Wednesday, February 25, 2015

Feb2015: Call for creative & technical reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تخلیقی و تکنیکی اصلاحات
حیات آباد پشاور‘ تیرہ فروری‘ نماز جمعہ کے اجتماع کو نشانہ بنانے والوں نے جس گاڑی کا استعمال کیا وہ ’چوری شدہ‘ تھی۔ خصوصی و عمومی جرائم میں اِسی قسم کی گاڑیوں سے کام لیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے فیصلہ ساز ماتحت تفتیش کاروں اور ماہرین سے کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کرنے کے لئے مشاورت کررہے ہیں جس میں دہشت گردوں کے زیراستعمال گاڑیوں اُور آمدروفت کے دیگر وسائل کے اِستعمال کو روکا جاسکے۔ اِس سلسلے میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے قواعد میں تبدیلی کے لئے قانون سازی بھی تجویز کی جائے گی تاکہ ہر قسم کی گاڑیوں بشمول موٹرسائیکلز کی خریدوفروخت کے مراحل ’عارضی ٹرانسفر لیٹرز‘ کی بجائے ہر گاڑی اُس کے اصل مالک (خریدار) کے نام پر لازماً رجسٹر کی جائے۔ سردست ایک گاڑی متعدد مرتبہ فروخت ہونے کے باوجود بھی پہلی مرتبہ رجسٹر کرائے گئے نام پر رکھی جاتی ہے جس کی ملکیت ایک سے دوسرے نام پر منتقل کرنے کی بجائے سالہا سال تک اُس گاڑی کو ’اتھارٹی لیٹر (اجازت نامے)‘ کے سہارے کام چلایا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے قواعد میں کئی ایک خامیاں موجود ہیں لیکن متعلقہ حکام ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کئے ہوئے ہیں اور موجودہ طریقۂ کار کو جوں کا توں فعال اِس لئے بھی رکھا گیا ہے کہ اِس میں بے قاعدگیوں کی گنجائش کے سبب مالی بدعنوانیاں آسانی سے کی جاسکیں۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ دہشت گردی کے خطرات سروں پر منڈلانے کی بجائے لپک لپک کر حملہ آور ہو رہے ہوں‘ نظام کی غیرروائتی‘ تکنیکی اُور تخلیقی طریقوں سے اِصلاح کئے بناء چارہ نہیں رہا۔

گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لئے نئے قواعد کی تشکیل میں دو بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو رجسٹریشن کا عمل آسان اُور فوری ہونا چاہئے‘ قطاروں میں کھڑا ہونا‘ ایک سے زیادہ کاغذات‘ فیسیں‘ لوازمات کی فراہمی اُور دفاتر کے چکر بھلا کون پسند کرتا ہے اور آج کے دور میں اتنی فرصت کس کے پاس ہے کہ یہاں وہاں دھکے کھاتا پھرے۔ دوسری بات رجسٹریشن کی کسی دوسرے نام پر منتقلی کی فیس کم سے کم رکھی جائے۔ یہ بات قطعی طورپر غیرمنطقی ہے کہ دہشت گردی کے لاحق خطرات کی وجہ سے ایسے سخت قواعد تشکیل دے دیئے جائیں جن کی آڑ میں عوام پر ’نئے ٹیکس‘ مسلط کر دیئے جائیں۔ سرکاری ادارے نہ تو اپنی کارکردگی بہتر بناتے ہیں‘ نہ ہی خدمات کا معیار مثالی ہوتا ہے لیکن فیسیوں میں اضافہ اور ردوبدل ’مستقل مزاجی‘ سے کرنے کو اپنا ’پیدائشی حق‘ سمجھا جاتا ہے۔سرکاری ملازمین خود کو عوام کا خادم نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں‘ اُن کی بول چال اور اُٹھنے بیٹھنے کی عادات اس حد تک بگڑ چکی ہیں کہ اب ہر سرکاری اہلکار کی نشست اُور دفتر کے باہر آویزاں کرنا پڑے گا کہ ۔۔۔ ’’یہاں عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں پانے والے ملازمین کام کرتے ہیں۔‘‘ بہرکیف گاڑیوں کی رجسٹریشن کے مراحل کی اصلاح کر بھی دی جائے تو اِس سے نہ تو گاڑیوں کی چوری کا عمل رکے گا اُور نہ ہی منظم جرائم یا دہشت گردی کی وارداتوں میں غیرقانونی ذرائع سے حاصل کی گئیں گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ یاد رہے غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں پانچ لاکھ سے زیادہ مشکوک رجسٹریشن والی گاڑیاں سڑکوں پر ہیں جن میں بڑی تعداد موٹرسائیکلوں اور درآمد شدہ پرآسائش مہنگی گاڑیوں کی ہے۔ قبائلی علاقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے غیررجسٹرڈ گاڑیاں آسانی سے پشاور لائی جاسکتی ہیں۔ ایسی تمام بے قاعدگیاں بشمول رجسٹریشن قواعد کی خامیاں اپنی جگہ لیکن گاڑیوں کے محفوظ و قانونی استعمال کی واحد صورت بس یہی باقی بچی ہے کہ ۔۔۔ ’ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ‘ کیا جائے‘لیکن اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔

