Sunday, March 22, 2015

Mar2015: TRANSLATION Agenda 2015

Agenda 2015
لائحہ عمل 2015ء
پاکستان جن گھمبیر مسائل میں پھنسا ہوا ہے اُس کے لئے ’قومی لائحہ عمل 2015ء‘ کے عنوان سے حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی جس میں مختلف شعبہ جات کے حوالے سے مختلف اقدامات تجویز کئے جا سکتے ہیں۔

حفاظتی انتظامات اور اقتصادیات کے شعبے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور تحریک طالبان پاکستان نامی دہشت گرد تنظیم کے اراکین پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی رجحانات رکھنے والے یہ تنظیم چاہتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی نظام پر قابض ہو جائے۔ تحریک طالبان پاکستان کا بنیادی و کارگر حربہ زیادہ سے زیادہ ’خوف و دہشت‘ پھیلانا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی اُن کا ہدف بھی ہے۔ اُن کی عسکری حکمت عملی خودکش حملے اور دہشت گردی ہے‘ جس سے خوف و دہشت پھیلانے کے اہداف حاصل کئے جاتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے اہداف میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اُور طرز حکمرانی کو موڑ توڑ کر اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کے بعد پاکستان کے کل 7لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر رقبے کے ہرکلومیٹر پر قابض ہونا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ایک شورش پھیلانے والی جماعت ہے جو تین عوامل پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو اُسے ایک ایسا جغرافیائی علاقہ چاہئے جہاں وہ اپنے قدم جما کر‘ تربیت گاہیں بنا کر اور اپنے انتظامی دفاتر قائم کرکے پاکستان بھرمیں دہشت گرد وارداتیں کر سکے۔ دوسرا اُسے ہرموسم اور ہر حال میں ایسے سرسبز و شاداب مالی وسائل کی ضرورت ہے‘ جن کے ذریعے وہ اپنے مذموم عزائم و اہداف کو حاصل کر سکے اور تیسرا اُسے افرادی وسائل کی ضرورت ہے جو اُس کے مقرر کردہ اہداف کو جان پر کھیل کر نشانہ بنانے کے عزم و جدوجہد میں حصہ لینے کے لئے غیرمشروط رضامند ہوں۔
تحریک طالبان پاکستان کے عزائم واہداف کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں ’دہشت گردی پھیلانے کی اِس حکمت عملی‘ کو توڑ تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان فوج کی چودہ بنیادی دستوں (کور) پر مشتمل ہے‘ جو ملک کے چپے چپے کی نگران اورملک کے ہر حصیکو لاحق داخلی و خارجی خطرات سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت مستعد و تیار اُور اپنے فرائض سے عہدہ برآء ہو رہی ہے۔ پاک فوج کا عزم و مقاصد میں داخلی سطح پر لاحق ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے خطرے سے نمٹنا شامل ہے اور وہ دہشت گردوں کو کارروائی کرنے سے قبل اور بعد میں انجام تک پہنچانے کے لئے ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔

پاک فوج تحریک طالبان پاکستان کے اُن جغرافیائی مراکز کو تباہ کر رہی ہے‘ جہاں دہشت گردی سے متعلق منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ وفاقی حکومت اُن تمام وسائل اور ذرائع پر ہاتھ ڈال رہی ہے جن کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان کو مالی وسائل حاصل ہوتے ہیں اور وفاقی حکومت ہی تحریک طالبان پاکستان کو ملنے والے افرادی وسائل ختم کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی کا 33 فیصد حصہ پاک فوج جبکہ 66 فیصد (یکساں کلیدی) حصہ غیرفوجی (سول) حکام کے اختیار میں ہے۔ اگر ہم پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اِس یہ چھ عوامل پر انحصار کرتی ہے۔ اِسے توانائی کا تحفظ چاہئے۔ اِسے ملکی قرضہ جات سے نجات چاہئے۔ اِسے غیرامتیازی اقتصادی نظام چاہئے۔ اِسے تربیت یافتہ اور فعال کردار ادا کرنے والی افرادی قوت (محنت کش) چاہیءں۔ اسے صنعتی پیداواری ترقی چاہئے اور اِسے اِن تمام شعبوں میں ترقی کے لئے درست ترجیحات چاہیں۔

