ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
موٹروے آداب: اِحترام کے تقاضے
موٹروے آداب: اِحترام کے تقاضے
ہموار سڑکیں اُور آرام دہ برق رفتار سفری وسائل اِس بات کی ضمانت نہیں رہے
کہ‘ سفری سہولیات بھی میسر ہوں گی کیونکہ ہماری ہاں ’کاروباری ذہنیت‘
ہرشعبے پر حاوی ہے اور راتوں رات امیر بننے کی حرص جہاں نچلے طبقے سے
اِنتہائی اعلیٰ و بالا نفوس پر ’حاکم‘ دکھائی دیتی ہے وہیں سرکاری اہلکاروں
سے وابستہ ’فرض شناسی‘ کی توقعات بھی پوری نہیں ہو رہیں اور نتیجہ ایک
ایسی افراتفری کی صورت ظاہر ہو رہا ہے جس نے کمانے‘ بچانے اور خرچ کرنے
والوں کا سکون غارت کر رکھا ہے۔ بین الصوبائی آمدورفت کے لئے ’نجی پبلک
ٹرانسپورٹ‘ سے اِستفادہ کرنے والوں کے مسائل میں ’سفری وسائل‘ کے ساتھ
اِضافہ تشویشناک ہے چونکہ سفر کے لئے نجی ٹرانسپورٹرز پر اِنحصار کے سوأ
کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی اور خالصتاً ذاتی منافع کی سوچ رکھنے والے
اِس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ مسافروں کو کس قدر جسمانی و ذہنی سکون یا
آرام میسر آ رہا ہے اور وہ کون کون سے عوامل‘ اسباب و محرکات ہیں جو
مسافروں کے لئے کوفت و اذیت کا سبب بنے ہوئے ہیں!
حال ہی میں ’ایبٹ آباد سے لاہور‘ اور چند روز بعد ’لاہور سے ایبٹ آباد‘ سفر کرنے کے اِتفاق میں کئی ایک ایسے تجربات اور وارداتوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا‘ جن کا اِرتکاب قواعد کی موجودگی میں غیرمنطقی تھا۔ اِبتدأ اگر ’کرائے کی شرح‘ سے کی جائے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ فی مسافر کرائے کے اَصول پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ گنجائش سے زیادہ مسافروں کو بٹھانے کی عمومی شکایت کا ازالہ اِس طرح کیا گیا ہے کہ سیٹوں (نشستوں) کے درمیان فاصلہ اِس حد تک کم کر دیا گیا ہے کہ گھٹنے پیٹ سے لگے رہتے ہیں۔ لمبی مسافت کی‘ بین الاضلاعی و صوبائی گاڑیاں جو بطور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہو رہی ہیں اِن میں ’سی این جی‘ سلینڈر نصب نہیں ہونے چاہیءں‘ جو محفوظ سفر کے نکتۂ نظر سے محفوظ و قابل بھروسہ نہیں۔ مسافر بسوں کو بطور ’کارگو‘ استعمال کرنے کی وجہ سے ہلکی گاڑیاں بھاری بنا دی جاتی ہیں جو نہ صرف ’شاہراؤں کی صحت‘ کے لئے مہلک ہیں بلکہ اشیاء کی غیرقانونی نقل و حرکت کا ذریعہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان سے براستہ قبائلی علاقہ جات گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات پشاور پہنچتے ہیں جہاں سے انہیں ’براہ راست‘ ملک کے داخلی حصوں میں قائم ’آٹو مارکیٹیوں‘ تک پہنچانے کی بجائے پہلے چھوٹے اضلاع منتقل کیا جاتا ہے‘ جہاں سے مسافر بسوں کے نیچے بنے ہوئے خانوں میں لاد کر مطلوبہ مقامات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پورے ملک میں استعمال شدہ ایسے فاضل پرزہ جات اُور ٹائر وغیرہ وافر مقدار میں مل جاتے ہیں‘ جن میں چوری شدہ گاڑیوں کے پرزے بھی شامل ہوتے ہیں۔ عجب ہے کہ موٹروے اور جی ٹی روڈ کا استعمال کرنے والوں کے لئے قواعد تو ایک جیسے ہیں لیکن ’موٹروے پولیس‘ کی ساکھ نسبتاً بہتر اور کارکردگی فعال دکھائی دیتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے ایک ہی جگہ‘ ایک ہی وقت میں دو الگ الگ شاہراؤں پر ایک جیسے ’ٹریفک قواعد‘ پر الگ الگ ترجیحات کے ساتھ کہیں کم اور کہیں زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنے والی بسیں ’موٹروے‘ کا استعمال نہیں کرتیں اور جی ٹی روڈ پر ٹریفک قواعد کے نگران اِس کھلم کھلا خلاف ورزی کا نوٹس نہیں لیتے۔کیا سبھی ڈرائیوروں کے پاس ’ڈرائیونگ لائسینس (اجازت نامے)‘ ہوتے ہیں؟ ایک ہی نمبر اور رجسٹریشن والی ایک سے زیادہ گاڑیاں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے طور پر اِستعمال ہورہی ہیں اُور یہ بات ’ہائی وے ٹریفک پولیس‘ کے علم میں ہونے کے باوجود ’تجاہل عارفانہ‘ کا جواز مالی بدعنوانی کے سوا بھلا اُور کیا ہوسکتا ہے۔ کیا اِن سبھی اَمور کی اِصلاح ممکن نہیں‘ کیونکہ چند اَفراد ذاتی مفاد کے لئے قواعد پر عمل درآمد اور اِصلاحات کے پورے عمل کو ’بے معنی‘ بنائے ہوئے ہیں؟
