ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حوصلوں کا اِمتحان
حوصلوں کا اِمتحان
ہر کوئی جلدی میں ہے۔ موسم سرما ابھی آیا نہیں تھا کہ بہار کی کونپلیں جاگ
اُٹھی۔ بہار نے انگڑائی لی ہی تھی کہ دھوپ کی شدت برداشت سے باہر ہوگئی۔
میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رواں برس
کس قدر گرمی متوقع ہے لیکن اِن موسمی تبدیلیاں اُس وقت برداشت سے باہر ہو
جاتی ہیں‘ جن اِن سے نمٹنے کے دستیاب وسائل ناکارہ ہو جائیں۔ پنکھے چلنا
بند ہوجائیں تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ موسم گرما اور صبروبرداشت میں اضافے سے
روحانیت کی منزلیں طے کرنے والوں کو ایک اُور موقع ملنے والا ہے کیونکہ
موسم گرما کا ابھی پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے
حوصلوں کا امتحان لینا شروع کردیا ہے لیکن اِس مرتبہ ماضی کے مقابلے زیادہ
سنگین صورتحال درپیش ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اوقات میں ’ٹرانسفارمر‘
چوری ہونے لگے ہیں۔ پشاور کے مضافاتی اور دور دراز علاقوں سے ایسی اطلاعات
ملنا شروع ہو گئیں ہیں کہ ’ٹرانسفارمر چور گروہ‘ فعال ہو گئے ہیں جو طویل
لوڈشیڈنگ کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اہل علاقہ اب برقی رو کے آنے
جانے کے خوف سے نہیں بلکہ ٹرانسفارمر کی حفاظت کرنے کے لئے دونوں آنکھیں
بند کرکے نہیں سوتے!
یوں تو خیبرپختونخوا میں انسانی جان ومال کا تحفظ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے لئے کئی ایک ادارے فعال ہیں لیکن بجلی ٹرانسفارمروں کی چوری ایک ایسا معمہ ہے‘ جس کی سمجھ آتی بھی ہے اور نہیں بھی آتی کہ آخر قانون نافذ کرنے والے ادارے کس کس کی حفاظت کریں۔ جس معاشرے میں سرکاری املاک و تنصیبات سے اِس قسم کا سلوک روا رکھا جائے وہاں بہتری کے صرف اور صرف دعاؤں پر انحصار ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہمیں ہر معاملے میں غیرملکی سازش کی بو سونگھ لینے کی عادت ہے تو ایسی سوچ رکھنے والوں سے سوال ہے کہ آخر ٹرانسفارمر چوری میں کون سا بیرونی ہاتھ ملوث ہے؟
درحقیقت ہم اپنے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے والوں میں شامل ہیں۔ کیا بجلی کا ٹرانسفارمر کوئی کھانے کی چیز ہے جسے چند افراد مل کر ہضم کر لیتے ہیں۔ اِس قدر وزنی اور بڑے حجم کا آلہ‘ جو عام گھریلو استعمال میں بھی نہیں آتا‘ جسے زمین سے کم از کم پانچ سے آٹھ فٹ بلندی سے صحیح سالم اُتارنے کے لئے کسی تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موروثی علوم کا حصہ نہیں ہوتی۔ پھر یہ ٹرانسفارمر اگر مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے تو وہ کون سے عناصر ہیں جو اس گھناونے کاروبار میں شریک ہیں اور چوری شدہ مال کوڑیوں کے دام خرید کر بعدازاں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق ’’ٹرانسفارمروں کی چوری میں متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور اِس بارے میں مختلف زاوئیوں سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایسا نظام بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس میں دیہی علاقوں کی سطح پر نگرانی کی کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنے اپنے ٹرانسفارمروں کی نگرانی کریں لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں ٹرانسفارمروں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے اُن عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جو ذاتی منافع کے لئے بڑے پیمانے پر قومی نقصان اور عوام کی تکلیف کا سبب بن رہے ہیں۔
پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) حکام کو ’ٹرانسفارمروں کی چوری‘ پر حیرت نہیں کیونکہ گذشتہ کئی برس سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن حال ہی میں پشاور کے دیہی علاقوں میں اِس قسم کی چوریاں‘ باعث تشویش ضرور ہیں۔ یاد رہے کہ ماہ فروری کے دوران چمکنی‘ سکندرپورہ‘ ورسک روڈ‘ شاہی بالا اور تنگی سے آٹھ عدد بجلی کے ٹرانسفامر چوری ہوئے ہیں۔ پیسکو حکام کے مطابق بجلی کے ایک ٹرانسفارمر سے دوسرے ٹرانسفارمر تک کا فاصلہ پانچ سے دس کلومیٹر ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ ایک دوسرے سے اوٹ میں نصب ہوتے ہیں اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو ہر لمحے اِن ٹرانسفارمروں کی نگرانی بھلا کیسے ممکن ہو سکتی ہے بالخصوص رات کے اُن اوقات میں جبکہ دیہی علاقوں میں کئی گھنٹوں تک برقی تعطل معمول کا حصہ ہوتا ہے۔ چور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا فائدہ اُٹھا رہے اور اگر اِس مسئلے کا کوئی حل ہے تو وہ بس یہی ہے کہ بجلی کے تعطل کے دورانیئے میں کمی لائی جائے بصورت دیگر اِس قسم کی چوریاں روکنے کا کوئی دوسرا حربہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ بجلی کے ایک ٹرانسفارمر کی کل قیمت ایک لاکھ اسی ہزار سے سات لاکھ روپے تک ہوتی ہے جبکہ اس کے پرزہ جات دس ہزار سے بتیس ہزار میں فروخت ہوتے ہیں اور خیبرپختونخوا میں کم و بیش ساٹھ ہزار ٹرانسفارمر نصب ہیں! نگرانی کا عمل مؤثر بنانے‘ ہر شخص کو اپنے گردوپیش پر نظر رکھنے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے شعور اُجاگر کرکے بجلی ٹرانسفارمروں کی چوری کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
پس تحریر: پچیس مارچ کے روز ’لالہ امیر احمد صدیقی‘ کی رحلت سے پشاور کی صحافت اور اقدار بھری روایات کا ایک درخشاں باب اختتام پذیر ہوا ہے۔ اناللہ وانا علیہ راجعون۔ لالہ امیر صدیقی کی عمر 84برس تھی۔ 23 مارچ 1931ء نمک منڈی پشاور کے علاقہ میں پیدا ہونے والے لالہ امیر صدیقی کے پسماندگان میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اسلامیہ کالج و گورنمنٹ ہائی سکول نمبر تین پشاور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے قیام پاکستان سے قبل خیبرپختونخوا و قبائلی علاقہ جات میں پہلی ’نیوز ایجنسی‘ کی بنیاد رکھی‘ جو آج بھی فعال ہے۔ آپ انتہا درجے کے شفیق‘ نرم خو‘ خوش مزاج اور اقدار و روایات پسند تھے۔ اپنی مٹی کی محبت کے بناء تشہیر اسیر رہے اور یہی اہل پشاور کے اُن نفوس عالیہ کا کردار و عمل رہا ہے کہ وہ اپنی نجی و ذاتی ترجیحات میں بھی دوسروں کی بھلائی اور اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ آپ کے تین صاحبزادے لیئق احمد صدیقی (کالم نگار روزنامہ آج)‘ اِنتخاب امیر اور فائق امیر کا شمار جدید‘ فکری و معنوی صحافت کے پیشروں میں ہوتا ہے۔ لالہ امیر صدیقی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے‘ جنہوں نے مسلم لیگ سے اپنی نظریاتی وابستگی کوہمیشہ قابل فخر سمجھا۔ علالت کے سبب عرصہ دراز تک گوشہ نشین رہنے والے علم دوست و دانا لالہ امیر صدیقی پاکستان اور پشاور کی ترقی و سلامتی کے لئے ہمیشہ دعاگو پائے گئے۔ چھبیس مارچ کی صبح گیارہ بجے‘ ورسک روڈ کے علاقے خوشحال خان پارک (بابو گڑھی) سے آپ کا جنازہ ہزاروں اشکبار آنکھوں کی موجودگی میں اُٹھایا گیا۔ سیاست و صحافت کے شعبوں سے متعلق آپ کی خدمات‘ تادیر یاد رکھی جائیں گی۔
یوں تو خیبرپختونخوا میں انسانی جان ومال کا تحفظ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے لئے کئی ایک ادارے فعال ہیں لیکن بجلی ٹرانسفارمروں کی چوری ایک ایسا معمہ ہے‘ جس کی سمجھ آتی بھی ہے اور نہیں بھی آتی کہ آخر قانون نافذ کرنے والے ادارے کس کس کی حفاظت کریں۔ جس معاشرے میں سرکاری املاک و تنصیبات سے اِس قسم کا سلوک روا رکھا جائے وہاں بہتری کے صرف اور صرف دعاؤں پر انحصار ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہمیں ہر معاملے میں غیرملکی سازش کی بو سونگھ لینے کی عادت ہے تو ایسی سوچ رکھنے والوں سے سوال ہے کہ آخر ٹرانسفارمر چوری میں کون سا بیرونی ہاتھ ملوث ہے؟
درحقیقت ہم اپنے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے والوں میں شامل ہیں۔ کیا بجلی کا ٹرانسفارمر کوئی کھانے کی چیز ہے جسے چند افراد مل کر ہضم کر لیتے ہیں۔ اِس قدر وزنی اور بڑے حجم کا آلہ‘ جو عام گھریلو استعمال میں بھی نہیں آتا‘ جسے زمین سے کم از کم پانچ سے آٹھ فٹ بلندی سے صحیح سالم اُتارنے کے لئے کسی تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موروثی علوم کا حصہ نہیں ہوتی۔ پھر یہ ٹرانسفارمر اگر مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے تو وہ کون سے عناصر ہیں جو اس گھناونے کاروبار میں شریک ہیں اور چوری شدہ مال کوڑیوں کے دام خرید کر بعدازاں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق ’’ٹرانسفارمروں کی چوری میں متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور اِس بارے میں مختلف زاوئیوں سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایسا نظام بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس میں دیہی علاقوں کی سطح پر نگرانی کی کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنے اپنے ٹرانسفارمروں کی نگرانی کریں لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں ٹرانسفارمروں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے اُن عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جو ذاتی منافع کے لئے بڑے پیمانے پر قومی نقصان اور عوام کی تکلیف کا سبب بن رہے ہیں۔
پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) حکام کو ’ٹرانسفارمروں کی چوری‘ پر حیرت نہیں کیونکہ گذشتہ کئی برس سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن حال ہی میں پشاور کے دیہی علاقوں میں اِس قسم کی چوریاں‘ باعث تشویش ضرور ہیں۔ یاد رہے کہ ماہ فروری کے دوران چمکنی‘ سکندرپورہ‘ ورسک روڈ‘ شاہی بالا اور تنگی سے آٹھ عدد بجلی کے ٹرانسفامر چوری ہوئے ہیں۔ پیسکو حکام کے مطابق بجلی کے ایک ٹرانسفارمر سے دوسرے ٹرانسفارمر تک کا فاصلہ پانچ سے دس کلومیٹر ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ ایک دوسرے سے اوٹ میں نصب ہوتے ہیں اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو ہر لمحے اِن ٹرانسفارمروں کی نگرانی بھلا کیسے ممکن ہو سکتی ہے بالخصوص رات کے اُن اوقات میں جبکہ دیہی علاقوں میں کئی گھنٹوں تک برقی تعطل معمول کا حصہ ہوتا ہے۔ چور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا فائدہ اُٹھا رہے اور اگر اِس مسئلے کا کوئی حل ہے تو وہ بس یہی ہے کہ بجلی کے تعطل کے دورانیئے میں کمی لائی جائے بصورت دیگر اِس قسم کی چوریاں روکنے کا کوئی دوسرا حربہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ بجلی کے ایک ٹرانسفارمر کی کل قیمت ایک لاکھ اسی ہزار سے سات لاکھ روپے تک ہوتی ہے جبکہ اس کے پرزہ جات دس ہزار سے بتیس ہزار میں فروخت ہوتے ہیں اور خیبرپختونخوا میں کم و بیش ساٹھ ہزار ٹرانسفارمر نصب ہیں! نگرانی کا عمل مؤثر بنانے‘ ہر شخص کو اپنے گردوپیش پر نظر رکھنے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے شعور اُجاگر کرکے بجلی ٹرانسفارمروں کی چوری کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
پس تحریر: پچیس مارچ کے روز ’لالہ امیر احمد صدیقی‘ کی رحلت سے پشاور کی صحافت اور اقدار بھری روایات کا ایک درخشاں باب اختتام پذیر ہوا ہے۔ اناللہ وانا علیہ راجعون۔ لالہ امیر صدیقی کی عمر 84برس تھی۔ 23 مارچ 1931ء نمک منڈی پشاور کے علاقہ میں پیدا ہونے والے لالہ امیر صدیقی کے پسماندگان میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اسلامیہ کالج و گورنمنٹ ہائی سکول نمبر تین پشاور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے قیام پاکستان سے قبل خیبرپختونخوا و قبائلی علاقہ جات میں پہلی ’نیوز ایجنسی‘ کی بنیاد رکھی‘ جو آج بھی فعال ہے۔ آپ انتہا درجے کے شفیق‘ نرم خو‘ خوش مزاج اور اقدار و روایات پسند تھے۔ اپنی مٹی کی محبت کے بناء تشہیر اسیر رہے اور یہی اہل پشاور کے اُن نفوس عالیہ کا کردار و عمل رہا ہے کہ وہ اپنی نجی و ذاتی ترجیحات میں بھی دوسروں کی بھلائی اور اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ آپ کے تین صاحبزادے لیئق احمد صدیقی (کالم نگار روزنامہ آج)‘ اِنتخاب امیر اور فائق امیر کا شمار جدید‘ فکری و معنوی صحافت کے پیشروں میں ہوتا ہے۔ لالہ امیر صدیقی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے‘ جنہوں نے مسلم لیگ سے اپنی نظریاتی وابستگی کوہمیشہ قابل فخر سمجھا۔ علالت کے سبب عرصہ دراز تک گوشہ نشین رہنے والے علم دوست و دانا لالہ امیر صدیقی پاکستان اور پشاور کی ترقی و سلامتی کے لئے ہمیشہ دعاگو پائے گئے۔ چھبیس مارچ کی صبح گیارہ بجے‘ ورسک روڈ کے علاقے خوشحال خان پارک (بابو گڑھی) سے آپ کا جنازہ ہزاروں اشکبار آنکھوں کی موجودگی میں اُٹھایا گیا۔ سیاست و صحافت کے شعبوں سے متعلق آپ کی خدمات‘ تادیر یاد رکھی جائیں گی۔
![]() |
Electricity transformers theft in KP is another concern for PESCO officials |
No comments:
Post a Comment