آنکھیں کھولی جائیں تو کئی ایک عرب و یورپی ممالک کی مثالیں نظر آئیں گی‘ جہاں گاڑیوں کی رجسٹریشن اور دیگر معلومات بشمول گاڑی مالک کے کوائف کسی گاڑی کی فرنٹ سکرین پر چسپاں ایک کریڈٹ کارڈ سائز اسٹکر میں پوشیدہ ہوتے ہیں‘ جب یہ گاڑی اہم و مقررہ مقامات کے قریب سے گزرتی ہے تو خودکار نظام کے تحت سیکورٹی اہلکاروں کو گاڑی کے بارے میں جملہ معلومات مل جاتی ہیں۔ اگر گاڑی چوری ہو جائے اور مالک فوری طورپر قریبی پولیس اسٹیشن کو مطلع کردے تو ایسی گاڑی سے متعلق ’ریڈ الرٹ‘ جاری کردیا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ گاڑی کسی سکینر والے مقام سے گزرتی ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ چل جاتا ہے۔ یوں گاڑی چند منٹ سے زیادہ چوری ہو ہی نہیں سکتی۔ پاکستان میں اِسی قسم کا نظام موٹرویز ٹول ٹیکس کی وصولی کے لئے ’ای ٹکٹنگ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں گاڑی کا نمبر‘ مالک کے کوائف وغیرہ درج ہوتے ہیں اور جیسے ہی گاڑی موٹروے کے کسی ٹول پلازہ پر پہنچتی ہے تو مقررہ رقم ازخود اکاونٹ سے منہا کر لی جاتی ہے اور گاڑی کے مالک کو ایک سیکنڈ کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ حد رفتار سے گزر جاتا ہے اور اسینکر (scanner) اپنا کام نہایت ہی خاموشی سے کر رہا ہوتا ہے۔ گاڑی چوری ہونے کی صورت فوری اطلاع کے لئے خصوصی ہیلپ لائن کا اجرأ‘ اُور اسکینرز پر مبنی گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نظام متعارف کرانے کے لئے زیادہ مالی وسائل کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی اضافی افرادی وسائل درکار ہوں گے۔ پولیس کے موجودہ رپورٹنگ سسٹم کو بھی ’ہیلپ لائن‘ سے جوڑا جا سکتا ہے‘ جہاں بذریعہ فون کال‘ ایس ایم ایس‘ یا آن لائن گاڑی چوری ہونے کی اطلاع دی جاسکے گی۔ اس سلسلے میں ہر گاڑی کو پولیس کے پاس پیشگی رجسٹر ہونا پڑے گا‘ جس کے بعد اُسے گاڑی کی ملکیت کا آئی ڈی کارڈ‘ اسٹیکر اور ایک ’پاس ورڈ (password)‘ جاری کیا جائے جس کا حوالہ دے کر وہ گاڑی کی چوری کی رپورٹ درج کرا سکے گا۔

غیرمقامی گاڑیوں کے لئے پشاور کے داخلی راستوں پر ’عارضی رجسٹریشن‘ کی سہولت کا بندوبست الگ سے کیا جاسکتا ہے۔ یوں نہ صرف پشاور میں گاڑیوں کی کل تعداد‘ کسی ایک شاہراہ پر‘ کسی خاص وقت میں ٹریفک کا دباؤ‘ وغیرہ جسی معلومات بھی جائزے کی صورت مرتب کی جاسکیں گی‘ جس سے شاہراؤں کی توسیع یا نئی شاہراؤں کی تعمیر سے متعلق فیصلہ سازوں کو رہنمائی مل سکتی ہے اور وہ زیادہ بہتر و حسب ضرورت‘ سائنسی بنیادوں پر ترقیاتی حکمت عملیاں تشکیل دے سکیں گے۔ ٹیکنالوجی کے بناء موجودہ مسائل و چیلنجز کا حل ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’کسی بوڑھے طوطے کو نئے کرتب نہیں سکھائے جا سکتے!‘
Technology is the answer for growing and much complex security needs

No comments:

Post a Comment