The $21 billion LNG question
مائع گیس خریداری: بے قاعدگیاں
پاکستان نے مائع گیس (ایل این جی) کی خریداری اور درآمد کرنے کا ایک معاہدہ
کیا ہے اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں لیکن اِس معاہدے اور خریداری سے متعلق
تفصیلات کو غیرضروری طورپر خفیہ رکھا جا رہاہے جس کی وجہ سے اِس پورے عمل
پر شکوک کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر حکومت شفاف طرزعمل اختیار کرے اور مائع
گیس کی خریداری و درآمد سے متعلق جملہ تفصیلات قوم کے سامنے رکھ دیتی تو
صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔ کیا ’مائع گیس‘ کی خریداری قومی خزانے سے نہیں
کی گئی؟ جب پیسہ قومی خزانے سے خرچ کیا گیا ہے تو پھر عوام کو ضرور بتانا
چاہئے کہ اُن کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والا یا اُن کے نام پر قرض حاصل کرکے
مالی وسائل کہاں اور کیسے خرچ کئے گئے ہیں۔ شفاف طرزحکمرانی اور مضبوط
جمہوری نظام کی خصوصیات یہی ہوتی ہیں کہ اِس میں حکومت اپنے ہر ایک اقدام
کے لئے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان نے یومیہ 2لاکھ 72 ہزار کے عوض مائع گیس کی خریداری کا ایک معاہدہ دستخط کیا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ ہمارے ملکی قوانین کے مطابق کسی بھی ایسے بڑے معاہدے کی تفصیلات خفیہ نہیں رکھی جا سکتیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ کسی بھی ایسے بڑے معاہدے کی شفافیت ممکن بنانے کے لئے یہ بات حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لین دین کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرے؟ آخر کیا سبب تھا کہ جب مائع گیس کی خریداری کا سودا کیا جا رہا تھا تو اُس پورے عمل کو رازداری سے سرانجام دیا گیا کہ فیصلہ سازوں کے علاؤہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہو؟ اگر مائع گیس خریدنا تھی تو ٹینڈر کا عمل اِس انداز سے کیوں نہیں کیا گیا‘ جس سے پاکستان کو مائع گیس فراہم کرنے والوں کے درمیان مقابلے کی وجہ سے فائدہ ہوتا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مائع گیس کی خریداری کے معاہدے میں درج شقیں اور معاہدے کو عام آدمی کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں شفافیت کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تو اس سے خریدنے والی چیز کا معیار بہتر حاصل ہوتا‘ قیمت کم ملتی ہے اور معاہدہ خریدار کے حق میں مفید رہتا ہے لیکن اگر معاملات خفیہ رکھے جاتے ہیں تو اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی نااہلی عیاں ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر بدعنوانی کا امکان موجود رہتا ہے۔ جب کوئی حکومت ایسے معاہدے کرتی ہے‘ جن میں مالی وسائل کا استعمال ہو رہا ہوتا ہے تو اس سے معاہدے کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے اور بس۔
مارچ 2015ء میں عالمی سطح پر ’مائع گیس‘ کی قیمت کسی خریدار ملک تک پہنچ کر کچھ یوں تھی۔ بھارت 6.90 ڈالر۔ چین 6.60ڈالر۔ جاپان 7ڈالر۔ کوریا 7 ڈالر۔ کیا پاکستان کے عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی حکومت سے پوچھ سکیں کہ انہوں نے مائع گیس کس نرخ میں خریدی ہے اور پاکستان پہنچ کر مائع گیس کی قیمت کیا ہوگی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ ہم ہمسایہ ممالک سے زیادہ مہنگی ’مائع گیس‘ خرید رہے ہوں؟ کیا حکومت کو یہ بات منظرعام پر نہیں لانی چاہئے کہ اُنہوں نے مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کس سے کیا ہے؟ یاد رہے کہ فلپائن میں بجلی کے ایسے پیداواری یونٹ قائم کئے گئے جو مائع گیس سے چلتے ہیں اور اِن کی تعمیر میں مشکوک و بدعنوانیوں سے بھرپور طریقۂ کار اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھ گئی اور عام آدمی کو زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘ آخر اِس بات میں کیا امر مانع ہے کہ حکومت نے جتنے بھی معاہدے بشمول مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے اُس کی تفصیلات منظرعام پر آنی چاہیءں؟
27فروری 2014ء کے روز ایک ادارے ’اوپن نالج فاؤنڈیشن‘ نے عالمی سطح پر مہم کا آغاز کیا جس کا نام ’’خفیہ معاہدے بند کرو(Stop Secret Contracts)‘‘ رکھا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مطابق ’’جب کوئی بھی حکومت خفیہ معاہدے کرتی ہے تو اس میں لازمی طورپر بدعنوانی کا عنصر کارفرما ہوتا ہے اور پھر تفصیلات اِس بھی عیاں نہیں کی جاتیں کہ ارباب اختیار احتساب سے بچنے کے لئے عوام کو دیگر امور میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ اُن کی کارکردگی اور کئے گئے معاہدوں سے متعلق بات چیت نہ ہو‘ اُن کا احتساب نہ ہو۔ اِس بات کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ خفیہ رکھی جانے والی تفصیلات والے معاہدوں کے ذریعے ہرسال عوام کے اربوں ڈالر مالی وسائل کی خردبرد ہو جاتی ہے!
کیا مائع گیس کی خریداری میں پاکستان نے درست طریقۂ کار اختیار کیا؟ آخر حکومت کیوں عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے؟ وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصنوعات خاقان عباسی سے کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ’’مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ شفاف انداز میں طے کیا گیا ہے جس کی جملہ تفصیلات جلد ہی منظرعام پر لائی جائیں گی تاکہ ہر خاص و عوام کو اِس بارے میں علم ہو سکے۔‘‘
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان نے یومیہ 2لاکھ 72 ہزار کے عوض مائع گیس کی خریداری کا ایک معاہدہ دستخط کیا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ ہمارے ملکی قوانین کے مطابق کسی بھی ایسے بڑے معاہدے کی تفصیلات خفیہ نہیں رکھی جا سکتیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ کسی بھی ایسے بڑے معاہدے کی شفافیت ممکن بنانے کے لئے یہ بات حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لین دین کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرے؟ آخر کیا سبب تھا کہ جب مائع گیس کی خریداری کا سودا کیا جا رہا تھا تو اُس پورے عمل کو رازداری سے سرانجام دیا گیا کہ فیصلہ سازوں کے علاؤہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہو؟ اگر مائع گیس خریدنا تھی تو ٹینڈر کا عمل اِس انداز سے کیوں نہیں کیا گیا‘ جس سے پاکستان کو مائع گیس فراہم کرنے والوں کے درمیان مقابلے کی وجہ سے فائدہ ہوتا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مائع گیس کی خریداری کے معاہدے میں درج شقیں اور معاہدے کو عام آدمی کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں شفافیت کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تو اس سے خریدنے والی چیز کا معیار بہتر حاصل ہوتا‘ قیمت کم ملتی ہے اور معاہدہ خریدار کے حق میں مفید رہتا ہے لیکن اگر معاملات خفیہ رکھے جاتے ہیں تو اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی نااہلی عیاں ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر بدعنوانی کا امکان موجود رہتا ہے۔ جب کوئی حکومت ایسے معاہدے کرتی ہے‘ جن میں مالی وسائل کا استعمال ہو رہا ہوتا ہے تو اس سے معاہدے کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے اور بس۔
مارچ 2015ء میں عالمی سطح پر ’مائع گیس‘ کی قیمت کسی خریدار ملک تک پہنچ کر کچھ یوں تھی۔ بھارت 6.90 ڈالر۔ چین 6.60ڈالر۔ جاپان 7ڈالر۔ کوریا 7 ڈالر۔ کیا پاکستان کے عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی حکومت سے پوچھ سکیں کہ انہوں نے مائع گیس کس نرخ میں خریدی ہے اور پاکستان پہنچ کر مائع گیس کی قیمت کیا ہوگی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ ہم ہمسایہ ممالک سے زیادہ مہنگی ’مائع گیس‘ خرید رہے ہوں؟ کیا حکومت کو یہ بات منظرعام پر نہیں لانی چاہئے کہ اُنہوں نے مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کس سے کیا ہے؟ یاد رہے کہ فلپائن میں بجلی کے ایسے پیداواری یونٹ قائم کئے گئے جو مائع گیس سے چلتے ہیں اور اِن کی تعمیر میں مشکوک و بدعنوانیوں سے بھرپور طریقۂ کار اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھ گئی اور عام آدمی کو زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘ آخر اِس بات میں کیا امر مانع ہے کہ حکومت نے جتنے بھی معاہدے بشمول مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے اُس کی تفصیلات منظرعام پر آنی چاہیءں؟
27فروری 2014ء کے روز ایک ادارے ’اوپن نالج فاؤنڈیشن‘ نے عالمی سطح پر مہم کا آغاز کیا جس کا نام ’’خفیہ معاہدے بند کرو(Stop Secret Contracts)‘‘ رکھا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مطابق ’’جب کوئی بھی حکومت خفیہ معاہدے کرتی ہے تو اس میں لازمی طورپر بدعنوانی کا عنصر کارفرما ہوتا ہے اور پھر تفصیلات اِس بھی عیاں نہیں کی جاتیں کہ ارباب اختیار احتساب سے بچنے کے لئے عوام کو دیگر امور میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ اُن کی کارکردگی اور کئے گئے معاہدوں سے متعلق بات چیت نہ ہو‘ اُن کا احتساب نہ ہو۔ اِس بات کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ خفیہ رکھی جانے والی تفصیلات والے معاہدوں کے ذریعے ہرسال عوام کے اربوں ڈالر مالی وسائل کی خردبرد ہو جاتی ہے!
کیا مائع گیس کی خریداری میں پاکستان نے درست طریقۂ کار اختیار کیا؟ آخر حکومت کیوں عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے؟ وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصنوعات خاقان عباسی سے کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ’’مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ شفاف انداز میں طے کیا گیا ہے جس کی جملہ تفصیلات جلد ہی منظرعام پر لائی جائیں گی تاکہ ہر خاص و عوام کو اِس بارے میں علم ہو سکے۔‘‘
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment