پندرہ کروڑ روپے‘ کے درمیان ہے۔ عجب ہے کہ بائیس فروری کی شام ’اِلیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ سینیٹ الیکشن میں ہونے والی ’مبینہ بدعنوانیوں‘ کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایسا کرنے کے لئے اُس کے پاس آئینی اختیارات موجود ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے آئین میں ایک سے زیادہ شقیں (باسٹھ‘ تریسٹھ اور 218) کے تحت صاف و شفاف انتخابات کے اِنعقاد کو ممکن بنانے کی آزادی دی گئی ہے اور اُمیدواروں کے لئے ’امانت و دیانت‘ جیسی شرائط کی موجودگی میں کسی اضافی قانون سازی کا جواز یا ضرورت بھلا کیا رہ جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ تو ’اہلیت کے فقدان‘ کا ہے۔ اگر دیگر قواعد و ہدایات کے ساتھ سینیٹ انتخابات کے ریٹرنگ آفیسرز کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ وہ موبائل فون ساتھ لیجانے والوں‘ ووٹ ڈالنے سے قبل بیلٹ پیپر ظاہر کرنے‘ کسی قسم کا اشارہ یا ذومعنی و غیرضروری الفاظ کے ذریعے اپنے ووٹ کی اصلیت ظاہر کردیں تو ایسا ووٹ اُسی وقت منسوخ کر دیا جائے۔ اِس سلسلے ذرائع ابلاغ الیکشن کمیشن کی بہت مدد کر سکتے ہیں جنہوں نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اگر ’اہلیت فائز ہوتی‘ تو آج پوری دنیا کے سامنے پاکستانی جمہوریت ایک ’تماشا اُور مذاق‘ نہ سمجھا جاتا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سینیٹ کا ووٹ خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر رکھا گیا ہے‘ جبکہ سبھی جماعتوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں عیاں ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ بائیس فروری کی شام پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین کے لئے ایک ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فنڈز سینیٹ انتخابات سے قبل جاری کئے جائیں گے‘ کہیں یہ سینیٹ کے ووٹوں کی خریداری تو نہیں ہورہی لیکن قیمت قومی خزانے سے ادا کی جا رہی ہے؟
سینیٹ انتخابات اور اِن میں حصہ لینے والوں کی اہلیت و اصلیت سے قوم بخوبی آگاہ ہے‘ جن کے پاس مسائل کا حل نہیں بلکہ وہ خود ایک ایسا مسئلہ بنے ہوئے ہیں‘ جس کا حل ناگزیر حدوں کو چھو رہا ہے! ’’تھا مگر ایسا اکیلا میں کہاں تھا پہلے۔۔۔میری تنہائی مکمل تیرے آنے سے ہوئی!‘‘
![]() |
In PAKISTAN MERIT rapidly became extinct |
No comments:
Post a Comment