Tuesday, March 24, 2015

Mar2015: Insufficient reforms in education

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: جزوی اِصلاحات!
ماضی کی اُن تلخ یادوں کو بھلا کیسے کھرچ کھرچ کر ذہن سے مٹایا جاسکتا ہے‘ جب منتخب نمائندے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے سیاسی ہم خیالوں میں ملازمتیں بانٹا کرتے تھے۔ تب سرکاری ملازمت سیاسی رشوت کا حصہ بھی ہوا کرتی تھی اُور یہ بات غیرتحریرشدہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ہردلعزیز اور عوامی ہونے کے دعویدار ایک وزیراعلیٰ ایسے بھی گزرے ہیں‘ جن سے ملاقات کے لئے جانے والوں کو سرکاری ملازمت کا تقررنامہ جس پر نام اور ولدیت وغیرہ سے متعلق کوائف درج نہیں ہوتے تھے تھما دیا جاتا لیکن کوئی مانے یا نہ مانے اُور اعتراف حقیقت کرے یا نہ کرے یعنی کوئی بولے یا نہ بولے‘ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے اگر اُور کچھ بھی نہیں کیا لیکن سرکاری ملازمتوں کو اہلیت سے ضرور مشروط کر دیا ہے بالخصوص محکمہ تعلیم میں ملازمت کے لئے ہر اُمیدوار کو اب ’نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس)‘ کے امتحانی مرحلے سے لازما گزرنا پڑتا ہے اور اہلیت کی فہرست بھی ’این ٹی ایس امتحان‘ میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر مرتب ہوتی ہے‘ جس کی شفافیت پر اُنگلی تک نہیں اُٹھائی جاسکتی۔

 یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے اب تک 5 ہزار 115 اساتذہ کو ملازمتیں دی ہیں‘ جن میں پرائمری‘ سیکنڈری کلاسیز کے اساتذہ‘ فزکس‘ تھیالوجی‘ عربی زبان اور قاری کے عہدوں کے لئے اساتذہ شامل ہیں۔ ضلع پشاور کے ایجوکیشن آفیسر شریف گل کے بقول ’’بھرتیوں کے اِس نئے نظام سے محکمۂ تعلیم میں سیاسی مداخلت کے دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔‘‘ اَساتذہ کی نمائندہ تنظیم ’آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر خالد خان بھی حکومتی اقدامات کی ستائش کرتے ہیں کہ اِس سے اساتذہ کی محکمانہ ترقیاں خودکار نظام کے تحت بناء سفارش ممکن ہو گئیں ہیں لیکن اِس مرحلۂ فکر پر چندایک سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں۔ اگر ہمارے پاس قابلیت جانچنے کا معیار اُور کسوٹی ’این ٹی ایس‘ ہی ہے تو پھر ’تعلیمی بورڈز‘ کس مرض کی دوا یا علاج ہیں اور آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی ضلع کے تعلیمی بورڈ کا نتیجہ طلباء و طالبات کی اہلیت جانچنے کے لئے کافی و کلی معیار نہیں رہا۔ دوسری اہم بات امتحانی نظام سے جڑی روائتی خرابیاں ہیں‘ جنہیں اصلاحاتی عمل کی بھٹی سے گزارنے کی بجائے ’جراحت‘ کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے یعنی سرطان (کینسر) زدہ حصے کو جسم سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی اپنائیگئی ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ امتحان جتنا بڑا ہوتا ہے‘ بدعنوانی بھی اُسی تناسب سے رواج پا جاتی ہے اور ہمارے امتحانی نظام کو ’تباہ‘ کرنے کے خالص ملزم وہ گنے چنے نجی ادارے ہیں جو شہرت کے دلدادہ اور بہتر سے بہتر نتائج دینے میں اپنا ریکارڈ برقرار رکھنے کے لئے امتحانی مراکز کا سودا کر لیتے ہیں۔ بدعنوانی کا امکان باقی رکھنا درحقیقت بدعنوانی کے عمل میں شریک ہونا ہی ہے‘ کیونکہ جنہیں اختیار ملا ہے‘ اُنہیں فرصت نہیں اور جنہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ اُنہیں فرصت ہی فرصت ہے! بات صرف مڈل یا میٹرک امتحانات میں نقل تک محدود نہیں بلکہ اِنٹرسے لیکر ’ایم بی بی ایس‘ جیسی اعلیٰ اسناد کا حصول اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے نجی اداروں میں مقابلہ خرابی کی جڑ ہے جس کی وجہ سے امتحانی مراکز کے نگران عملے اور اُن پر نگرانوں کے نگرانوں تک کو بہرقیمت و بہرصورت خرید لیا جاتا ہے۔ اِس پورے عمل میں اگر کوئی رکاوٹ کہیں آتی بھی ہے‘ تو اُسے ’نظام کو بچانے‘ کے لئے روند دیا جاتا ہے اور ایسے باضمیر سرکاری ملازمین (مرد و خواتین) کی مثالیں موجود ہیں‘ جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا تو آئندہ برس اُنہیں نجی تعلیمی اداروں کے امتحانی مراکز کی ذمہ داریاں ہی نہیں دی گئیں بلکہ کئی ایک کے تو نام ہی فہرست سے خارج کر دیئے گئے۔ تجویز ہے کہ جس طرح صوبائی حکومت نے محکمۂ تعلیم میں ملازمت کے لئے ’این ٹی ایس‘ کی شرط لازم کر دی ہے‘ اِسی طرح امتحانات میں بطور نگران مقرر کرنے کے لئے برسرملازمت اہلکاروں کی بجائے ایک نئی فورس بنائی جائے جس کا چناؤ بھی ’این ٹی ایس‘ ہی کے ذریعے ہو‘ اور جس کے جتنے زیادہ نمبر آئیں‘ اُنہیں اُتنے ہی اہم و نجی اداروں کے امتحانی مراکز پر تعینات کیا جائے۔ اِسی ’تعلیمی نگران فورس‘ کے ذریعے سال کے باقی ماندہ ایام میں ’نجی تعلیمی اداروں‘ میں درس و تدریس کی سہولیات پر نظر رکھی جائے۔ اچانک چھاپے مارے جائیں اور دیکھا جائے کہ کہیں کلاسوں میں مقرر کردہ تعداد سے زیادہ طالب علموں کو تو نہیں ٹھونسا گیا۔ کہیں ’معیاری تعلیم‘ کے نام پر والدین کی مجبوری کا ناجائز فائدہ تو نہیں اُٹھایا جارہا۔ کیا نجی تعلیمی ادارے اپنے ملازمین بالخصوص خواتین اساتذہ کو وہی تنخواہیں ادا کررہے ہیں‘ جن کا سالانہ اخراجاتی میزانیئے میں ذکر کیا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھاجائے کہ نجی تعلیمی ادارے کم سے کم تنخواہ دینے کے حکومتی قانون پر عمل درآمد کر رہے ہیں یا نہیں۔ کیا نصاب کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں اور جن سکولوں یا کالجوں میں سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں کیا اُن کے پاس تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) اور متعلقہ شعبوں میں خاطرخواہ تعلیم اور تدریسی تجربہ رکھنے والے اساتذہ و معاونین پر مشتمل عملہ بھی موجود ہے یا نہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کے سب سے زیادہ ملازمین کا تعلق محکمۂ تعلیم سے ہے گویا تعلیم کا ’روزگار (ایمپلائمنٹ) کا ذریعہ‘ بنا دیا گیا تھا‘ جس کی اصلاح آئندہ کے لئے تو عملاً ممکن بنا دی گئی ہے لیکن جو اساتذہ محض سیاسی و ذاتی تعلق کی بناء پر بھرتی ہو چکے ہیں‘ اُن سے محکمے کو صاف کیسے کیا جائے گا؟ ایسے اساتذہ کس کام کے جو نصاب کے اسباق درست تلفظ میں ادا کرنے تک کی اہلیت نہیں رکھتے اور ہر مضمون اپنی مادری زبان میں پڑھانے اور رٹہ لگانے کی حوصلہ اَفزائی کرتے ہیں۔ اگر ہمیں شعبہ تعلیم کو ارتقائی مراحل سے روشناس کرانا ہے تو اِس کے لئے مربوط اصلاحات لانا ہوں گی‘ محض کسی ایک شعبے کی اصلاح سے یہ اُمید رکھنا کہ پورا نظام اور بالخصوص سرکاری ملازمین کی سوچ ’راتوں رات‘ تبدل ہو جائے گی‘ خام خیالی سے بڑھ کر ایسی دانستہ کوتاہی کے زمرے میں آتی ہے‘ جس کا یہی نتیجہ برآمد ہوگا کہ کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا‘ جس سے معنوی تبدیلی آئے! تعلیم کو صنعت‘ کاروبار اور پیشے جیسی حالتوں سے متعارف کرانے والوں نے ہمارے حال اور معاشرے پر جس قدر ظلم کیا ہے‘ اُس کا موازنہ کسی دوسری شدت یا اِنتہاء سے ممکن ہی نہیں۔

No comments:

Post a Comment