Thursday, February 26, 2015

Feb2015: FATA IDPs & Policies

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
متاثرین زمانہ!
قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو اُمید تھی کہ حسب اعلان فروری کے وسط میں انہیں اپنے آبائی علاقوں واپس بھیج دیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مقررہ تاریخ آئی اور گزر گئی۔ جن علاقوں میں فوجی کارروائی کامیابی سے مکمل کر لی گئی ہے وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی آبادکاری و بحالی کے لئے فی خاندان پینتیس ہزار روپے مالی مدد دینے کے لئے درکار وسائل نہیں۔ تخمینہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی و بحالی کے عمل کے لئے 75.4 ارب روپے درکار ہوں گے‘ جس کے لئے توقع تھی کہ امریکہ اِن میں سے نصب اخراجات کا مالی بوجھ برداشت کرے گا‘ لیکن ایسا نہ ہوسکا!
یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ تین لاکھ خاندانوں کی جان ومال‘ صحت و خوراک‘ تعلیم و تربیت اور حقوق کا مسئلہ ہے جو اپنے گھربار حکومت کے آسرے پر چھوڑ چکے ہیں لیکن انہیں حسب وعدہ و ضرورت نہ تو بنیادی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی واپسی کی کوئی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ فوجی کارروائی کے سبب بستیاں کھنڈرات میں تبدیل کر دی گئیں ہیں۔ شمالی وزیرستان سے متعلق اگر پاک فوج کے جاری کردہ اعدادوشمار پر بھروسہ کیا جائے تو 47فیصد انفراسٹکچر (سہولیات) مکمل تباہ ہو چکا ہے جبکہ باقی ماندہ 53فیصد بُری طرح متاثر ہے۔‘‘ اگر متاثرین ازخود واپس چلے بھی جائیں تو اِس قدر بڑے پیمانے پر متاثرہ علاقوں کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت (ذاتی مالی وسائل) سے کیونکر اور کیسے کر پائیں گے؟ توجہ طلب ہے کہ قبائلی علاقے جو کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتے تھے‘ آج وہاں مطمئن معاشرت تو دور کی بات زندگی اور موت کے درمیان پایا جانے والا باریک توازن بھی باقی نہیں رہا!
قبائلی علاقوں سمیت ملک میں امن وامان کی صورتحال پر غیرملکی اداروں کی نظریں ہیں۔ چوبیس فروری کو امریکہ کی جانب سے پشاور و لاہور کے سفارتخانوں کی سرگرمیاں محدود کرنے اور امریکی باشندوں کو بناء ضرورت پبلک مقامات سے دور رہنے کی ہدایات جاری کی گئیں جن میں بین السطور آنے والے دنوں میں خطرات کی طرف اشارہ ہے اور وزارت داخلہ کے مطابق فرقہ واریت میں ملوث ایک تنظیم نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے اپنا تعلق توڑ کر ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے کارروائیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اور ان کے عزائم ہیں کہ ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گرد کارروائیاں کی جائیں۔ اقوام متحدہ کے پاکستان میں تعینات ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق ’’پاکستان کو مختلف قسم کے داخلی چیلنجز درپیش ہیں‘ جن کی نوعیت معاشی و اقتصادی بھی ہے اور ان میں سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات و اہداف بھی ہیں۔ قومی سلامتی کے معاملے پر ’ایکشن پلان‘ تو ترتیب دیا گیا ہے لیکن قومی سطح پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں بھی واضح طور پر الگ کھڑی ہیں‘ جو دہشت گردی کو کچلنے کے لئے قومی سطح کی کوششوں کو بے معنی و ناکافی ثابت کر رہی ہیں۔‘‘ غیروں کی نظر میں پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنوں کی تکالیف کا احساس نہیں۔ اگر ایک غیرملکی کے منہ سے یہ بات نہ بھی نکلتی تو بھی حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے بہت کم لوگوں کے لئے یہ امر تشویش کا باعث اور روزمرہ بحث کا موضوع ہوتا ہے کہ ۔۔۔ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والوں کی مدد کیسے کی جائے؟ ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ چند گھنٹے ہی بسر کریں؟‘‘ ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں گھر بار چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں لاکھوں لوگ ہیں تو دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات‘ سیلاب و خشک سالی جیسے بحران سال 2014ء سے سراُٹھائے ہوئے ہیں۔ جس ملک کے ایک حصے میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے ناکافی خوراک کے سبب مر رہے ہوں‘ وہاں کے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ اُن سے کہیں بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔
سال دو ہزار چودہ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد نے قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی سے نقل مکانی کی جس کی وجہ بالترتیب فوجی کارروائیاں ’ضرب عضب‘ اور ’خیبر ون‘ تھیں۔ جنوری سے مارچ دو ہزار چودہ کے دوران مزید 45ہزار افراد نے شمالی وزیرستان سے جان بچانے کے لئے آبائی علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیونکہ دو ہزار چودہ میں دو فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔ جون میں ’ضرب عضب‘ اور اکتوبر میں ’خیبرون‘ کی وجہ سے 2لاکھ 33 ہزار خاندان (چودہ لاکھ افراد) قریبی بندوبستی علاقوں میں پہنچے۔ سال 2009کے بعد 2014ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سال تھا جب سب سے بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی اُور اِن نقل مکانی کرنے والے افرادکے لئے خوراک‘ صحت و تعلیم‘ رہائش‘ تحفظ‘ پینے کا پانی و نکاسی آب اُور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے اور اگر قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی مکمل کرتے ہوئے نقل مکانی کرنے والوں کو اپنے آبائی علاقوں تک رسائی و بحالی کے لئے سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تو اس سے زیادہ شدید بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
دوسروں کے بارے میں سچ سن سن کر کان پک گئے ہیں‘ نجانے ہم اپنے آج‘ اپنے حال اور اپنے ’متاثرین زمانہ‘ پر گزرنے والے حالات کے بارے میں سچ بولنا‘ سننا اور سوچنا کب شروع کریں گے‘ جنہیں ہم سے بہتری کی اُمید تو کیا گمان تک نہیں رہا! ہر شام انواع و اقسام کے ٹیلی ویژن چینلز پر ملبوسات اور میک اپ بدل بدل کر ایک جیسے خیالات رکھنے والے مختلف کردار جن اصلاحات کے وعدے یا جن انتظامی امور کی مخالفت میں دلائل دیتے ہیں وہ سبھی کسی نہ کسی طرح موجودہ طرز حکمرانی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ذاتی مفادات حاصل کر چکے ہیں‘ کر رہے ہیں یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ عمومی سطح پر نفسانفسی کا شکار اور خواص کے حلقوں میں مصلحت شناسوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے ہر کوئی صرف اور صرف مستقبل (آنے والے کسی سنہرے دور) کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں ماضی کا تذکرہ کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی علمی‘ فکری‘ تحقیقی‘ سیاسی‘ انتظامی و مالی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ ’’بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔۔۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!‘‘
IDPs need attention & wants to go back

No comments:

Post a Comment