Sunday, March 22, 2015

Mar2015: Justice delayed is justice denied

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قانون و انصاف: فوری اُور حسب حال
پندرہ جون دو ہزار چودہ سے شمالی وزیرستان (قبائلی علاقے) میں آغاز ہوئے ’آپریشن ضرب عضب‘ کے لئے مالی سال 2014-15ء میں 700 ارب روپے مختص کئے گئے لیکن اِس قدر خطیر رقم اور فوجی کاروائی کا دائرہ کار دیگر قبائلی علاقوں تک پھیلانے سے صرف چند ایک درجے ہی اطمینان حاصل ہو پایا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2013-14ء کے عرصہ میں کم و بیش چھ ہزار افراد ہلاک ہوئے‘ جن میں سویلین اور سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔ سال دو ہزار پندرہ کے پہلے تین ماہ (تیئس مارچ تک) 315ہلاکتیں ہو چکی ہیں‘ جن میں لاہور کے گرجا گھر پر حملہ بھی شامل ہے جس میں ایک ہی دن 14افراد قتل کر دیئے گئے۔ ملک میں دہشت گرد واقعات کے اِس تسلسل کے دوران خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہے۔ سال 2014ء کے دوران 9 دہشت گرد حملوں میں خیبرپختونخوا کے 196 افراد ہلاک ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں‘ ہفتوں اور مہینوں میں بھی خیبرپختونخوا کے مختلف بڑے شہر (جن میں سے سات کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے) بشمول پشاور پر مزید دہشت گرد حملے ہو سکتے ہیں‘ جن سے بچاؤ کے لئے پولیس حکام سوچ بچار کے عمل میں اُن امکانات کے خاتمے اور آسان اہداف کو محفوظ بنانے کے لئے خفیہ معلومات پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں‘ جو مستقل خطرہ بھی ہیں اور سیکورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان بھی۔
پشاور میں داخل اور خارج ہونے کے کل 390 راستے شمار کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کی خاطرخواہ نگرانی سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے پولیس حکام کا اصرار ہے کہ موجودہ افرادی و تکنیکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اِن تمام راستوں سے ہر آنے اُور جانے والے کی نگرانی و جانچ ممکن نہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر پولیس کے اعلیٰ آفیسر نے اُن چند خطرات کا بھی ذکر کیا جو پشاور کو ’داخلی طور پر لاحق ہیں‘ اُور جن کا بھی انگلیوں پر شمار ممکن نہیں! ’’تین اطراف میں قبائلی علاقوں سے گھرے ہوئے صوبائی دارالحکومت کو خارجی اور داخلی طور پر خطرات سے متعلق کم و بیش ہرروز ہی خفیہ اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں اُور ہر ایک ایسی اطلاع ملنے کے بعد پشاور پولیس پہلے سے زیادہ فعال ہو جاتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ دشمن کہیں نہ کہیں حفاظتی انتظامات میں کوتاہی یا غفلت کی تاک میں ہے اور اُسے وار کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا لیکن آخر کب تک‘ پولیس اہلکار اِس اعصاب شکن نفسیاتی و عملی جنگ کا مقابلہ کب تک جاری رکھ پائے گی جبکہ دشمن کے پاس وقت اُور آسان اہداف کی کوئی کمی بھی نہیں! آخر سیاسی فیصلہ سازوں میں قبائلی و نیم علاقوں کی امتیازی حیثیت ختم کرنے میں اتفاق رائے کیوں نہیں پایا جاتا؟ آخر وہ سب سے ضروری بات ہماری ترجیح کیوں نہیں‘ جس کا تعلق ہمارے مستقبل سے ہے؟‘‘

پشاور پولیس کے پاس افرادی وسائل کی کمی ہے۔ جدید ہتھیاروں‘ گشتی (موبائل) گاڑیوں حتیٰ کہ ایندھن جیسی ضرورت وافر مقدار میں دستیاب نہیں۔ گولہ بارود ناکارہ بنانے والوں اور خواتین پولیس اہلکاروں کی ضروریات الگ سے پوری نہیں ہورہیں۔ تھانہ جات کی کمی اور چوکیاں کی خستہ حالی دور کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ پشاور کو سیکورٹی کے لحاظ سے چھ حصوں میں تقسیم کرکے افرادی و تکنیکی وسائل کی ازسرنو تقسیم کے ساتھ داخلی و خارجی راستوں کی تعداد میں کمی لائی جائے۔ جیسا کہ فصیل شہر کا اندرونی حصہ ماضی کی طرح چودہ‘ سولہ یا بیس راستوں پر مشتمل ہو اور ’شہر‘ کہلانے والے اِس حصے کی حدود کے لئے ایک ہی مرکزی تھانہ جبکہ ہر داخلی و خارجی راستے پر چوکیاں اور مقرر کی جائیں‘ جو نگران بھی ہوں اور مقررہ اُوقات کے علاؤہ آمدورفت کی سختی سے جانچ کریں۔ مثال کے طور پر نصف شب سے فجر تک فصیل شہر کے اندرونی حصوں میں داخلے کا حق صرف اُنہیں افراد کو حاصل ہو‘ جن کے پاس پشاور میں رہائش کمپیوٹررائزڈ قومی شناختی کارڈ میں درج پتے سے ثابت کی جا سکے۔ مہمان کی آمد یا ہنگامی حالات کی صورت میزبان کے کوائف کمپیوٹرائزڈ ڈیٹابیس میں منتقل کردیئے جائیں جو شہر کے سبھی داخلی و خارجی راستوں کے علاؤہ پولیس کے اُس صدر دفتر کو بھی منتقل ہو جائیں جس کا خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے بھی رابطہ رہتا ہے اور کسی بھی مشکوک شخص یا انتہائی مطلوب شخص کی اُس کے کوائف (انگوٹھے کے نشان) یا سبھی اداروں کو اطلاع ہو سکے گی۔ پشاور کے مشرقی‘ مغربی‘ شمالی اور جنوبی حصوں میں شہری و دیہی علاقوں کی تمیز بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔ رنگ روڈ (پشاور کے جنوبی حصے) کی پٹی حیات آباد تک پھیلی ہوئی ہے‘ جس کے اطراف میں جس تیزی سے رہائشی بستیاں اور تجارتی مراکز قائم ہوئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور یہی وہ علاقے ہیں جو درہ آدم خیل اور خیبرایجنسی کے قبائلی علاقوں سے ملتے ہیں‘ جہاں (خیبرٹو نامی) فوجی کاروائی کا مرحلہ جاری ہے۔ تہکال سے یونیورسٹی ٹاؤن‘ راحت آباد‘ اور حیات آباد سے ملنے والا زون (سرکلز) پہلے ہی کنٹونمنٹ حدود کی طرح الگ ہے جبکہ ڈیفنس‘ شامی روڈ‘ چارسدہ روڈ کی پٹی مغربی حصہ اور چغل پورہ‘ موٹروے‘ رنگ روڈ کا جنوبی حصہ جو قدرتی طور پر سرحد کا کام دے سکتا ہے۔ نگرانی کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار‘ سیکورٹی کے لئے پشاور کو پانچ زونز اور ایک کنٹونمنٹ کی حدود میں تقسیم کر دیا جائے تو نگرانی کا عمل نسبتاً آسان اور ایک زون کے افرادی و تکنیکی وسائل کم وقت میں دوسرے کے استعمال کے لئے باآسانی دستیاب ہو سکیں گے۔ ہر زون کی رہائشی بستیوں اور تجارتی مراکز کی نگرانی چوکیوں کے ذریعے زیادہ فعال انداز سے ہو سکے گی کیونکہ موجودہ نظام کے تحت جب جرم کسی ایسے علاقے میں رونما ہوتاہے جہاں دو تھانہ جات کی حدود آپس میں ملتی ہیں تو ’ایف آئی آر‘ کے اندراج سے لیکر تفیشی عمل میں پیچیدگیاں اور رکاوٹیں آڑے آتی ہیں۔

پشاور پولیس کے لئے ایک چیلنج ’منظم جرائم پیشہ گروہ‘ بھی ہیں جنہیں بااثر افراد اور خطرناک مطلوب مجرموں کی پشت پناہی حاصل ہے‘ یہ عناصر پولیس کی توجہ زیادہ بڑے خطرے (دہشت گردی) کی جانب مبذول ہونے کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں اگر منظم و غیرمنظم جرائم پیشہ عناصر سے الگ الگ معاملہ کیا جائے‘ تو یہ معمہ بھی نسبتاً زیادہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دیوانی (جائیداد سے متعلق) مقدمات کے ذریعے تھانہ کچہری میں سالہا سال اُلجھانے والے کئی گروہ پشاور میں فعال ہیں۔ اگر عدالتوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کا صبرآزما اور طویل طریقۂ کار تبدیل کرنے کے لئے صوبائی حکومت خاطرخواہ قانون سازی کرتی ہے تو اِس سے پولیس کے لئے ’آدھا سر درد‘ بنا معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔ پولیس حکام قوانین میں پائے جانے والے سقم سے بیزار ہیں کہ جن پیشہ وروں پر ہاتھ ڈالا جائے‘ انہیں عدالتوں سے ضمانتیں کروانے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اِس منظرنامے میں پولیسنگ سے توقعات اُس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں جب تک قوانین میں موجود سقم دور نہیں ہو جاتے اُور صرف دہشت گردی ہی میں ملوث کرداروں کا نہیں بلکہ ہر مجرم و جرم سے معاملہ کرنے میں فوری انصاف کا طریقۂ کار وضع نہیں کر لیا جاتا۔

کیا عام آدمی کو فوری انصاف دینا اور دلانان ترجیحات کا حصہ ہے؟ القصہ مختصر ۔۔۔ جہاں قانون ساز اِدارے تماشائی اور اِنصاف کی ضامن عدالتوں کے پاس فوری فیصلے کرنے کی فرصت نہ رہی ہو‘ وہاں کے حفاظتی انتظامات قابل دید تو ہو سکتے ہیں‘ لیکن اُن پر کلی بھروسہ (توکل) نہیں کیا جاسکتا۔
Governance can't survive without providing quick justice & dispute resolution

No comments:

Post a Comment