ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ٹریفک وارڈن سسٹم
ٹریفک وارڈن سسٹم
بہت کچھ قابل اصلاح ہے اور اگر ایک ایسی فہرست مرتب کی جائے کہ اصلاحات کا
عمل کا آغاز کس شعبے سے ہونا چاہئے تو مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی اکثریت
اِس بات پر متفق ہوگی کہ پشاور میں ٹریفک کا برائے نام نظام‘ پہلی فرصت سے
بھی پہلے درست ہونا چاہئے‘ جس سے کئی ایک ضمنی مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے
طور پر 1: تجاوزات کہ جن کی وجہ سے فٹ پاتھ کی بجائے پیدل چلنے والے
مجبوراً سڑک کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بدترین مثال اشرف روڈ‘
نیورام پورہ گیٹ‘ پیپل منڈی سے ہوتے ہوئے خیبربازار تک دیکھی جا سکتی ہے۔
2: نئے اور پرانے تعمیر ہونے والی کثیر المنزلہ رہائشی و کاروباری مقاصد کے
لئے زیر استعمال عمارتوں میں پارکنگ کی گنجائش نہ رکھنے سے شاہراؤں کا نصف
رقبہ پارکنگ کی نذر ہو چکا ہے۔ اس کی بدترین مثال حال ہی میں تعمیر ہونے
والے شاپنگ پلازوں میں دیکھی جا سکتی ہے جن کے نقشوں میں پارکنگ کے لئے جگہ
مخصوص تھی لیکن بعدازاں اُسے بھی کرائے پر دے دیا گیا اور شہری ترقی یا
میونسپل سروسیز کے معیار و فراہمی کے لئے ذمہ دار اِداروں نے اِس بے ضابطگی
پر ’چپ سادھ‘ رکھی ہے کیونکہ قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کا تعلق بااثر
سیاسی خاندانوں سے ہے! 3: مختلف ادوار میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے
ناقص معیار کی وجہ سے شہر کے مختلف حصوں میں نکاسئ آب کی نالے نالیاں
ناکارہ ہو گئیں ہیں‘ جو معمول کے مطابق بارش ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں
بھی سڑکوں کو اکثر ناقابل استعمال بنا دیتی ہیں۔ 4: پشاور میں ٹریفک سگنلز
نصب کرنے پر کسی بھی دور میں توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پشاور
میں کل 18 مقامات پر ٹریفک سگنل نصب ہیں جن میں سے 14 چھاؤنی کی حدود میں
ہیں۔ جی ٹی روڈ پر لگائے گئے ٹریفک سگنل مظاہرین کے غم و غصے کا نشانہ بن
کر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ 5: سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پشاور کی سڑکوں پر ہر
روز 7 لاکھ 50 ہزار گاڑیاں سفر کرتی ہیں‘ جنہیں ٹریفک قواعد کا پابند
بنانے کے لئے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی افرادی قوت ناکافی ہے اور یہی وجہ ہے
کہ صوبائی حکومت نے پشاور میں جدید طرز کا ’ٹریفک وارڈن سسٹم‘ متعارف
کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تو کیا اِس تجربے کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوں گے
اُور ’ٹریفک وارڈن سسٹم‘ کے خدوخال کیا ہوں گے‘ جن سے وابستہ توقعات و
اُمیدیں کے علاؤہ اہل پشاور کن تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کبھی بھی قانون سازی یا قواعد سازی کی جاتی ہے تو اُس کے خدوخال اور خصوصیات سے اُن طبقات کو مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا‘ جن پر انہیں لاگو کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں قواعد کے انبار لگ گئے ہیں۔ بیرون ممالک نے اپنی ضروریات کے مطابق وضع کردہ قوانین درآمد تو کر لئے گئے لیکن اُن پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور یہی وہ منفی پہلو تھے‘ جنہیں ’’ٹریفک وارڈن سسٹم‘‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی صورت مخاطب کیا جائے گا۔
نوید یہ ہے کہ ’’ٹریفک وارڈن سسٹم‘‘میں شہریوں کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ دو اہداف حاصل کئے جا سکیں پہلا ٹریفک قواعد وضوابط کا ’مکمل اطلاق‘ ممکن ہو اور دوسرا اِن قواعد کے اطلاق میں ماضی کی طرح خاص و عام کی تمیز نہ کی جائے بلکہ شفاف انداز میں ’قاعدے قانون سب کے لئے یکساں‘ ہونے چاہیءں۔
پشاور کی ٹریفک پولیس میں ایک ایسا شعبہ بھی تخلیق کرنے پر اصولی اتفاق کر لیا گیا ہے جس کا کام مختلف تعلیمی اداروں اور دفاتر میں جا کر ’ٹریفک قواعد‘ سے متعلق معلومات و آگہی میں اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ ہوگا‘ جس سے حکام کو بڑی توقعات وابستہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کے لحاظ سے پشاور کو ملک کا مثالی شہر بنا دیا جائے۔ اِس سلسلے میں تجرباتی طور پر پبلک ایڈریسنگ سسٹم کے ذریعے مصروف چوراہوں پر ٹریفک قواعد کے بارے میں معلومات نشر کی جاتی رہی ہیں اور اِسی سلسلے میں ’ایف ایم ریڈیو چینلوں‘ کے وسائل سے بھی استعمال کیا گیا ہے‘ جسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ نئے نظام کے تحت کسی ٹریفک ایمرجنسی کی صورت فون نمبر 1915 پر اطلاع دی جا سکے گی جبکہ ’ایف ایم ریڈیو چینل‘ مستقل بنیادوں پر ٹریفک اپ ڈیٹس نشر کریں گے۔ اگر رش کی وجہ کسی شاہراہ سے ٹریفک دوسری سمت منتقل کرنا ہو یا لوگوں کو دیگر متبادل راستے اختیار کرنے کے لئے آگاہ کرنا ہوتو اِس کے لئے ایف ایم ریڈیو کے وسائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ (چالان) کیا جاتا ہے‘ جسے خودکار نظام سے منسلک کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی حاصل کر لی گئی ہے۔ الغرض ایسے بہت سے اقدامات کی منظوری دے دی گئی ہے‘ جن سے نہ صرف ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری آئے گی بلکہ ٹریفک پولیس کی مبینہ بے ضابطگیوں اور رشوت ستانی جیسی اِکا دُکا شکایات کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔
سال دو ہزار پندرہ کے دوران محض ’’ٹریفک وارڈن سسٹم‘‘ (ایک نئے نظام) کے ذریعے اگر پشاور کی سڑکوں پر یومیہ سات لاکھ سے زائد گاڑیوں کو نظم وضبط کا پابند بنا دیا جاتا ہے‘ تو یہ کرامت سے کم نہیں ہوگا۔ بناء سڑکوں کو کشادہ کئے۔ بناء تجاوزات ختم کئے‘ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ کئے بناء‘ غیرقانونی پرمٹ پر چلنے والی گاڑیوں کے کمرشل استعمال کو روکے بناء اُور اثرورسوخ پر مبنی ذہنیت کی تبدیلی کے بغیر جو کچھ حاصل ہوگا وہ پشتو کے اُس محاورے کی عکاسی کرے گا کہ ۔۔۔ ’’گڑ گڑ کی گردان سے کم اَز کم منہ تو میٹھا ہو ہی جائے گا!‘‘
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کبھی بھی قانون سازی یا قواعد سازی کی جاتی ہے تو اُس کے خدوخال اور خصوصیات سے اُن طبقات کو مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا‘ جن پر انہیں لاگو کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں قواعد کے انبار لگ گئے ہیں۔ بیرون ممالک نے اپنی ضروریات کے مطابق وضع کردہ قوانین درآمد تو کر لئے گئے لیکن اُن پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور یہی وہ منفی پہلو تھے‘ جنہیں ’’ٹریفک وارڈن سسٹم‘‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی صورت مخاطب کیا جائے گا۔
نوید یہ ہے کہ ’’ٹریفک وارڈن سسٹم‘‘میں شہریوں کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ دو اہداف حاصل کئے جا سکیں پہلا ٹریفک قواعد وضوابط کا ’مکمل اطلاق‘ ممکن ہو اور دوسرا اِن قواعد کے اطلاق میں ماضی کی طرح خاص و عام کی تمیز نہ کی جائے بلکہ شفاف انداز میں ’قاعدے قانون سب کے لئے یکساں‘ ہونے چاہیءں۔
پشاور کی ٹریفک پولیس میں ایک ایسا شعبہ بھی تخلیق کرنے پر اصولی اتفاق کر لیا گیا ہے جس کا کام مختلف تعلیمی اداروں اور دفاتر میں جا کر ’ٹریفک قواعد‘ سے متعلق معلومات و آگہی میں اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ ہوگا‘ جس سے حکام کو بڑی توقعات وابستہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کے لحاظ سے پشاور کو ملک کا مثالی شہر بنا دیا جائے۔ اِس سلسلے میں تجرباتی طور پر پبلک ایڈریسنگ سسٹم کے ذریعے مصروف چوراہوں پر ٹریفک قواعد کے بارے میں معلومات نشر کی جاتی رہی ہیں اور اِسی سلسلے میں ’ایف ایم ریڈیو چینلوں‘ کے وسائل سے بھی استعمال کیا گیا ہے‘ جسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ نئے نظام کے تحت کسی ٹریفک ایمرجنسی کی صورت فون نمبر 1915 پر اطلاع دی جا سکے گی جبکہ ’ایف ایم ریڈیو چینل‘ مستقل بنیادوں پر ٹریفک اپ ڈیٹس نشر کریں گے۔ اگر رش کی وجہ کسی شاہراہ سے ٹریفک دوسری سمت منتقل کرنا ہو یا لوگوں کو دیگر متبادل راستے اختیار کرنے کے لئے آگاہ کرنا ہوتو اِس کے لئے ایف ایم ریڈیو کے وسائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ (چالان) کیا جاتا ہے‘ جسے خودکار نظام سے منسلک کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی حاصل کر لی گئی ہے۔ الغرض ایسے بہت سے اقدامات کی منظوری دے دی گئی ہے‘ جن سے نہ صرف ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری آئے گی بلکہ ٹریفک پولیس کی مبینہ بے ضابطگیوں اور رشوت ستانی جیسی اِکا دُکا شکایات کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔
سال دو ہزار پندرہ کے دوران محض ’’ٹریفک وارڈن سسٹم‘‘ (ایک نئے نظام) کے ذریعے اگر پشاور کی سڑکوں پر یومیہ سات لاکھ سے زائد گاڑیوں کو نظم وضبط کا پابند بنا دیا جاتا ہے‘ تو یہ کرامت سے کم نہیں ہوگا۔ بناء سڑکوں کو کشادہ کئے۔ بناء تجاوزات ختم کئے‘ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ کئے بناء‘ غیرقانونی پرمٹ پر چلنے والی گاڑیوں کے کمرشل استعمال کو روکے بناء اُور اثرورسوخ پر مبنی ذہنیت کی تبدیلی کے بغیر جو کچھ حاصل ہوگا وہ پشتو کے اُس محاورے کی عکاسی کرے گا کہ ۔۔۔ ’’گڑ گڑ کی گردان سے کم اَز کم منہ تو میٹھا ہو ہی جائے گا!‘‘
No comments:
Post a Comment