ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نیا پشاور: ضرورت اُور تقاضے
نیا پشاور: ضرورت اُور تقاضے
پشاور کے قدیم باسیوں (بالخصوص ہندکووان اَقوام اور ان کی قیادت کرنے والے
سادات کرام کے) ہاں امن و امان اور جان و مال کے ذاتی تحفظ (سیکورٹی) سے
متعلق خدشات سے زیادہ اِس بات کی فکر پائی جاتی ہے کہ وہ ماضی کی طرح متحد
نہیں رہے اور انہیں یوں منتشر اور خود سے غافل دیکھ کر‘ اگر ’شکاریوں‘ نے
مزید وار کئے تو اُن کے رہائشگاہیں اور رہی سہی مالی و کاروباری حیثیت کا
بھرم بھی جاتا رہے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ (خدانخواستہ) خانقاہوں کے نقوش
بھی ’اُولیاء (بزرگ دین)‘ کی سرزمین سے مٹ جائیں! اِس خدشے کا اظہار دو
فروری کی صبح‘ آذان فجر سے چند منٹ قبل سلسلۂ قادریہ حسنیہ کے سجادہ نشین‘
پیرطریقت سیّد نورالحسنین قادری گیلانی المعروف سلطان آغا نے کیا‘ جو گیارہ
ربیع الثانی کی مناسبت سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے
عرس کی گیارہ روزہ تقریبات کے اختتام پر دُعا کرتے ہوئے اُن فلاح و بہبود
کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ’مولوی جی ویلفیئر ٹرسٹ‘ کی فعالیت پر زور دے
رہے تھے جو غوث زماں حضرت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی
جی رحمۃ اللہ علیہ کے نام نامی‘ اِسم گرامی سے منسوب ہے اور مولوی جیؒ کے
دنیا سے پردہ کرنے کے بعد تشکیل دیئے گئے اِس ’پلیٹ فارم‘ کا مقصد یہ ہے کہ
ترجیحی بنیادوں پر پشاور شہر میں رہنے والے ایسے افراد کو طبی سہولیات
فراہم کی جائیں جو محض مالی وسائل نہ ہونے کے سبب خاطرخواہ علاج سے محروم
ہیں۔ اِس سلسلے میں بالخصوص دل کے امراض اور یرقان سے متاثرہ افراد کو ’مفت
ادویات و علاج‘ فراہم کرنے کا بیڑا اُٹھایا گیا تھا کیونکہ پشاور کے رہنے
والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو مالی وسائل نہ ہونے کے باعث جان بچانے
والی مہنگی ادویات نہیں خرید سکتے!
لمحۂ فکریہ ہے کہ ۔۔۔ سرکاری ہسپتالوں میں عمومی و خصوصی علاج کا بڑا خرچ (ادویات کی خریداری کی صورت) مریضوں کو خود برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ صحت کے شعبے کے لئے مختص مالی وسائل (سالانہ بجٹ) کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو جاتا ہے! پشاور کے سادات گھرانوں (روحانی پیشواؤں) کی نمائندہ تنظیم جمعیت السادات کے سربراہ سلطان آغا نے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع بالخصوص پشاور سے ہونے والی اِس ناانصافی پر دلی دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ ’’یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ سرکاری وسائل خود سرکاری اِداروں کے بوجھ تلے ہی دب کر رہ گئے ہوں! اُنہوں نے تجویز دی کہ صحت و تعلیم اور شہری سہولیات (پینے کے صاف پانی کی فراہمی) کے شعبوں کے لئے مختص مالی وسائل سے ملازمین کی تنخواہوں کو الگ رکھا جائے اور جملہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے الگ سے رقم مختص کرنے کا طریقۂ کار حسب حال وضع کیا جائے تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ترقیاتی و غیرترقیاتی شعبوں کے لئے مختص مالی وسائل کا کتنے فیصد اُن کی بہبود کے لئے مختص یا خرچ ہوتا ہے یا خرچ کرنے کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ سردست ہر حکومت پہلے سے زیادہ اربوں روپے کے مالی وسائل مختص کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن صحت و تعلیم جیسا بنیادی شعبہ سہولیات کی بجائے مزید الجھنوں اور مسائل کا شکار ہو جاتا ہے‘ اُس کی کارکردگی ارتقائی پرواز کرنے کی بجائے زمین میں دھنس رہی ہے!‘‘ اُنہوں نے اشارتاً چند جملوں میں اُس ایک موضوع کو بھی چھیڑا‘ جس کا تعلق سیاسی جماعتوں کے مفادات سے ہے کہ ’’مسئلہ مالی وسائل کی کمی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ہر سیاسی حکومت سرکاری اداروں کو ’ملازمتیں فراہم کرنے کا آسان ذریعہ‘ سمجھتی ہے۔ بھرتیوں کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اِداروں کا اَفرادی حجم اُن کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ کیا کسی ہسپتال اُور وہ بھی صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ہونے کا اعزاز رکھنے والی علاج گاہ کے لئے یہ شہرت زیب دیتی ہے کہ وہاں ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی بجائے چوکیداروں و دیگر کلاس فور ملازمین کی تعداد زیادہ ہے؟ ایک ایک دروازے پر تین سے چار افراد بھرتی کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ ایک ضلع کے نوجوانوں کو نوکریاں نہ ملنا اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کو پشاور میں ملازمتیں فراہم کرنا کہاں تک جائز ہے؟ سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا احتساب اور سزا و جزأ کا عمل نہ ہونا کہاں کی کارکردگی ہے؟ سرکاری وسائل کا یوں بیدردی سے ضیاع ’مال مفت دل بے رحم‘ جیسا نہیں تو اُور کیا ہے اُور یہ سب بدترین بددیانتی ہے‘ جسے ’فوری طور پر ترک‘ کرتے ہوئے ذمہ داروں کو اپنے خالق و مالک سے معافی مانگنی چاہئے۔ علاؤہ ازیں افسرشاہی کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سیاست دانوں کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔ محکمانہ ترقیوں اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہونے کی لالچ میں ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنے کی روش ترک ہونی چاہئے۔ عہدوں کی بجائے پاکستان سے وفاداری عام ہونی چاہئے۔ اِس حقیقت کو فراموش نہ کیا جائے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی بنائے بغیر نہ تو امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئے گی اور نہ ہی معاشرے میں پائی جانے والی عمومی بے چینی کی شرح کو کم کیا جا سکے گا۔ نوجوانوں کے لئے خود روزگار‘ ہنر مندی کے فروغ کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع‘ معاشی استحکام کے لئے لیبرقوانین پر عمل درآمد اُور صحت و تعلیم کے علاؤہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم پشاور پر ’دردمندی کے ساتھ توجہ‘ دینے کی ضرورت ہے! اُنہوں نے کہا کہ ’’بقاء کے لئے خدمت خلق میں فنا ہونا پڑے گا۔ ’مولوی جی ویلفیئر ٹرسٹ‘ کی فعالیت اور پشاور کی ہریونین کونسل سے پانچ پانچ افراد پر مشتمل ایک خصوصی ’رضاکار خدمتگار دستہ‘ تشکیل دیا جائے گا‘ جو اپنے عقیدے و حقوق کے تحفظ و حصول کے لئے تن من دھن (دامے‘ درہمے‘ سخنے) جدوجہد کرنے میں پیش پیش ہوگا۔‘‘
اہل پشاور نے اِتحاد کی اہمیت اور اُن محرکات کو سمجھ لیا ہے‘ جس کی وجہ سے جنوب مشرق ایشاء کے قدیم ترین زندہ تاریخ شہر پشاور میں زندگی کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد‘ آگہی و شعور پھیلانے کی غرض سے ’اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مالی وسائل کا استعمال کرنے کی اگر ٹھان لی گئی ہے اور اب بھی دیر نہیں ہوئی‘ اگر سادات کرام کی قیادت میں مذکورہ اہداف کا پچاس فیصد حصہ بھی حاصل کر لیا جاتا ہے تو اِس حرکت کا ثمر برکت ہی برکت کی صورت ظاہر ہوگا۔ ’نئے پشاور‘ کا قیام پھر کوئی چاہے بھی تو نہیں روک سکے گا! پشاور کی یہ بیداری شاید اُن حکمراں طبقات‘ حکمراں خاندانوں اور یہاں حکومتیں کرنے والوں کی نیندیں حرام کر دے جنہوں نے مختلف ادوار میں پشاور کے نام پر اربوں روپے کے ذاتی اثاثے بنائے! اُور اپنے اِس فعل پر شرمندہ بھی نہیں! جن کی شاطر بددیانتی اور بدعنوانیوں کی مثالیں روز روشن کی طرح ہمارے اِردگرد پھیلی ہوئی ہیں‘ مثال کے طور پر پینے کا صاف پانی فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اندرون شہر و بیرون شہر (دیہی علاقوں) میں رہنے والے یرقان و دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں! یہ صورتحال سنجیدہ توجہ چاہتی ہے۔ کمیشن کے لئے سڑکیں‘ نالے نالیاں پختہ کرنے سے اپنی سوچ و فکر کو ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا‘ یہی نئے پشاور میں پہلے فجر کے طلوع کی گھڑی تھی۔ پشاور کی اصل ضرورت کا اِدارک رکھنے والے بخوبی جان چکے ہیں کہ اُنہیں آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں میں کیا کرنا ہے اور عام آدمی کی مشکلات و ضروریات کیا ہیں۔ اگر یہ وقت فیصلہ سازوں کی سطح پر ’تجاہل عارفانہ‘ ترک کرنے اُور توبہ تائب ہونے کی ہے تو دوسری طرف ’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کی گھڑیاں بھی آ پہنچی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ’’پشاور کو بچانا ہوگا۔‘‘
لمحۂ فکریہ ہے کہ ۔۔۔ سرکاری ہسپتالوں میں عمومی و خصوصی علاج کا بڑا خرچ (ادویات کی خریداری کی صورت) مریضوں کو خود برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ صحت کے شعبے کے لئے مختص مالی وسائل (سالانہ بجٹ) کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو جاتا ہے! پشاور کے سادات گھرانوں (روحانی پیشواؤں) کی نمائندہ تنظیم جمعیت السادات کے سربراہ سلطان آغا نے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع بالخصوص پشاور سے ہونے والی اِس ناانصافی پر دلی دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ ’’یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ سرکاری وسائل خود سرکاری اِداروں کے بوجھ تلے ہی دب کر رہ گئے ہوں! اُنہوں نے تجویز دی کہ صحت و تعلیم اور شہری سہولیات (پینے کے صاف پانی کی فراہمی) کے شعبوں کے لئے مختص مالی وسائل سے ملازمین کی تنخواہوں کو الگ رکھا جائے اور جملہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے الگ سے رقم مختص کرنے کا طریقۂ کار حسب حال وضع کیا جائے تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ترقیاتی و غیرترقیاتی شعبوں کے لئے مختص مالی وسائل کا کتنے فیصد اُن کی بہبود کے لئے مختص یا خرچ ہوتا ہے یا خرچ کرنے کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ سردست ہر حکومت پہلے سے زیادہ اربوں روپے کے مالی وسائل مختص کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن صحت و تعلیم جیسا بنیادی شعبہ سہولیات کی بجائے مزید الجھنوں اور مسائل کا شکار ہو جاتا ہے‘ اُس کی کارکردگی ارتقائی پرواز کرنے کی بجائے زمین میں دھنس رہی ہے!‘‘ اُنہوں نے اشارتاً چند جملوں میں اُس ایک موضوع کو بھی چھیڑا‘ جس کا تعلق سیاسی جماعتوں کے مفادات سے ہے کہ ’’مسئلہ مالی وسائل کی کمی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ہر سیاسی حکومت سرکاری اداروں کو ’ملازمتیں فراہم کرنے کا آسان ذریعہ‘ سمجھتی ہے۔ بھرتیوں کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اِداروں کا اَفرادی حجم اُن کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ کیا کسی ہسپتال اُور وہ بھی صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ہونے کا اعزاز رکھنے والی علاج گاہ کے لئے یہ شہرت زیب دیتی ہے کہ وہاں ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی بجائے چوکیداروں و دیگر کلاس فور ملازمین کی تعداد زیادہ ہے؟ ایک ایک دروازے پر تین سے چار افراد بھرتی کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ ایک ضلع کے نوجوانوں کو نوکریاں نہ ملنا اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کو پشاور میں ملازمتیں فراہم کرنا کہاں تک جائز ہے؟ سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا احتساب اور سزا و جزأ کا عمل نہ ہونا کہاں کی کارکردگی ہے؟ سرکاری وسائل کا یوں بیدردی سے ضیاع ’مال مفت دل بے رحم‘ جیسا نہیں تو اُور کیا ہے اُور یہ سب بدترین بددیانتی ہے‘ جسے ’فوری طور پر ترک‘ کرتے ہوئے ذمہ داروں کو اپنے خالق و مالک سے معافی مانگنی چاہئے۔ علاؤہ ازیں افسرشاہی کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سیاست دانوں کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔ محکمانہ ترقیوں اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہونے کی لالچ میں ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنے کی روش ترک ہونی چاہئے۔ عہدوں کی بجائے پاکستان سے وفاداری عام ہونی چاہئے۔ اِس حقیقت کو فراموش نہ کیا جائے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی بنائے بغیر نہ تو امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئے گی اور نہ ہی معاشرے میں پائی جانے والی عمومی بے چینی کی شرح کو کم کیا جا سکے گا۔ نوجوانوں کے لئے خود روزگار‘ ہنر مندی کے فروغ کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع‘ معاشی استحکام کے لئے لیبرقوانین پر عمل درآمد اُور صحت و تعلیم کے علاؤہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم پشاور پر ’دردمندی کے ساتھ توجہ‘ دینے کی ضرورت ہے! اُنہوں نے کہا کہ ’’بقاء کے لئے خدمت خلق میں فنا ہونا پڑے گا۔ ’مولوی جی ویلفیئر ٹرسٹ‘ کی فعالیت اور پشاور کی ہریونین کونسل سے پانچ پانچ افراد پر مشتمل ایک خصوصی ’رضاکار خدمتگار دستہ‘ تشکیل دیا جائے گا‘ جو اپنے عقیدے و حقوق کے تحفظ و حصول کے لئے تن من دھن (دامے‘ درہمے‘ سخنے) جدوجہد کرنے میں پیش پیش ہوگا۔‘‘
اہل پشاور نے اِتحاد کی اہمیت اور اُن محرکات کو سمجھ لیا ہے‘ جس کی وجہ سے جنوب مشرق ایشاء کے قدیم ترین زندہ تاریخ شہر پشاور میں زندگی کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد‘ آگہی و شعور پھیلانے کی غرض سے ’اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مالی وسائل کا استعمال کرنے کی اگر ٹھان لی گئی ہے اور اب بھی دیر نہیں ہوئی‘ اگر سادات کرام کی قیادت میں مذکورہ اہداف کا پچاس فیصد حصہ بھی حاصل کر لیا جاتا ہے تو اِس حرکت کا ثمر برکت ہی برکت کی صورت ظاہر ہوگا۔ ’نئے پشاور‘ کا قیام پھر کوئی چاہے بھی تو نہیں روک سکے گا! پشاور کی یہ بیداری شاید اُن حکمراں طبقات‘ حکمراں خاندانوں اور یہاں حکومتیں کرنے والوں کی نیندیں حرام کر دے جنہوں نے مختلف ادوار میں پشاور کے نام پر اربوں روپے کے ذاتی اثاثے بنائے! اُور اپنے اِس فعل پر شرمندہ بھی نہیں! جن کی شاطر بددیانتی اور بدعنوانیوں کی مثالیں روز روشن کی طرح ہمارے اِردگرد پھیلی ہوئی ہیں‘ مثال کے طور پر پینے کا صاف پانی فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اندرون شہر و بیرون شہر (دیہی علاقوں) میں رہنے والے یرقان و دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں! یہ صورتحال سنجیدہ توجہ چاہتی ہے۔ کمیشن کے لئے سڑکیں‘ نالے نالیاں پختہ کرنے سے اپنی سوچ و فکر کو ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا‘ یہی نئے پشاور میں پہلے فجر کے طلوع کی گھڑی تھی۔ پشاور کی اصل ضرورت کا اِدارک رکھنے والے بخوبی جان چکے ہیں کہ اُنہیں آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں میں کیا کرنا ہے اور عام آدمی کی مشکلات و ضروریات کیا ہیں۔ اگر یہ وقت فیصلہ سازوں کی سطح پر ’تجاہل عارفانہ‘ ترک کرنے اُور توبہ تائب ہونے کی ہے تو دوسری طرف ’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کی گھڑیاں بھی آ پہنچی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ’’پشاور کو بچانا ہوگا۔‘‘
No comments:
Post a Comment