Tuesday, February 24, 2015

Feb2015: Appreciation for Research Fellows

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قدردانی
بائیس فروری کو ’خودفراموشی‘ کے عنوان سے ’غلام اِسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ (ٹوپی) صوابی میں کی گئی ایک تحقیق کا ذکر کیا گیا‘ جس سے متعلق مزید تفصیلات جاننے والوں کی اکثریت نے اِس اَمر پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’ہمارے ہاں مقامی افراد کی صلاحیتوں اور تجربے سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا نہیں جاتا‘ جس کی وجہ سے نہ صرف تحقیق کے شعبے پر توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ ایسی زراعت (محنت) کرنا کوئی پسند نہیں کرے گا‘ جس سے حاصل وصول نہ ہو!‘‘ یاد رہے کہ ’اسحاق خان یونیورسٹی‘ کے طلباء نے گوبر یا شہری علاقوں میں ٹھوس گندگی کے استعمال سے ’بائیوگیس‘ بنانے کے ایسے چھوٹے منصوبے تیار کئے جن سے حاصل ہونے والی گیس کی مزید تطہیر کرکے اِسے بطور پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرتے ہوئے بجلی کا جنریٹر چلایا جاسکتا ہے۔ تکنیکی طور پر بائیو گیس تین گیسوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ 1: متھین (CH4)‘ 2: ہائیڈروجن سلفائیڈ (H2S) اُور 3: کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)۔ متھین گیس میں شامل دیگر گیسوں کی وجہ سے اِس کا استعمال ’بطور پیٹرول و ڈیزل‘ نہیں کیا جاسکتا اور یہی وہ مشکل مرحلہ تھا‘ جس کا حل طلباء نے تحقیق سے کیا یعنی انہوں نے ’متھین‘کو علیحدہ کیا اور ایسا کرنے کے لئے بطور فلٹریشن ’عام پانی‘ استعمال کیا۔ پانی (H2O) میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اگر اِس میں گیسوں کو داخل کیا جائے تو اُن کی تطہیر ہو جاتی ہے اور خالص متھین حاصل ہو جاتی ہے جس کی خالص مقدار دیگر گیسوں کے مقابلے ’نوے فیصد‘ تک ہو سکتی ہے۔ گھروں میں آنے والی ’قدرتی گیس‘ بھی مختلف گیسوں کا مجموعہ ہوتی ہے جس میں متھین کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کسی گیس میں 70 فیصد حصہ متھین کا ہو تو وہ جلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ متھین کی مقدار اگر بہت کم ہو تو شعلہ نیلے رنگ کا ہوگا‘ جلے گا بھی لیکن اُس میں حرارت کم یا بالکل ہی نہیں ہوگی۔ بائیوگیس سے جب دیگر گیسیں علیحدہ کی گئیں تو متھین کی مقدار 70فیصد سے زیادہ تھی جو جلنے کے لئے قابل تھا۔ اب مرحلہ جنریٹر چلانے کا تھا جس کے لئے متھین 90فیصد درکار تھی۔ تب بائیو گیس میں پائی جانے والی متھین کی مزید تطہیر کی گئی اُور پانی سے گزارنے کے بعد حاصل شدہ گیس اِس قابل تھی کہ اُس سے جنریٹر چلایا جاسکتا۔

گھریلو پیمانے پر بائیوگیس کا جو یونٹ ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ میں تخلیق کیا گیا جو حجم (سائز) میں اِس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے گھر کی چھت پر پانی کی ٹینکی کی طرح رکھا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں میں بڑے جبکہ شہری علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر ’بائیو گیس پلانٹس‘ پر لاگت کا تخمینہ ایک لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ جو سولر سسٹم کے مقابلے سستا‘ ماحول دوست اور بجلی کے حصول کا پائیدار ذریعہ ہے۔ پلانٹ نصب کرنے کے دس روز میں گیس کا حصول شروع ہو جاتا ہے جو دس پندرہ یا پچیس برس نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے کارآمد رکھا جاسکتا ہے اور گندگی ٹھکانے لگانے کا اِس سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا۔

یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں پشاور سے جمع ہونے والی گندگی کا استعمال بطور ایندھن کرنے کے لئے مضافاتی چمکنی گاؤں کے قریب ’پلانٹ‘ لگانے کے لئے جگہ کا انتخاب کیا گیا لیکن ابھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار زمین کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ اہل علاقہ نے احتجاج شروع کردیا اور اُس وقت کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کو اپنے حلقہ انتخاب سے ہونے والی اِس ’زیادتی‘ سے آگاہ کیا۔ پھرایک جرگہ ہوا‘ جس میں متعدد فیصلے ہوئے بشمول گاؤں کی دو رویہ سڑک‘ تعلیمی اِدارے‘ ملازمتیں اور دیگر کئی ترقیاتی منصوبوں کا مطالبہ کیا گیا‘ جس کے لئے اربوں روپے خرچ کئے گئے۔ گاؤں والوں کو تو سہولیات مل گئیں لیکن پشاور میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے نے اِسی میں عافیت جانی کہ وہ واپس چلے جائیں! غلام اسحاق خان یونیورسٹی کے طلباء نے ’پاکستان سائنس فاؤنڈیشن‘ کے مالی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ’بائیوگیس سے بذریعہ جنریٹر بجلی پیدا کر کے دکھائی‘ تو ذمہ داری سائنس فاؤنڈیشن ہی کی بنتی تھی کہ وہ اِس تحقیق سے بھرپور استفادہ کرتی۔ صوبائی حکومت کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں اُور وہ اپنے ہی صوبے میں ہونے والی تحقیق کو صنعتی پیمانے پر فروغ دے سکتی ہے۔

سال دو ہزار گیارہ میں غلام اسحاق خان اِنسٹی ٹیوٹ کے پانچ طلباء روشان مدثر‘ زبدالرحمان‘ جنید افتخار‘ شارون خلیل اور حماد اجمل خان نے بائیوگیس کا منصوبہ بعداز تحقیق مکمل کیا اور اُسے کامیابی سے چلانے کے بعد اعدادوشمار اساتذہ سمیت پورے ملک کے سامنے رکھ دیئے۔ بائیو گیس منصوبے کی نگرانی (سپروائزر) ڈاکٹر جاوید احمد چٹھہ اُور روس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خاسان کریموف نے کی تھی اور اِن دونوں اساتذہ نے طلباء کی تحقیق کے معیار اور دلچسپی و کامیابی کو دیکھتے ہوئے اُنہیں ’A‘ گریڈ دیا لیکن افسوس ہمارے ارباب اختیار نے اِس تحقیق سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھانے اور مقامی مسائل‘ اپنے ہی وسائل سے حل کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چیئرمین تحریک اِنصاف عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک سے اِلتجا ہے کہ ۔۔۔ ’’وہ پہلی فرصت میں متبادل ذرائع سے ماحول دوست توانائی کے امکانات متعارف کرانے والے طلباء سے ملاقات کریں اور اُنہیں اعزازات سے نوازیں تاکہ اِس علم دوستی و قدردانی سے سائنس سمیت دیگر شعبوں میں تحریر و تحقیق کرنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو۔‘‘

No comments:

Post a Comment