Tuesday, February 3, 2015

Feb2015: Tragedy within Tradegy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہر اک جنبش فسانہ ہے

 سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے حملے سے متعلق تحقیقات منظرعام پر لانے کا مطالبہ اور سانحۂ پشاور کا اصل درپردہ محرک بیان کرتے ہوئے اُس سازشی نظریئے کو باضابطہ طور پر پیش کردیا گیا ہے‘ جس کے مطابق یہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کرایا گیا تاکہ اِسلام آباد میں اُس وقت جاری تحریک انصاف کا احتجاجی دھرنا ختم کیا جا سکے۔ یہ غیرمصدقہ اور بناء ثبوت نظریہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ پر اُس وقت سے گردش کر رہا ہے جب تحریک انصاف نے پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے غمزدہ خاندانوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر سولہ دسمبر کے اگلے ہی روز ’ایک سو چھبیس دن‘ سے جاری احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔2 فروری کی شام یکے بعد دیگرے منظرعام پر آنے والا ایک جائز مطالبہ لیکن ایک غیرمحتاط بیان کا تذکرہ اُس شام کے ’ٹاک شوز‘ میں نہیں کیا گیا تو اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ دونوں بیانات اہم نہیں بلکہ ہمارے ہاں نجی ٹیلی ویژن چینلوں کا طریقۂ کار یہ ہے کہ بحث و مباحثے کے پروگراموں کے لئے اوّل تو موضوع قومی سلامتی کے ایک خاص ادارے کی جانب سے مبینہ طور پر ’تجویز‘ کئے جاتے ہیں اور ساتھ ہی اس پربحث کے لئے طلب کئے جانے والے مہمانوں کے ناموں کی سفارش بھی کردی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم وبیش گیارہ سو قانون ساز اداروں کے اراکین میں سے صرف چند چہرے ہی یہاں وہاں اچھل کود کرتے دیتے ہیں! نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے ہاں کسی ایک موضوع کا انتخاب دن کے شروع یا ڈھلنے سے قبل کرنے کا رواج ہے۔ پھر اُس موضوع سے متعلق سوالات کی تیاری اور میزبان کے لئے ابتدائیہ و اختتامیہ تحریر کرنے کے لئے درجنوں افراد مصروف ہو جاتے ہیں اور میزبان اپنے میک اپ اور کپڑوں کی فکر کی جانب تمام تر توجہ مبذول کر لیتا ہے۔ یقین کیجئے کہ جس طرح کا فیشن اور ملبوسات ہمارے ہاں صحافتی ٹیلی ویژن اُور ٹاک شوز میں دیکھنے کو ملتا ہے‘ اِس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ کم عمر‘ نوجوان‘ صحافتی اقدار و تجربات سے لفظی طور پر آشنا‘ چیخ چیخ کر باتیں کرنے یا اپنی اَداؤں اور مخصوص مسکراہٹ سے سوالات کو نرم و شیریں بنانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اداکاری میں ماہر ہے۔ صحافتی ٹیلی ویژن میں اِس قدر بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بحث ومباحثوں میں بطور میزبان شرکت کا عالمی اعزاز بھی غیراعلانیہ طور پر پاکستان ہی کے پاس ہے! خبر اور خبر کے درپردہ حقائق سے زیادہ لباس کی وضع قطع‘ تراش خراش پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اُن تمام ’مکروہ ڈیزائنوں‘ کے کپڑے جن کا استعمال ہوتا ہے‘ جن کا ’صحافتی ٹیلی ویژن‘ کی دنیا میں استعمال ’ممنوع‘ سمجھا جاتا ہے‘ مثال کے طور پر بناء بازو ٹی شرٹ‘ کسی تنظیم یا ادارے کی علامت سمجھے جانے والے رنگوں اور ڈیزائن کے رومال‘ مفلر یا بیجیز کا استعمال‘ وغیرہ وغیرہ۔ سرشام لگنے والے اِن فیشن شوز کی حقیقت کا احاطہ الگ موضوع کے طور پر توجہ چاہتا ہے‘ سردست موضوع ’آرمی پبلک سکول‘ کے والدین کی وہ تشویش ہے جس میں ہرگھڑی اضافہ ہو رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ سکول پر حملے سے متعلق جو تحقیقات و تفتیش اگر کی گئی ہے‘ اُس کے مندرجات یا کم سے کم غیرحساس و حساس تفصیلات یا جزئیات قوم کے سامنے لائی جائیں۔

سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ سکول پر حملے کے لئے جس عسکریت پسند گروہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا‘ کیا وہی اِس کے لئے ذمہ دار ہے بھی یا نہیں کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کی سربراہ محترمہ غنویٰ بھٹو نے 2 فروری کی شام اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ’’آرمی پبلک سکول پر حملہ تحریک انصاف کا دھرنا ختم کرنے کے لئے اختیار کی گئی ایک چال تھی!‘‘ اگر اُن کے پاس اِس بات کے ثبوت ہیں تو یہ نہ صرف ’اِنتہائی دردناک‘ بات ہے بلکہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا سب سے بڑا سکینڈل بھی ہے جس کے پیچھے سیاسی عناصر کارفرما ہیں اور اگر مکمل نہ سہی لیکن جزوی طور پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے تو پاکستان کی کوئی ایک سیاسی جماعت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکتی ہے۔ اُس کی قیادت کو فوجی عدالتوں میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے دفاع کا موقع مل سکتا ہے لیکن اِس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ انصاف کے تقاضوں اور عوام کی اکثریت کی توقعات کے مطابق سانحۂ پشاور کے ذمہ داروں کے ’بلیک وارنٹس‘ جاری نہ ہوں! لمحۂ فکریہ ہے کہ اب تک ہم اپنے سیاستدانوں کے بارے میں یہی سنتے آئے ہیں کہ وہ شاہانہ و ٹھاٹھ باٹھ سے بھرپور زندگی تو بسر کرتے ہیں لیکن حسب آمدن اپنے حصے کا ٹیکس اَدا نہیں کرتے۔ اُن کے بیرون ملک آثاثے ہیں اور اُن کی آمدنی یا مالی وسائل کے ذرائع مشکوک ہیں۔ وہ امانت و دیانت‘ برداشت و ایثار کے بارے میں بے تھکان بولتے تو ہیں لیکن عملی طور پر اُن کا قول و فعل اور فکر و تدبر تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے جس میں ذاتی مالی مفادات سے زیادہ کوئی دوسری سوچ یا ترجیح شامل حال نہیں ہوتی لیکن اگر سیاستدان اِس انتہاء سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ معصوم بچوں کے قتل جیسے گھناؤنے جرم میں بھی ملوث ہیں تو اِس ’بڑیکہانی (بگ گیم)‘ کے سبھی کرداروں اور ہدایت کاروں یا اُن کے مشیروں کے چہرے بے نقاب ہونے چاہیءں۔ اِس سلسلے میں سپرئم کورٹ یا پشاور ہائی کورٹ کو ’محترمہ غنویٰ بھٹو‘ کے بیان کا ازخود (سوموٹو) نوٹس لیتے ہوئے اُنہیں طلب کرنا چاہئے تاکہ اُن ثبوتوں یا شواہد کی جانچ سے سانحۂ پشاور کے ’اصل مجرموں‘ تک پہنچا جا سکے۔

سات ہفتے (پچاس دن) گزرنے کے باوجود نہ تو سانحۂ پشاور سے متعلق اُٹھائے گئے سوالات کے سرکاری طور پر جوابات سامنے آئے ہیں اور نہ والدین کو جاری تحقیقات و تفتیش کے حوالے سے اطمینان ہے کیونکہ انہیں کسی بھی مرحلے پر اعتماد میں نہیں لیاگیا۔ والدین چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سولہ دن میں جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کرانے کا اپنا وعدہ پورا کریں اور اگر انہیں سانحۂ پشاور یا خیبرپختونخوا کے دکھ درد کی پرواہ نہیں رہی تو صوبائی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں۔

دو فروری کی شام پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بچوں کو یاد کرنے والے والدین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اُن کے زخم تازہ ہیں۔ ’شہدأ فورم‘ کے نام سے شہید بچوں کے والدین کی جدوجہد کچھ بھی ہو سکتی لیکن یہ سیاسی نہیں۔ ماؤں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اور دکھ سیاسی نہیں ہو سکتے۔ سسکیاں آہیں اور مطالبات کا سیاسی قرار دینا زیادہ دردناک المیہ ہے۔ متاثرین ہمدردی یا مالی معاونت نہیں چاہتے بلکہ استحقاق رکھتے ہیں کہ سولہ دسمبر کے روز انسانیت کو خون کے آنسو رلانے والے حقیقی کرداروں کو بے نقاب کرکے اُنہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ ’’خمارآلود نظروں کی ہر جنبش فسانہ ہے: الہٰی ہم اُنہیں دیکھیں‘ کہ اُن کا دیکھنا دیکھیں!‘‘

No comments:

Post a Comment