Tuesday, March 24, 2015

Mar2015 Technology in education

رف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
درس و تدریس: نئے اَسلوب
ہمارے اردگرد پھیلی دنیا میں تین اہم تبدیلیاں دیکھتے دیکھتے رونما ہوئیں ہیں‘ جنہیں ’ارتقائی مراحل‘ کہہ کر مخاطب کرنا زیادہ موزوں ہوگا لیکن افسوس کہ پاکستان میں ارباب اختیار اور بالخصوص شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہرین اِس جانب توجہ نہیں فرما رہے یا شاید اُنہیں بہت سے دیگر امور سے فرصت نہیں! حقیقت حال یہ ہے کہ اگر ہم نے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو ترجیح نہ دی‘ تو ہم اُس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے‘ جس میں کامیابی و کامرانی ہمیشہ جیتنے والے ہی کے حصے میں آتی ہے۔

سب سے پہلی بات تو ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی صلاحیت ہے یعنی جیب میں سمانے والا موبائل فون اب سمارٹ کہلانے لگا ہے اور باآسانی ہمراہ رکھے جانے والا ٹیبلیٹ اِس قدر تیزرفتاری سے معلومات کی جانچ پڑتال اور اُن کا انٹرنیٹ سے حصول کرتا ہے کہ اب اِن ایجادات سے استفادہ کرنے کا معمولی علم رکھنے والا بھی ’بڑے بڑے کام‘ کر سکتا ہے بالخصوص موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم ’اینڈرائرڈ (Androids)‘ کی مقبولیت و استعمال نے تو ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ہیں۔ دوسری اہم بات برق رفتار (تھری و فور جی) ’انٹرنیٹ‘ کی مقبولیت اُور استعمال بڑھا ہے بالخصوص شعبہ تعلیم میں اِس سے استفادہ ہونے لگا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تعلیمی اداروں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے جو خاص سافٹ وئر تیار کیا گیا ہے‘ وہ بھی موبائل فون ہی کے ذریعے قریبی پولیس اسٹیشن اور کسی ضلع کے متعلقہ پولیس اہلکاروں کو فوری اطلاع دینے کے خودکار نظام پر مشتمل ہے اور یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی خیروبرکت سے ہے‘ جس کے تفریح طبع یا محض بات چیت سے زیادہ استعمال کے بارے میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے سوچا جانے لگا ہے۔

ٹیکنالوجی تین طرح کے عوامل پر انحصار کرتی ہے۔ ہارڈوئر یعنی آپ کے پاس وہ آلات ہونے چاہئے جن کے ذریعے انٹرنیٹ سے منسلک ہوا جا سکے۔ دوسری ضرورت سافٹ وئر یعنی ’آپریٹنگ سسٹم‘ کی ہوتی ہے جو کسی بھی آلے کے کام کرنے کے طریقۂ کار پر مشتمل ’ہدایات کا مجموعہ‘ ہوتا ہے اور تیسری ضرورت بہت سے آلات کو آپس میں جوڑ کر انسانی تجربات و علوم کا باہم تبادلہ کرنے کے لئے ’انٹرنیٹ‘ نامی وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو پاکستان میں تیزی سے مقبول اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کم قیمت و جدید ہو رہا ہے لیکن ضرورت ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ استفادہ کرنے کی ہے۔ شعبۂ تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو ایسی سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں ’ویب سائٹس‘ ہیں جن سے گھر بیٹھے استفادہ بھی ممکن ہے اور علم و دانش کے یہ لعل و گہر بناء مفت بھی دستیاب ہیں لیکن ٹیکنالوجی کا شعبہ تعلیم پر اطلاق اور اِس سے درس و تدریس کے شعبے میں آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے ہمارے ہاں بالخصوص خیبرپختونخوا میں زیادہ رجحان نہیں پایا جاتا۔

سانحۂ پشاور (سولہ دسمبر دوہزار چودہ) کے بعد حفاظتی انتظامات کے نام پر تعلیمی ادارے کئی ہفتوں بند رکھے گئے‘ جس سے طلباء و طالبات کا قیمتی وقت اور درس و تدریس کا عمل بُری طرح متاثر ہوا۔ ایک سو پچاس سے زائد طالبعلموں‘ اساتذہ اور سکول کے انتظامی و معاون عملے کا قتل کسی بھی طرح معمولی نہیں تھا‘ لیکن حملہ آور دہشت گردوں کے اہداف میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ پاکستان میں جہالت کا دور دورہ چاہتے تھے‘ وہ ہمارے تعلیمی اداروں مزید حملوں کی دھمکیاں دے کر ہمارے ہاں کے روائتی نظام کو مفلوج کرنا چاہتے تھے اور کئی ہفتوں تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے۔ کیا خدانخواستہ سانحۂ پشاور جیسا کوئی دوسرا حملہ ہوتا ہے‘ تو ہم پھر سے پورے ملک کے سکول یونہی بند کر دیں گے؟ ذرا سوچئے کہ تعلیم کے وہ کون کون سے متبادل ذرائع ہیں جنہیں روائتی طریقۂ کار کے ساتھ جوڑ کر آہستہ آہستہ متعارف کرایا جاسکتا ہے؟

برطانوی خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ نے سال 2010ء میں ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی تھی جس کی رو سے ہر پانچ میں سے چار برطانوی باشندوں نے ’مفت انٹرنیٹ‘ کو ’بنیادی ضرورت‘ اور ’بنیادی حق‘ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’انٹرنیٹ عام کرنے کے لئے مالی وسائل مختص کرے اور تحقیق و ترقی کے شعبوں میں ایسے منصوبوں (حکمت عملیوں) کو بھی شامل کرے‘ جن کی بدولت زیادہ سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ سے استفادہ کرسکیں۔ اِس سلسلے میں برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں نہ صرف عالمی انٹرنیٹ بلکہ علاقائی‘ اضلاعی اور جامعات (تعلیمی اداروں) کی سطح پر محدود رابطہ کاری ’انٹرانیٹ‘ کے وسائل کو ترقی دی گئی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بیرون ملک تعلیم کے لئے جانے کے خواہشمند طلباء و طالبات کو انگریزی زبان کا ایک خاص امتحان دینا پڑتا ہے‘ جس کے نگران بھاری فیس کے عوض بیرون ملک بیٹھ کر بیک وقت پاکستان سمیت کئی ممالک میں انگریزی بولنے‘ سننے‘ سمجھنے اور لکھنے میں مہارت سے متعلق امتحان دینے والوں کی علمی قابلیت کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں‘ جو سب کو یکساں قابل قبول ہوتا ہے۔

فاصلاتی نظام تعلیم (ورچوئل لرننگ اِنوائرمنٹ) مرتب کرنے کے سلسلے میں تحقیق ’کمپیوٹر کی ایجاد‘ کے ساتھ ہی پروان چڑھی لیکن دنیا کا پہلا فاصلاتی ذریعۂ تعلیم 1728ء میں سامنے آیا جب امریکہ کے شہر بوسٹن کے اخبار میں ’کالیب فلیپس (Caleb Phillipps)‘ نامی شخص کی جانب سے اشتہار دیا گیا کہ ’’شارٹ ہینڈ کی تعلیم گھر بیٹھے حاصل کیجئے۔‘‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1906-07ء تک آیا‘ جب دنیا نے پہلی فاصلاتی تعلیم کی جامعہ ’’یونیورسٹی آف ویسکونسن ایکسٹینشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تعلیمی مقصد کے لئے خصوصی مشینیں ایجاد ہوئیں۔ آج کی دنیا میں زبانوں کے قواعد (گرائمر) سیکھنے سے لیکر عکاسی‘ پینٹنگ حتیٰ کہ ورزش (کسرت) کرنے کے معلم بھی ’ورچوئل‘ ہی علم و حکمت منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن کی ایجاد اور بعدازاں موبائل فونز اور خلائی سیاروں (سیٹلائٹ) کے ذریعے نشریات نے تو گویا ’درس و تدریس کے شعبے کو سکول کی چاردیواری اور روائتی کلاس روم کے تصور ہی سے آزاد کر دیا۔

خیبرپختونخوا حکومت سے اُمید ہے کہ وہ اِس بارے میں ضرور سوچ بچار کرے گی کہ ہر مالی سال کے آغاز پر شعبۂ تعلیم کے لئے پہلے سے زیادہ مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں لیکن ایک طرف شرح خواندگی میں اضافے کی صورت خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور دوسرا تعلیم ایک تجارت و صنعت بن گئی ہے‘ جس میں غیرصحت مند مقابلے کے رجحان نے علم کو ایک جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ شعبۂ تعلیم کو سرکاری ملازمتیں‘ مراعات‘ عہدے اُور ترقیاں حاصل کرنے کا پرکشش ذریعہ و پیشہ بنانے کی سوچ اُور اِس منفی رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔
Adopting technology in education is neccesity, must add on

No comments:

Post a Comment