Friday, February 27, 2015

Feb2015: Research oriented development

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعمیر و ترقی یا تحقیق و ترقی؟
ہم ’نشانہ بازی‘ کی ماہر قوم ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کا موقع ضائع نہیں کرتا اور جسے موقع نہیں ملتا وہ اِس تلاش میں رہتا ہے کہ کس طرح ’شکار‘ کرے! ایک طرف فیصلہ سازوں کی ترجیحات قومی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتیں تو دوسری طرف قومی سطح پر اس ضرورت سے متعلق شعور نہیں پایا جاتا ہے کہ فیصلہ سازوں کو جھنجوڑ کر پوچھ سکیں کہ وہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل کیوں داؤ پر لگا رہے ہیں! ایک ایسے ملک کا مستقبل کیا ہوگا جہاں تعلیم وصحت کے شعبے خاطرخواہ توجہ سے محروم ہوں۔ جہاں نجی شعبے کو اجازت دی گئی ہو کہ عام آدمی کا جس قدر چاہے استحصال کرے۔ جہاں تعلیم و تحقیق کم ترین سطحوں کو چھو رہی ہو۔ جہاں وسائل و امکانات تو موجود ہوں لیکن اُنہیں ترقی دینے کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے میں غیرضروری کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے! وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کوبتایا گیا ہے کہ ’’ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں‘ جس پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جارہا ہے!‘‘ وفاقی سیکرٹری برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی علی قریشی جیسے انتہائی ذمہ دار اہلکار کے اِس بیان سے دل اُور اُمیدیں ٹوٹ جانا فطری امر ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’میرے لئے یہ تسلیم کرنا بہت دُکھ کی بات ہے کہ پچھلے دو برس سے تحقیق و ترقی کے شعبے کے لئے مختص کئے جانے والی مالی وسائل سکڑ رہے ہیں‘ جس کے سبب متعلقہ سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں‘ حالانکہ ہمارے سائنسدان محنت کررہے ہیں لیکن خاطرخواہ مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے جاری منصوبوں کی تکمیل ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہی!‘‘

تحقیق و ترقی کے معاملات کی قابلِ رحم حالت کے بارے میں اعلیٰ سطحی سرکاری عہدیدار کی جانب سے دوٹوک اعترافات میں سے یہ چند الفاظ نقل کئے گئے ہیں‘ معاملہ اِس سے کہیں زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہے۔ قائمہ کمیٹی کا یہ اجلاس پاکستان کونسل برائے سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) میں ہوا‘ جس میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور اس سے ملحقہ محکموں کے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام پر تبادلۂ خیال کرنا تھا لیکن جب فائلوں سے گرد ہٹائی گئی تو ناقابل بیان حقائق سامنے آئے۔ توانائی‘ دفاع اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی ناگزیر حد تک ضروری ہے لیکن یہ جان کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ تحقیق و ترقی کے لئے مختص کیے جانے والے فنڈز غیرمعمولی طور پر کم یعنی جی ڈی پی کا صرف صفر اعشاریہ پانچ ہی فیصد رہ گئے ہیں! پاکستان کو اسرائیل‘ جنوبی کوریا اور جاپان جیسے صنعتی ترقی کرنے والے ممالک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے‘ جنہوں نے تحقیق و ترقی اور افرادی وسائل کو ہنرمند بنانے جیسے شعبوں پر غیرمعمولی سرمایہ کاری کی اور اِسے اپنی ترجیح بنایا ہوا ہے۔ حکمراں جماعت نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کو بتایا گیا کہ ۔۔۔’’اگرچہ حکومت نے تحقیق و ترقی کے لئے اربوں روپے کا وعدہ کیا تھا‘ تاہم ان میں سے صرف چند کروڑ ہی جاری کیے گئے۔‘‘

وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے بجٹ سے متعلق تفصیلات یہ ہیں کہ مالی سال 2008-09ء کے دوران تین ارب روپے کی طلب کے مقابلے 69کروڑ 57 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ اس کے بعد اس شعبے کے لئے مختص کیے جانے والے مالی وسائل کا حجم اور جاری رقم‘ دونوں ہی میں بناء کسی جواز سالانہ کٹوتی کی جاتی رہی اُور جب بات موجودہ مالی سال (2014-15ء) تک پہنچی تو ایک اعشاریہ دو ارب روپے کی رقم مختص تو کر دی گئی لیکن اس میں سے صرف 54کروڑ 80لاکھ روپے ہی جاری کیے گئے۔ ارباب اختیار جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ کمزور ہے۔ سرکاری اہلکاروں کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ برسراقتدار حکمراں جماعت کے خلاف لب کشائی کر سکیں اور بجٹ کے اعدادوشمار ایک گورکھ دھندے کے صورت بیان کرنے سے زیادہ اُن کا احترام نہیں کیا جاتا۔

روایت رہی ہے کہ اخراجات کے سالانہ تخمینہ جات (بجٹ) تشکیل دیتے ہوئے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کئے جائیں لیکن اُن کی تکمیل کے بعدازاں مالی وسائل فراہم نہ کرنے کے بہانے ایک نہیں بہت ہوتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی حکومت کے لئے پہلی ترجیح اُن منتخب اراکین کو راضی رکھنا ہوتا ہے‘ جن کی حمایت کی بنیاد پر وہ حکومت میں رہ سکتے ہیں اور اراکین کو راضی کرنے کے لئے اُنہیں ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل جاری کئے جاتے ہیں‘ جس میں مالی و انتظامی بے قاعدگیوں کے بیان کا نہ تو یہ محل ہے اور نہ ہی یہ قارئین کے لئے کوئی انجان موضوع ہے۔ آخر ہم خود سے کیوں نہ پوچھتے‘ سوچتے اور سمجھتے کہ ۔۔۔ راتوں رات امیر بننے کے لئے سیاست سے بہتر کوئی دوسرا ’پیشہ‘ نہیں رہا۔ یہی ایک ایسا کاروبار ہے جس میں سرمایہ کاری کرنے والے ’عام انتخابات‘ کا انتظار کرتے ہیں اور پولنگ اسٹیشن ’لوٹنے‘ سے لیکر کر حکومت مختلف النظریات جماعتیں متحد ہو کر ایک ہی حکومت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ سینیٹ انتخابات کی کہانی سب کے سامنے ہے! کیا یہ بات عجب نہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کرنے اور ایک دوسرے کے عیب نکالنے والے اچانک بغل گیر ہو جاتے ہیں اور ماضی کی تلخیوں کو یوں فراموش کر دیتے ہیں‘ جیسے وہ کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئیں تھیں!

نتیجۂ خیال یہ ہے کہ پاکستان کو تعمیرات سے زیادہ ’سائنسی شعبے میں تحقیق و ترقی‘ کی ضرورت ہے۔ نینو (Nano-tech)‘ بائیو (Bio-fuels) اور فیول ٹیکنالوجیز (Fuel additives) سائنس کے اُبھرتے ہوئے شعبے ہیں‘ جن میں بارے میں موجودہ وفاقی حکومت کے ’انتخابی منشور‘میں ایک مکمل باب موجود ہے۔ ہمارے سائنس دان کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں کہ پاکستان موجودہ پیداواری صلاحیت کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ توانائی پیدا کرسکتا ہے۔ شمسی توانائی سے ایک سو پچاس گنا زیادہ‘ ہائیڈل پاور سے پانچ گنا اور بائیوماس کے ذریعے چار گنا زیادہ بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے! لیکن کیا ہماری قومی ترجیحات و ترسیلات اِس بات کی عکاس ہیں کہ ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں؟
Research and development should be our priority

No comments:

Post a Comment