ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حق تلفیاں
حق تلفیاں
’’کیا ہم پاکستانی نہیں؟‘‘ گہری نیند سے جاگنے کے لئے یہی ایک جملہ کافی
تھا‘ جس کی شدت لہجے کی کرختگی کے ساتھ مزید بڑھ گئی تھی۔ مذہبی اقلیت سے
تعلق رکھنے والے ایسے بہت سے افراد ایک چھت تلے جمع تھے‘ جہاں ہر کوئی اپنے
اپنے الفاظ میں گلہ‘ شکوہ‘ فریاد‘ التجا اور حسرت کا اظہار کرنے کا متمنی
تھا۔ باتوں باتوں میں ماضی کے چند تلخ واقعات (عبادتگاہوں پر حملے‘ ٹارگٹ
گلنگز) کو بھی بطور مثال پیش کیا گیا جیسا کہ 1997ء میں شانتی نگر نامی
عیسائی بستی پر ہوئے حملہ‘ جس میں 785 گھر اور 4 گرجا گھر نذر آتش کر دیئے
گئے۔ کم بیش ڈھائی ہزار لوگوں کو اس علاقے سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ سال
2009ء میں گوجرہ و کوریاں گاؤں کی عیسائی بستیوں کو بھی یاد کرتے ہیں جہاں
مذہب کی بنیاد پر تنازعے کو ہوا دی گئی۔ مارچ 2013ء میں اندرون کوہاٹی گیٹ
’آل سینٹ چرچ‘ پر ہوئے یکے بعد دیگر 2 خودکش حملوں میں 100انسانی جانوں کا
ضیاع اور 250 سے زائد افراد کے زخمی بیشتر کے معذور ہونے پر اب بھی غمزدہ
عیسائیوں کے لئے نومبر 2014ء مییں شہزاد مسیح اُور شمع بی بی کی موت بھی
تشویشناک ہے‘ جنہیں ایک ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا لیکن 15 مارچ کے
روز لاہور کے گرجا گھر پر حملے میں 14افراد کی ہلاکت اور 80دیگر افراد کے
زخمی ہونے نے گرجا گھروں کی حفاظت پر کئی ایک سوال اُٹھا دیئے ہیں کیونکہ
جس گرجا گھر کو نشانہ بنایا گیا‘ اُس کی حفاظت پر پولیس اہلکار بھی موجود
تھے‘ چاردیواری‘ خاردار تاریں اور نگرانی کے لئے کیمرے بھی نصب تھے لیکن
اِن سب انتظامات کے باوجود بھی حملہ آوروں کو کوئی نہ روک سکا جبکہ ملک کے
کئی ایک حصوں میں ایسے گرجا گھر یا دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہیں موجود ہیں‘
جن کی حفاظت کسی بھی طور کافی نہیں اور خدانخواستہ اگر مرکزی شہروں کی
بجائے اضلاع میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو یہ زیادہ
خطرناک ہوگا اور یہی وہ امر ہے‘ جس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی درخواست
کرتے ہوئے اقلیتی نمائندے قانون نافذ کرنے والوں سے زیادہ سیاستدانوں سے
توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ اقلیتوں کے حقوق‘ عبادت گاہوں کی حفاظت
اور اُس امتیازی سوچ و روئیوں کی حوصلہ شکنی کریں گے‘ جو مذہبی امتیاز و
تعصب کی بناء پر عام ہے۔
مسئلہ صرف عیسائی اقلیت ہی کا نہیں بلکہ ہندو‘ سکھ اُور قادیانی بھی اپنی اپنی جگہ عدم تحفظ کا احساس رکھتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی خدمت کرنے میں سب سے زیادہ فعال ’عیسائی اقلیت‘ کے لوگ ہیں‘ جن کے تعلیمی ادارے معیار و نظم وضبط کی وجہ سے کسی نعمت سے کم نہیں۔ جب پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کا تصور نہیں تھا اور تعلیم صرف اور صرف حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی‘ تب سے عیسائی مشنری سکول حکومت کے مرتب کردہ نصاب اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ کردار سازی پر پوری لگن سے توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں لیکن ارباب اختیار اُن نجی تعلیمی اداروں کی ستائش و سہولیات و انعامات کی بارش کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے جنہوں نے تعلیم کو ایک کاروبار بنادیا ہے لیکن درس و تدریس کو ایک مشن (مقصد) کے تحت اختیار کرنے والوں کے کردار کو خاطرخواہ انداز میں نہیں سراہا جاتا۔ ضرورت صوبائی و مرکزی سطح پر قانون ساز اِیوانوں میں اَقلیتوں کی نمائندگی بڑھانے اور خواتین کی نشستیں پر بھی اَقلیت کے مسائل اُجاگر کرنے والوں کو برداشت کرنے کی ہے۔ کیا ہم کسی ایسے ’اسلامی جمہوریہ‘ کا تصور کر سکتے ہیں‘ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک اچھا قانون تو ہو لیکن اقلیتوں کو تحفظ‘ اِحساس تحفظ‘ سماجی انصاف اور امتیازات سے پاک سلوک کا معاملہ وگنجائش موجود نہ ہو؟
مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور سیکورٹی کے حالیہ خدشات نے اُنہیں ایک دوسرے کے نہ صرف قریب کر دیا ہے بلکہ ان کے مطالبات میں بھی ایک قسم کا اتفاق پایا جاتا ہے اور وہ محض سیکورٹی کی فراہمی کے مطالبے پر اکتفا نہیں کررہے۔ اکیس مارچ کو پشاور میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نمائندہ وفود بشمول اراکین اسمبلی (منتخب نمائندوں) نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا کہ ’’اقلیتی افراد کے لئے ملازمتوں میں مختص 3 فیصد کوٹہ کافی نہیں جسے بڑھا کر 10فیصد کیا جائے۔‘‘ مشاورتی اِجلاس میں اَقلیتوں کو اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق شادی کی رجسٹریشن (اندارج) کرانے میں حائل مشکلات اور پاکستان کا شہری ہونے کی بنیادی پر مساوی حقوق کی عدم اَدائیگی پر بھی تشویش کا اِظہار کیا گیا۔
شیلٹن گرین ہوٹل میں قومی سطح پر ہندو مذہب کے حقوق کے لئے کام کرنے والی نمائندہ تنظیم ’آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ‘ اُور ملک گیر سطح پر غیرمسلموں سے متعلق آئینی و سماجی مساوات پر زور دینے والی غیرسرکاری تنظیم ’نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن‘ کے زیراہتمام منعقدہ نشست میں ’مطالبات (چارٹرڈ آف ڈیمانڈز)‘ پیش کرتے ہوئے اِس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اقلیتوں کو آئین پاکستان میں دیئے جانے والے حقوق کے علاؤہ پاکستانی ہونے کے ناطے ان سے امتیازی برتاؤ روا نہ رکھا جائے۔ اِس بات پر بطور خاص زور دیا گیا کہ تعلیمی اِداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے ’اسلامک سٹڈیز‘ نامی مضمون کے تحت مسلمان طلباء و طالبات سے ٹیسٹ لیا جاتا ہے‘ جس سے اُنہیں 20اضافی نمبر مل جاتے ہیں لیکن غیرمسلم طلباء و طالبات کے لئے ایسا کوئی امتحان نہیں لیا جاتا جس سے اُنہیں بھی اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات سے متعلق معلومات ہونے پر اضافی بیس نمبروں میں سے حصہ مل سکے۔ اِس سلسلے میں مطالبہ کیا گیا کہ ’اسلامک سٹڈیز‘ کی طرح دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے امتحان تشکیل دیا جائے تاکہ مساوی نمبروں میں سے وہ بھی اپنی اہلیت کے مطابق درجہ حاصل کرسکیں۔ اقلیتوں کی جانب سے اِس امر پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بہت سے فلاحی کام ’زکوۃ فنڈ‘ سے کئے جاتے ہیں اور ایسے دیگر کئی فلاح و بہبود کے منصوبے ہیں جن کے لئے مالی وسائل فراہم ہوتے ہیں لیکن اقلیتیں اِن منصوبوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں۔ لہٰذا آبادی کے تناسب سے معاملہ کرتے ہوئے اقلیتوں کو مساوی بنیادوں پر حقوق دیئے جائیں۔ اِس سلسلے میں انسانی حقوق کا عالمی معاہدہ‘ اقوام متحدہ کی منظور شدہ 1992ء کی قرارداد‘ سول و سیاسی حقوق کا عالمی کنونشن اور پاکستان کے آئین سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ جس میں کسی بھی اقلیت کا حق اکثریت کے مساوی درج ہے لیکن عمل درآمد کے مراحل میں فیصلہ سازوں کو اِس بات کا دھیان ہی نہیں رہتا کہ وہ اقلیتوں کی حق تلفی کے ’مرتکب‘ ہو رہے ہیں۔
مسئلہ صرف عیسائی اقلیت ہی کا نہیں بلکہ ہندو‘ سکھ اُور قادیانی بھی اپنی اپنی جگہ عدم تحفظ کا احساس رکھتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی خدمت کرنے میں سب سے زیادہ فعال ’عیسائی اقلیت‘ کے لوگ ہیں‘ جن کے تعلیمی ادارے معیار و نظم وضبط کی وجہ سے کسی نعمت سے کم نہیں۔ جب پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کا تصور نہیں تھا اور تعلیم صرف اور صرف حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی‘ تب سے عیسائی مشنری سکول حکومت کے مرتب کردہ نصاب اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ کردار سازی پر پوری لگن سے توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں لیکن ارباب اختیار اُن نجی تعلیمی اداروں کی ستائش و سہولیات و انعامات کی بارش کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے جنہوں نے تعلیم کو ایک کاروبار بنادیا ہے لیکن درس و تدریس کو ایک مشن (مقصد) کے تحت اختیار کرنے والوں کے کردار کو خاطرخواہ انداز میں نہیں سراہا جاتا۔ ضرورت صوبائی و مرکزی سطح پر قانون ساز اِیوانوں میں اَقلیتوں کی نمائندگی بڑھانے اور خواتین کی نشستیں پر بھی اَقلیت کے مسائل اُجاگر کرنے والوں کو برداشت کرنے کی ہے۔ کیا ہم کسی ایسے ’اسلامی جمہوریہ‘ کا تصور کر سکتے ہیں‘ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک اچھا قانون تو ہو لیکن اقلیتوں کو تحفظ‘ اِحساس تحفظ‘ سماجی انصاف اور امتیازات سے پاک سلوک کا معاملہ وگنجائش موجود نہ ہو؟
مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور سیکورٹی کے حالیہ خدشات نے اُنہیں ایک دوسرے کے نہ صرف قریب کر دیا ہے بلکہ ان کے مطالبات میں بھی ایک قسم کا اتفاق پایا جاتا ہے اور وہ محض سیکورٹی کی فراہمی کے مطالبے پر اکتفا نہیں کررہے۔ اکیس مارچ کو پشاور میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نمائندہ وفود بشمول اراکین اسمبلی (منتخب نمائندوں) نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا کہ ’’اقلیتی افراد کے لئے ملازمتوں میں مختص 3 فیصد کوٹہ کافی نہیں جسے بڑھا کر 10فیصد کیا جائے۔‘‘ مشاورتی اِجلاس میں اَقلیتوں کو اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق شادی کی رجسٹریشن (اندارج) کرانے میں حائل مشکلات اور پاکستان کا شہری ہونے کی بنیادی پر مساوی حقوق کی عدم اَدائیگی پر بھی تشویش کا اِظہار کیا گیا۔
شیلٹن گرین ہوٹل میں قومی سطح پر ہندو مذہب کے حقوق کے لئے کام کرنے والی نمائندہ تنظیم ’آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ‘ اُور ملک گیر سطح پر غیرمسلموں سے متعلق آئینی و سماجی مساوات پر زور دینے والی غیرسرکاری تنظیم ’نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن‘ کے زیراہتمام منعقدہ نشست میں ’مطالبات (چارٹرڈ آف ڈیمانڈز)‘ پیش کرتے ہوئے اِس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اقلیتوں کو آئین پاکستان میں دیئے جانے والے حقوق کے علاؤہ پاکستانی ہونے کے ناطے ان سے امتیازی برتاؤ روا نہ رکھا جائے۔ اِس بات پر بطور خاص زور دیا گیا کہ تعلیمی اِداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے ’اسلامک سٹڈیز‘ نامی مضمون کے تحت مسلمان طلباء و طالبات سے ٹیسٹ لیا جاتا ہے‘ جس سے اُنہیں 20اضافی نمبر مل جاتے ہیں لیکن غیرمسلم طلباء و طالبات کے لئے ایسا کوئی امتحان نہیں لیا جاتا جس سے اُنہیں بھی اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات سے متعلق معلومات ہونے پر اضافی بیس نمبروں میں سے حصہ مل سکے۔ اِس سلسلے میں مطالبہ کیا گیا کہ ’اسلامک سٹڈیز‘ کی طرح دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے امتحان تشکیل دیا جائے تاکہ مساوی نمبروں میں سے وہ بھی اپنی اہلیت کے مطابق درجہ حاصل کرسکیں۔ اقلیتوں کی جانب سے اِس امر پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بہت سے فلاحی کام ’زکوۃ فنڈ‘ سے کئے جاتے ہیں اور ایسے دیگر کئی فلاح و بہبود کے منصوبے ہیں جن کے لئے مالی وسائل فراہم ہوتے ہیں لیکن اقلیتیں اِن منصوبوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں۔ لہٰذا آبادی کے تناسب سے معاملہ کرتے ہوئے اقلیتوں کو مساوی بنیادوں پر حقوق دیئے جائیں۔ اِس سلسلے میں انسانی حقوق کا عالمی معاہدہ‘ اقوام متحدہ کی منظور شدہ 1992ء کی قرارداد‘ سول و سیاسی حقوق کا عالمی کنونشن اور پاکستان کے آئین سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ جس میں کسی بھی اقلیت کا حق اکثریت کے مساوی درج ہے لیکن عمل درآمد کے مراحل میں فیصلہ سازوں کو اِس بات کا دھیان ہی نہیں رہتا کہ وہ اقلیتوں کی حق تلفی کے ’مرتکب‘ ہو رہے ہیں۔
![]() |
Minorities rights and demands need to be consider as an urgent to do |
No comments:
Post a Comment