توانائی کے تحفظ کی بات کی جائے تو لمحۂ فکریہ ہے کہ سال 2015ء کے دوران پاکستان نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا قریباً 700 ارب روپے بجلی کی کمی کے سبب گنوایا‘ جو مجموعی دفاعی بجٹ کے مساوی ہے۔ سال 2015ء کے دوران بجلی کی چوری کی مد میں ملک کو 300 ارب روپے کا خسارہ ہوا جو پاک فوج کے ایک سال میں ہونے والے اخراجات کے مساوی رقم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار 40میگاواٹ ہے لیکن سال 2015ء کے دوران یومیہ 11 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکی۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کا تعطل کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کے وسائل اور ذرائع یا صلاحیت کم ہے بلکہ بجلی کی کمی کا ایک سبب انتظامی نااہلیاں بھی ہیں۔

پاکستان پر قرضہ جات کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔ 18 اگست 2008ء کے دن جب صدر پرویز مشرف مستعفی ہوئے ہرپاکستانی 40 ہزار روپے کا مقرض تھا جبکہ8 ستمبر 2013ء کے دن جب صدر زرداری عہدے سے علیحدہ ہوئے تو ہر پاکستانی 80 ہزار روپے کا مقروض تھا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صدر زرداری کے پانچ سالہ دور میں ہم نے جتنا قرض لیا‘ وہ اس سے قبل ساٹھ برس میں نہیں لیا گیا تھا۔ دسمبر 2014ء (سال) کے آخری دن پاکستان کے ہر فرد پر قرض کا بوجھ 1 لاکھ 3ہزار روپے لگایا گیا اور اگر قرض لیکر ملک چلانے کا موجودہ رجحان (طرزعمل) برقرار رہا تو سال 2018ء تک پاکستان کا ہر فرد 2 لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہوگا۔

پاکستان میں ’اقتصادی عدم مساوات‘ سے بھی مسائل موجود ہیں۔ گذشتہ 10 برس کے دوران ملک میں پیدا ہونے والے سرمائے کا 90فیصد حصہ صرف اُن افراد کے ذاتی اثاثوں میں منتقل ہوا‘ جو ملک کی مجموعی آبادی کا 2 فیصد بنتے ہیں۔ آمدنی اور اثاثہ جات میں یہ عدم توازن ہر گزرتے گھنٹے بڑھ رہا ہے۔ امیر زیادہ امیر جبکہ غریب ہر گزرتی گھڑی مزید غریب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مختلف قسم کے گروہ اقتصادیات پر حاوی ہیں جس کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے کیونکہ اقتصادی عدم مساوات اور جرائم کا آپسی تعلق ہوتا ہے۔ جہاں تک افرادی قوت (محنت کش وسائل) کی بات ہے تو پاکستان 187ممالک کی فہرست میں 146ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش بالترتیب 135ویں اور 142 نمبر پر ہیں یعنی یہ دونوں ممالک اپنے افرادی وسائل سے استفادہ پاکستان سے بہتر کر رہے ہیں۔ اِسی طرح صنعتی ترقی کے حوالے سے 2004ء میں پاکستان 13 فیصد کی شرح پر تھا جس میں سال 2009ء تک 3 فیصد کی گراوٹ آئی۔ اِن تمام مسائل سے نجات کے لئے ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ فی الوقت ہماری قومی ترقی کی ترجیحات یہ ہیں۔ 260 ارب روپے کا حیدرآباد‘ سکھر موٹروے منصوبہ۔ 44 ارب روپے کا روالپنڈی اسلام آباد موٹربس منصوبہ۔ 15 ارب روپے کا آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان (لائحہ عمل) کے لئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ 1: دہشت گردی و عسکریت پسندی کو شکست دینے کے لئے صرف فوجی کاروائی کافی نہیں بلکہ اِس کے لئے غیرفوجی (سول) قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 2: اقتصادی تحفظ کو قومی ترقی کی حکمت کا حصہ بنا کر ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ 3: توانائی کے تحفظ کا تعلق پیداواری صلاحیت میں اضافے سے زیادہ انتظامی معاملات سے ہے اُور 4: ہم نے اقتصادی ترقی کی ترجیحات مرتب کرتے ہوئے خاطرخواہ سوچ بچار‘ فہم و فراست اور بصیرت و دانشمندی سے کام نہیں لیا۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و  ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment