Fata - the presidential order
قبائلی علاقہ جات: صدراتی حکمنامہ
قبائلی علاقہ جات: صدراتی حکمنامہ
جب بات قبائلی علاقوں سے متعلق امور کی آتی ہے تو وفاق کے زیرنگرانی اِن
قبائلی علاقوں سے روا رکھا جانے والا سلوک بسااُوقات سمجھ سے بالاتر ہوتا
ہے جیسا کہ حال ہی میں سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کے لئے انتخابات
ہوئے اور اِس میں قبائلی علاقوں کی سینیٹ نشستیں بھی شامل تھیں تاہم ایک
صدارتی حکمنامے کے ذریعے اِس انتخابی عمل کو معطل کر دیا گیا اُور بعدازاں
جب معاملہ عدالت تک جا پہنچا تو پہلے حکمنامے کو ختم کرکے دوسرا حکمنامہ
جاری کر دیا گیا۔ اِس پوری کہانی سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت کھل کر سامنے آ
گئی ہے کہ کس طرح اسلام آباد قبائلی علاقوں کو اپنی سیاست و دیگر مقاصد کے
لئے استعمال کرتا ہے لیکن قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے مسائل کے حل اور
وہاں تعمیر و ترقی کے عمل میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لے رہا۔
سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت (ہارس ٹریڈنگ) کے معاملے کو کچھ اِس طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے جوڑا گیا کہ جیسے دیگر علاقوں اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اِس پورے گھناؤنے فعل میں شریک ہی نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ہی اپنی تائید فروخت کر رہے ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ ہر رکن قومی اسمبلی اپنی اپنی استعداد اور تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سینیٹ ووٹ کے عوض کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ ایک فطری عمل بھی تھا کہ ووٹ تو بہرحال کسی نہ کسی کو تو دینا ہی تھا لیکن اگر اس کے عوض کچھ مل جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ آخر ہم کیوں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں اصول کی سیاست دفن ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ پاکستان میں پیسے کی طاقت سے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کا حصہ بننے کی روایت رہی ہے اور یہ روایت صرف سینیٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ عام انتخابات کے موقع پر بھی ہمیں دولت کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں تو جب یہ ساری قباحتیں موجود ہیں اور اِس بدعنوانی کے جملہ امکانات موجود ہیں تو پھر ساری کی ساری انگلیاں صرف اور صرف قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب کیوں اُٹھائی گئیں؟
کیا ’ہارس ٹریڈنگ‘ اصل مسئلہ ہے یا پھر کچھ ایسا بھی ہے جو حقیقت میں بہت ضروری ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت یہ چاہتی تھی کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اُن کے نامزد اُمیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں لیکن جب اُنہیں خطرہ محسوس ہوا کہ ایسا نہیں ہوگا تو حکومت نے اُنہیں ووٹ دینے کے عمل ہی سے الگ کر دیا اور پولنگ سے چند گھنٹے قبل ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے قبائلی علاقوں کے نمائندوں سے ایک اُور امتیازی سلوک کیا گیا اور جب سینیٹ کے لئے چیئرمین کا معاملہ طے ہوگیا تو سینیٹ کے لئے قبائلی علاقوں کے مختص سینیٹروں کو ووٹنگ کا حق ’جوں کی توں‘ حالت میں دے دیا گیا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا‘ کہ سینیٹ انتخابات کے لئے حالات کو موڑا توڑا گیا ہو۔ یادش بخیر 1948ء میں بھی جب یہ فیصلہ گیا کہ انگریز بہادر کی جانب سے 1901ء میں ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ( ایف سی آر )‘ مسلط کردہ نظام کو جاری و ساری رکھا جائے۔ قبائلی علاقے کے عوام کو ایک مسلط کردہ نظام کے تحت ہی رہنے دیا گیا اُور قبائلی علاقوں کے لوگوں سے معاملہ منتخب نمائندوں کی بجائے سرکاری ملازمین کے ذریعے کیا جائے۔ ایف سی آر کے قواعد مسلط رکھے جانے سے قبائلی عوام کے حقوق غصب ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب پاکستان کی تخلیق ہوگئی تو انگریز کا مسلط کردہ قانون ختم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اُور جب قبائلی عوام کے نمائندوں نے پشاور میں بانی پاکستان سے ملاقات کی تو اُس ملاقات کو یہ رنگ دیا گیا کہ قبائلی نمائندوں نے ایف سی آر نظام کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا جو کہ سچ نہیں تھا۔ میرے ذاتی علم کے مطابق اُس وقت جن قبائلی عمائدین کو نمائندہ بنا کر قائد اعظم سے ملاقات کرنے کا شرف دیا گیا تھا اُن کا انتخاب افسرشاہی نے کیا تھا اور اُنہی نے اُن کے آنے جانے‘ کھانے پینے اور رہائش کے جملہ اخراجات ادا کئے تھے۔ یہ وہی افسرشاہی تھی جس نے قائداعظم سے قبائلی نمائندوں کی ملاقات کا ایجنڈا اُور پھر خود ہی اُس کا خلاصہ بھی طے کیا۔
