Saturday, March 21, 2015

Mar2015: Comprehensive strategy needed

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فرائض‘ ذمہ داریاں اُور توازن
دُوسروں کو نصیحت‘ خود میاں فصیحت۔ ہم میں سے ہر کوئی ’قانون کی حکمرانی‘ چاہتا ہے لیکن وہ نہ تو قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر اِعتماد رکھتا ہے اُور نہ ہی پولیس تھانوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اِس منطقی تقاضے اور غیرمنطقی منفی رویئے کی بڑی وجہ خود پولیس کا کردار رہا ہے‘ جن کے اعلیٰ و ادنی اہلکار پر مالی بدعنوانیوں کے مقدمات قائم ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن افراد نے اپنی ملازمت کے دوران مالی بدعنوانیاں کیں‘ اُنہوں نے اپنے زور قلم (اختیارات) سے کتنی زیادہ اور بڑے پیمانے پر ناانصافیاں کی ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کی ساکھ‘ واجب الاحترام مقام اور معاشرے میں وہ حیثیت نہیں کہ جو ہونی چاہئے۔

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد سے تحریک انصاف نے ’تھانہ کچہری کلچر‘ تبدیل کرنے کے لئے جو عملی کوششیں کیں ہیں‘ اُنہیں اگرچہ کافی قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن تبدیلی کا آغاز بہرحال ہو چکا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اِسی تبدیلی کے ثمرات ظاہر ہوں گے۔ پولیس اور تھانے سے سفید پوش نفرت نہیں کریں گے۔ ہر خاص و عام سے قانون کی حکمرانی اور معاملہ بلاامتیاز ہوگا۔ اِس ہدف کے سہل اور تیزرفتار حصول کے لئے کسی بھی ضلع سے تعلق رکھنے والے اُن منتخب نمائندوں کا کلیدی کردار بھی نظراَنداز نہیں کرنا چاہئے جو موجودہ منظرنامے میں ’تجاہل عارفانہ‘ خود پر طاری کئے اِس پورے اصلاحاتی عمل سے علیحدہ تشریف فرما ہیں۔ درحقیقت یہ ذمہ داری منتخب نمائندوں کی ہی بنتی ہے کہ وہ معاشرے کی اِصلاح‘ حسن سلوک‘ اِدب و اِحترام‘ سماجی و اَخلاقی اَقدار‘ روایات یا کم سے کم اِنفرادی حقوق و ذمہ داریوں کے حوالے سے عوام الناس کا ہاتھ پکڑ کر رہنمائی کریں۔ خود پر قوانین لاگو کریں اور اپنے آپ کو بطور مثال پیش کریں۔ دوسری ذمہ داری مسجد و منبر اور خصوصی ایام کے دوران منعقد ہونے والے اجتماعات میں وعظ و نصیحت کرنے والوں کی بنتی ہے کہ وہ ہر معززومقدس مجلس کے اختتام سے قبل ’قانون کے اِحترام‘ دوسروں کی جان و مال‘ عزت و آبرو اور اُن قوانین و قواعد پر عمل درآمد کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے اِس بات کی تاکید کریں کہ موجودہ حالات میں قانون و قواعد کا اِحترام ضرورت سے زیادہ مجبوری بن چکی ہے اور اگر ہم ’خوداِحتسابی‘ کے ذریعے ’قانون پسندوں‘ کے منصب پر فائز نہیں ہوں گے‘ اپنے اہل و عیال کو قانون کے احترام سے آگاہ نہیں کریں گے تو اُس اِنتہاء پسندی کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے‘ جس کا بعدازاں نتیجہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی صورت برآمد ہوتا ہے اور جس نے ہمیں اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔

پشاور پولیس کے لئے پہلے ہی چیلنجز کیا کم تھے کہ یکایک اَمن و اَمان کی بحالی‘ بین الاضلاعی‘ بین الصوبائی‘ قبائلی علاقوں اور ہمسایہ ممالک میں منظم جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹتی کہ سانحہ پشاور (سولہ دسمبر) نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ترجیحات ہی تبدیل کرکے رکھ دی ہیں۔ اب پہلی ترجیح نفرت اور فرقہ واریت کو پھیلانے والے اسباب کا تدارک کرنا ہے جس کے لئے ہدایات جاری کرنے کے بعد ہر تقریر اور وعظ کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے لیکن اُن تمام آڈیو ویڈیو کی شکل میں محفوظ مواد سے کیا معاملہ کیا جائے جو زیرگردش یا باآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ گذشتہ بارہ ہفتوں کے دوران پشاور پولیس نے کئی ایک ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے‘ جو نفرت انگیز تقاریر کی تشہیر و فروخت میں ملوث پائے گئے۔ ایسے ہی ایک شخص کو 23 فروری کے روز بھانہ ماڑی پولیس نے گرفتار کیا تھا جو انٹرنیٹ کے ذریعے جہادی ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرکے اُن کی ’سی ڈیز‘ بنانے کا کاروبار کرتا تھا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق یہ کام ’موبائل فون کے کاروبار‘ کی آڑ میں جاری تھا اور موبائل فون کے ذریعے جہادی ویڈیوز کی تشہیر و منتقلی کی جاتی تھی۔ مذکورہ ملزم ملک نواب کو گرفتار کرنے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جہاں جج صاحب سلیم جان خان نے برآمد ہونے والے مواد (سی ڈیز‘ ہارڈ ڈیسک اور یو ایس بیز) میں موجود پائی گئیں اور یہی ملزم کا جرم ثابت کرنے کے لئے کافی شواہد تھے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم ملک نواب کو 21دن کی قید اور 1000روپے جرمانہ کرنے کی سزا دی!

25 دسمبر 2014ء کو ’قومی سطح پر اپنائی گئی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان)‘ کے مطابق فرقہ واریت‘ انتہاء پسندی اور عدم رواداری پر مبنی مواد چاہے وہ کسی بھی صورت (الیکٹرانک یا پرنٹ) شکل میں ہو‘ کی تشہیر یا اس کی خریدوفروخت ایک قابل گرفت جرم قرار دیا گیا ہے لیکن یہ بات بہت لوگوں کو معلوم ہوگی کہ اگر وہ انٹرنیٹ (internet) کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی ایسی ویڈیو ڈاؤن لوڈ (download) کر کے اپنے کمپیوٹر‘ موبائل فون یا یو ایس بی ڈرائیو میں محفوظ رکھتے ہیں تو یہ بھی ’جرم‘ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ پر کنٹرول کرنے کے لئے وفاقی سطح پر ادارہ (پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی) موجود ہے‘ جنہیں ایسی ویب سائٹس پر پابندی عائد کرنی چاہئے جہاں سے نفرت انگیز اور شرانگیز مواد ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ اِس سلسلے میں نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اپنے موبائل فونز‘ لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کو ہرطرح کے وائرس (خودکار پروگراموں) کی طرح ایسے مواد سے بھی پاک وصاف رکھیں‘ جو اِنتہاء پسندی پر مبنی ہو۔

تعلیمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔ تھری جی اور فور جی (تیزرفتار انٹرنیٹ سروسیز) خدمات کے عوض کروڑوں روپے یومیہ کمانے والی موبائل فون کمپنیوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نفرت انگیز مواد رکھنے والی ویب سائٹس تک رسائی محدود رکھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ’اِنٹرنیٹ مادرپدر آزاد‘ ہے لیکن اِس کی مادرپدر آزادی پر قدغن لگانا دوسروں کی نہیں بلکہ خالصتاً ہماری ضرورت اور ہماری ذمہ داری بنتی ہے‘ اُور ہمیں ہی اِس ’موجود خطرے‘ سے نمٹنے کے لئے (منتخب نمائندوں‘ مسجد و منبر‘ تعلیمی اداروں اُور ذرائع ابلاغ جیسے روائتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے) ’جامع حکمت عملی‘ تیار کرنا ہوگی‘ اِس مسئلے کو انفرادی حیثیت میں کسی ایک پولیس تھانے یا اِکیس دن کی سزا اُور ایک ہزار روپے جیسے معمولی جرمانے سے کنٹرول کرنا ممکن نہیں‘ نہ ہی یہ حربہ کارگر پائیدار اُور حسب حال کافی قرار دیا جاسکتا ہے۔
For comprehensive national action plan against terrorism, role of elected parliamentarians, mosque, education institution and media is needed

No comments:

Post a Comment