موٹروے کا استعمال کرنے والی گاڑیوں میں تفریح طبع کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن سکرین کے ذریعے فلمیں‘ گانے‘ ڈرامے اُور اشتہارات نشر کئے جاتے ہیں‘ جس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر کچھ لوگ ’موسیقی کو روح کی غذا سمجھنے اور اِس پر بھروسہ کرنے کے مغالطے کا شکار ہیں‘ تو اُنہیں اپنے حال ہی میں رہنے پر کسی کو بھلا کیا اِعتراض ہو سکتا ہے لیکن جو مسافر موسیقی نہ سننا چاہیں‘ اُور تشدد و عشق معاشقے کے مناظر سے ’لبالب مواد‘ سے کسی وجہ سے طبیعت کو راغب نہ پائیں تو اُن کے لئے ’ہیڈفونز‘ کا الگ سے انتظام ہونا چاہئے اور ایسی مسافر بسوں میں فلمیں دکھانے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے جن کے پاس فی مسافر ہیڈفونز کی سہولت نہ ہو۔
یہ کوئی جواز نہیں کہ کسی گاڑی کے مسافر اگر اکثریت میں اِس بات پر اتفاق کریں کہ وہ بلند آواز میں بناء ’ہیڈفونز‘ فلم سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے کی اُنہیں (اکثریت کی بناء پر) اجازت دے دی جائے۔ جس طرح ٹریفک قواعد میں مسافروں کی فرمائش پر تیزرفتاری کی اجازت و گنجائش نہیں‘ اِسی طرح کسی بھی قسم کا نشریاتی مواد ہر کسی پر مسلط کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ’ہائی ویز پولیس‘ کے اہلکار اِس سنگین بے قاعدگی کا نوٹس لیں گے‘ جو اہل خانہ یا مریضوں کے ہمراہ سفر کرنے والوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی مسافر اپنے کسی عزیز کی میت یا بیماری کے لئے سفر کر رہا ہو‘ اُور وہ ذہنی طور پر شدید صدمے سے دوچار ہو‘ جس کے لئے موسیقی ایک مسلسل تشدد جیسا ظلم ہو! آخر ہم اُس کم سے کم اِنسانی سلوک (حسن خلق) کے تقاضوں اور (اَخوت‘ اِتحاد و یگانگت پرمبنی) احترام کے تقاضوں کا اِدراک کب کریں گے‘ جس میں اپنی ذات کے علاؤہ دوسروں کی سہولت و سکون کا خیال رکھنا بھی ’واجب‘ ہوتا ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ ۔۔۔’’کوئی شخص اُس وقت تک ’کامل مومن‘ نہیں ہوتا‘جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی (کچھ) پسند کرے‘ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)۔
حال ہی میں ’ایبٹ آباد سے لاہور‘ اور چند روز بعد ’لاہور سے ایبٹ آباد‘ سفر کرنے کے اِتفاق میں کئی ایک ایسے تجربات اور وارداتوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا‘ جن کا اِرتکاب قواعد کی موجودگی میں غیرمنطقی تھا۔ اِبتدأ اگر ’کرائے کی شرح‘ سے کی جائے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ فی مسافر کرائے کے اَصول پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ گنجائش سے زیادہ مسافروں کو بٹھانے کی عمومی شکایت کا ازالہ اِس طرح کیا گیا ہے کہ سیٹوں (نشستوں) کے درمیان فاصلہ اِس حد تک کم کر دیا گیا ہے کہ گھٹنے پیٹ سے لگے رہتے ہیں۔ لمبی مسافت کی‘ بین الاضلاعی و صوبائی گاڑیاں جو بطور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہو رہی ہیں اِن میں ’سی این جی‘ سلینڈر نصب نہیں ہونے چاہیءں‘ جو محفوظ سفر کے نکتۂ نظر سے محفوظ و قابل بھروسہ نہیں۔ مسافر بسوں کو بطور ’کارگو‘ استعمال کرنے کی وجہ سے ہلکی گاڑیاں بھاری بنا دی جاتی ہیں جو نہ صرف ’شاہراؤں کی صحت‘ کے لئے مہلک ہیں بلکہ اشیاء کی غیرقانونی نقل و حرکت کا ذریعہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان سے براستہ قبائلی علاقہ جات گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات پشاور پہنچتے ہیں جہاں سے انہیں ’براہ راست‘ ملک کے داخلی حصوں میں قائم ’آٹو مارکیٹیوں‘ تک پہنچانے کی بجائے پہلے چھوٹے اضلاع منتقل کیا جاتا ہے‘ جہاں سے مسافر بسوں کے نیچے بنے ہوئے خانوں میں لاد کر مطلوبہ مقامات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پورے ملک میں استعمال شدہ ایسے فاضل پرزہ جات اُور ٹائر وغیرہ وافر مقدار میں مل جاتے ہیں‘ جن میں چوری شدہ گاڑیوں کے پرزے بھی شامل ہوتے ہیں۔ عجب ہے کہ موٹروے اور جی ٹی روڈ کا استعمال کرنے والوں کے لئے قواعد تو ایک جیسے ہیں لیکن ’موٹروے پولیس‘ کی ساکھ نسبتاً بہتر اور کارکردگی فعال دکھائی دیتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے ایک ہی جگہ‘ ایک ہی وقت میں دو الگ الگ شاہراؤں پر ایک جیسے ’ٹریفک قواعد‘ پر الگ الگ ترجیحات کے ساتھ کہیں کم اور کہیں زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنے والی بسیں ’موٹروے‘ کا استعمال نہیں کرتیں اور جی ٹی روڈ پر ٹریفک قواعد کے نگران اِس کھلم کھلا خلاف ورزی کا نوٹس نہیں لیتے۔کیا سبھی ڈرائیوروں کے پاس ’ڈرائیونگ لائسینس (اجازت نامے)‘ ہوتے ہیں؟ ایک ہی نمبر اور رجسٹریشن والی ایک سے زیادہ گاڑیاں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے طور پر اِستعمال ہورہی ہیں اُور یہ بات ’ہائی وے ٹریفک پولیس‘ کے علم میں ہونے کے باوجود ’تجاہل عارفانہ‘ کا جواز مالی بدعنوانی کے سوا بھلا اُور کیا ہوسکتا ہے۔ کیا اِن سبھی اَمور کی اِصلاح ممکن نہیں‘ کیونکہ چند اَفراد ذاتی مفاد کے لئے قواعد پر عمل درآمد اور اِصلاحات کے پورے عمل کو ’بے معنی‘ بنائے ہوئے ہیں؟
موٹروے کا استعمال کرنے والی گاڑیوں میں تفریح طبع کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن سکرین کے ذریعے فلمیں‘ گانے‘ ڈرامے اُور اشتہارات نشر کئے جاتے ہیں‘ جس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر کچھ لوگ ’موسیقی کو روح کی غذا سمجھنے اور اِس پر بھروسہ کرنے کے مغالطے کا شکار ہیں‘ تو اُنہیں اپنے حال ہی میں رہنے پر کسی کو بھلا کیا اِعتراض ہو سکتا ہے لیکن جو مسافر موسیقی نہ سننا چاہیں‘ اُور تشدد و عشق معاشقے کے مناظر سے ’لبالب مواد‘ سے کسی وجہ سے طبیعت کو راغب نہ پائیں تو اُن کے لئے ’ہیڈفونز‘ کا الگ سے انتظام ہونا چاہئے اور ایسی مسافر بسوں میں فلمیں دکھانے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے جن کے پاس فی مسافر ہیڈفونز کی سہولت نہ ہو۔
یہ کوئی جواز نہیں کہ کسی گاڑی کے مسافر اگر اکثریت میں اِس بات پر اتفاق کریں کہ وہ بلند آواز میں بناء ’ہیڈفونز‘ فلم سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے کی اُنہیں (اکثریت کی بناء پر) اجازت دے دی جائے۔ جس طرح ٹریفک قواعد میں مسافروں کی فرمائش پر تیزرفتاری کی اجازت و گنجائش نہیں‘ اِسی طرح کسی بھی قسم کا نشریاتی مواد ہر کسی پر مسلط کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ’ہائی ویز پولیس‘ کے اہلکار اِس سنگین بے قاعدگی کا نوٹس لیں گے‘ جو اہل خانہ یا مریضوں کے ہمراہ سفر کرنے والوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی مسافر اپنے کسی عزیز کی میت یا بیماری کے لئے سفر کر رہا ہو‘ اُور وہ ذہنی طور پر شدید صدمے سے دوچار ہو‘ جس کے لئے موسیقی ایک مسلسل تشدد جیسا ظلم ہو! آخر ہم اُس کم سے کم اِنسانی سلوک (حسن خلق) کے تقاضوں اور (اَخوت‘ اِتحاد و یگانگت پرمبنی) احترام کے تقاضوں کا اِدراک کب کریں گے‘ جس میں اپنی ذات کے علاؤہ دوسروں کی سہولت و سکون کا خیال رکھنا بھی ’واجب‘ ہوتا ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ ۔۔۔’’کوئی شخص اُس وقت تک ’کامل مومن‘ نہیں ہوتا‘جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی (کچھ) پسند کرے‘ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)۔
![]() |
Traveling in public transport using the highways never be exciting experience |
No comments:
Post a Comment