پھر 1973ء کا آئین بنا تو بھی قبائلی علاقوں کو الگ رکھا گیا کہ جہاں کے رہنے والے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق سے محروم تھے اور محروم ہی رہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل نمبر 247(7) رکھنا سب سے بڑی ناانصافی تھی‘ جس سے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کا آئینی استحصال ہوا۔ آئین کی اس مذکورہ شق کے تحت قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے معاملات پارلیمنٹ میں نہیں اُٹھائے جاسکتے جبکہ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تو قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اِس حق سے بھی محروم کر دیا گیا کہ وہ اپنے علاقوں کے گورنر بن سکیں! ترمیم میں کہا گیا کہ ’’ہر صوبے کا گورنر ہوگا‘ جس کا انتخاب صدر وزیراعظم کی سفارش سے کرے گا اور وہ گورنر متعلقہ صوبے کا ووٹر اور وہاں کا رہائشی ہوگا۔‘‘ چونکہ خیبرپختونخوا کا گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے اور اُسی کے ذمے قبائلی علاقوں کے امور بھی ہوتے ہیں اس وجہ سے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں سے یہ حق بھی چھین لیا گیا کہ وہ اپنوں میں سے کسی کو گورنر بنا سکیں۔
کیا قبائلی علاقوں کے رہنے والوں سے اِس سے بڑا کوئی دوسرا مذاق ہو سکتا ہے کہ اُن پر دوسرے تو حاکم مقرر ہوسکتے ہیں لیکن وہ اپنے علاقوں کے خود حاکم نہیں بن سکتے! ضرورت اِس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں کے معاملات کا نگران گورنر کا تعلق بھی قبائلی علاقوں ہی سے ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں ایک صدارتی حکمنامے کی ضرورت ہے جس سے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو کم از کم یہ حق تو ملنا چاہئے کہ وہ اپنے فیصلوں میں خودمختارہوں۔
قبائلی علاقوں کے مسائل کے حل کی صورت یہی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کو سنا جائے‘ انہیں فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کیا جائے اور مزید جانی و مالی نقصانات اور ترقیاتی عمل ککے لئے مختص مالی وسائل کی خردبرد کے قبائلی علاقے قبائلی عوام ہی کے کنٹرول (گورنرشپ) میں ہونے چاہیءں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز وزیر۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت (ہارس ٹریڈنگ) کے معاملے کو کچھ اِس طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے جوڑا گیا کہ جیسے دیگر علاقوں اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اِس پورے گھناؤنے فعل میں شریک ہی نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ہی اپنی تائید فروخت کر رہے ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ ہر رکن قومی اسمبلی اپنی اپنی استعداد اور تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سینیٹ ووٹ کے عوض کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ ایک فطری عمل بھی تھا کہ ووٹ تو بہرحال کسی نہ کسی کو تو دینا ہی تھا لیکن اگر اس کے عوض کچھ مل جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ آخر ہم کیوں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں اصول کی سیاست دفن ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ پاکستان میں پیسے کی طاقت سے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کا حصہ بننے کی روایت رہی ہے اور یہ روایت صرف سینیٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ عام انتخابات کے موقع پر بھی ہمیں دولت کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں تو جب یہ ساری قباحتیں موجود ہیں اور اِس بدعنوانی کے جملہ امکانات موجود ہیں تو پھر ساری کی ساری انگلیاں صرف اور صرف قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب کیوں اُٹھائی گئیں؟
کیا ’ہارس ٹریڈنگ‘ اصل مسئلہ ہے یا پھر کچھ ایسا بھی ہے جو حقیقت میں بہت ضروری ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت یہ چاہتی تھی کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اُن کے نامزد اُمیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں لیکن جب اُنہیں خطرہ محسوس ہوا کہ ایسا نہیں ہوگا تو حکومت نے اُنہیں ووٹ دینے کے عمل ہی سے الگ کر دیا اور پولنگ سے چند گھنٹے قبل ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے قبائلی علاقوں کے نمائندوں سے ایک اُور امتیازی سلوک کیا گیا اور جب سینیٹ کے لئے چیئرمین کا معاملہ طے ہوگیا تو سینیٹ کے لئے قبائلی علاقوں کے مختص سینیٹروں کو ووٹنگ کا حق ’جوں کی توں‘ حالت میں دے دیا گیا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا‘ کہ سینیٹ انتخابات کے لئے حالات کو موڑا توڑا گیا ہو۔ یادش بخیر 1948ء میں بھی جب یہ فیصلہ گیا کہ انگریز بہادر کی جانب سے 1901ء میں ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ( ایف سی آر )‘ مسلط کردہ نظام کو جاری و ساری رکھا جائے۔ قبائلی علاقے کے عوام کو ایک مسلط کردہ نظام کے تحت ہی رہنے دیا گیا اُور قبائلی علاقوں کے لوگوں سے معاملہ منتخب نمائندوں کی بجائے سرکاری ملازمین کے ذریعے کیا جائے۔ ایف سی آر کے قواعد مسلط رکھے جانے سے قبائلی عوام کے حقوق غصب ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب پاکستان کی تخلیق ہوگئی تو انگریز کا مسلط کردہ قانون ختم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اُور جب قبائلی عوام کے نمائندوں نے پشاور میں بانی پاکستان سے ملاقات کی تو اُس ملاقات کو یہ رنگ دیا گیا کہ قبائلی نمائندوں نے ایف سی آر نظام کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا جو کہ سچ نہیں تھا۔ میرے ذاتی علم کے مطابق اُس وقت جن قبائلی عمائدین کو نمائندہ بنا کر قائد اعظم سے ملاقات کرنے کا شرف دیا گیا تھا اُن کا انتخاب افسرشاہی نے کیا تھا اور اُنہی نے اُن کے آنے جانے‘ کھانے پینے اور رہائش کے جملہ اخراجات ادا کئے تھے۔ یہ وہی افسرشاہی تھی جس نے قائداعظم سے قبائلی نمائندوں کی ملاقات کا ایجنڈا اُور پھر خود ہی اُس کا خلاصہ بھی طے کیا۔
پھر 1973ء کا آئین بنا تو بھی قبائلی علاقوں کو الگ رکھا گیا کہ جہاں کے رہنے والے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق سے محروم تھے اور محروم ہی رہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل نمبر 247(7) رکھنا سب سے بڑی ناانصافی تھی‘ جس سے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کا آئینی استحصال ہوا۔ آئین کی اس مذکورہ شق کے تحت قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے معاملات پارلیمنٹ میں نہیں اُٹھائے جاسکتے جبکہ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تو قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اِس حق سے بھی محروم کر دیا گیا کہ وہ اپنے علاقوں کے گورنر بن سکیں! ترمیم میں کہا گیا کہ ’’ہر صوبے کا گورنر ہوگا‘ جس کا انتخاب صدر وزیراعظم کی سفارش سے کرے گا اور وہ گورنر متعلقہ صوبے کا ووٹر اور وہاں کا رہائشی ہوگا۔‘‘ چونکہ خیبرپختونخوا کا گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے اور اُسی کے ذمے قبائلی علاقوں کے امور بھی ہوتے ہیں اس وجہ سے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں سے یہ حق بھی چھین لیا گیا کہ وہ اپنوں میں سے کسی کو گورنر بنا سکیں۔
کیا قبائلی علاقوں کے رہنے والوں سے اِس سے بڑا کوئی دوسرا مذاق ہو سکتا ہے کہ اُن پر دوسرے تو حاکم مقرر ہوسکتے ہیں لیکن وہ اپنے علاقوں کے خود حاکم نہیں بن سکتے! ضرورت اِس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں کے معاملات کا نگران گورنر کا تعلق بھی قبائلی علاقوں ہی سے ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں ایک صدارتی حکمنامے کی ضرورت ہے جس سے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو کم از کم یہ حق تو ملنا چاہئے کہ وہ اپنے فیصلوں میں خودمختارہوں۔
قبائلی علاقوں کے مسائل کے حل کی صورت یہی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کو سنا جائے‘ انہیں فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کیا جائے اور مزید جانی و مالی نقصانات اور ترقیاتی عمل ککے لئے مختص مالی وسائل کی خردبرد کے قبائلی علاقے قبائلی عوام ہی کے کنٹرول (گورنرشپ) میں ہونے چاہیءں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز وزیر۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment