Saturday, March 28, 2015

Mar2015: Involvement in Yemen as part of conspiracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سازش خونریزی: ماضی و حال
وزیردفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ ’’(جمہوریہ) یمن فوجی کاروائی میں پاکستان کی فوجی حصہ نہیں لے رہی لیکن اگر سعودی عرب کی جغرافیائی حیثیت کو خطرہ لاحق ہوا‘ تو پاکستان دفاع کرے گا۔‘‘ پاکستان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا‘ جب سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ نے سعودی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ’’پاکستان اور مصر سمیت پانچ مسلمان ممالک یمن میں باغیوں کے خلاف جاری فوجی کاروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی کے بعد سعودی عرب نے یمنی حکومت کی مدد کے لئے فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ اِس کاروائی میں متحدہ عرب امارات کے تیس‘ بحرین کے پندرہ‘ کویت کے پندرہ‘ قطر کے دس اُور اُردن کے چھ جنگی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ایک طرف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ یمن کی لڑائی میں حصہ نہیں لے رہا لیکن دوسری جانب سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی کہہ رہی ہے کہ پانچ مسلم ممالک سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ امریکہ پہلے ہی خود کو اِس پورے معاملے سے الگ کر چکا ہے اور وہ درپردہ رہ کر جنگ کی حمایت و منصوبہ بندی کا حصہ تو ہے لیکن کھل کر سامنے نہیں آ رہا اور نہ ہی اپنے فوجی سب سے بڑے اقتصادی ساتھی کے دفاع کے لئے نہیں بھیج رہا۔ پاکستان سے زیادہ سعودی عرب سے امریکہ نے فائدہ اُٹھایا لیکن اُس کی فوجی مدد نہیں کررہا اور پاکستان کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ (ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر) مشکل گھڑی آئی تو امریکہ ساتھ نہیں دے گا۔

یمن کے انتہائی اہم شہر ’’مارب‘‘ میں جنم لینے والی بغاوت اس بات کی گواہ ہے کہ وہاں مغرب کی درپردہ حمایت سے نئی سازش کا آغاز ہوچکا ہے‘ جس کا مقصد ’’انصاراللہ‘‘ نامی تحریک کو کچلنا ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل سے امریکہ اور سعودی عرب نے یمن میں ’’اصلاح پارٹی‘‘ کی حمایت شروع کر رکھی ہے۔ اصلاح پارٹی خود کو اخوان المسلمین کی شاخ قرار دیتی ہے۔ اس حمایت کا مقصد مارب کو صنعاء کے مقابل لاکھڑا کرنا ہے۔ یمن میں سعودی عرب اور مغربی ممالک کی مداخلت سے بحران مزید پیچیدہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کو یمن میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ سعودی عرب شروع دن سے یمن کے حالات سے فائدہ اٹھانے اور اپنی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اس لئے کہ یمن کی آبادی کا بڑا حصہ اُس کے مخالف مسلک پر مشتمل ہے اور مزاحمتی تحریک کے حق میں بدلتے ہوئے حالات پر تشویش اس بات کا باعث بنی کہ آل سعود‘ علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کے ساتھ جنگ میں حکومت کا ساتھ دے۔اس کے علاؤہ یمن پر قبضہ اور اس سے قبل یمن کے بعض متنازعہ علاقوں کو سعودی عرب میں شامل کرنا‘ سعودی عرب کے ایجنڈے کا حصہ رہا ہے۔ سعودی ٹیلی ویژن نے کچھ عرصہ قبل ایک نقشہ نشر کیا تھا‘ جس میں سعودی عرب کے عزائم کا بخوبی پتہ چلتا ہے جس میں یمن کے علاقوں کو سعودی عرب کا حصہ دکھایا گیا تھا۔سعودی عرب نے ماضی میں یمن کے تین صوبوں عسیر‘ نجران اورجیزان پر قبضہ کر کے حالیہ برسوں میں انہیں عملی طور پر سعودی عرب میں شامل کر لیا۔دارالحکومت ریاض میں بیٹھے حکمرانوں نے ’حضر موت‘ نامی علاقے پر قبضہ کرنے کی بھی کوششیں شروع کیں۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی سازشیں صرف فوجی طریقے سے یمن کی سرزمین پر قبضے پر ہی ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ سعودی عرب نے یمن کے خلاف خلیج فارس تعاون کونسل کے منصوبے کے تحت اس ملک کو کمزور کرنے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ پاکستان کے لئے دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ دوسروں کی جنگ اپنے ملک نہ لائے۔ ماضی میں اَفغانستان کے تلخ تجربے سے حاصل اسباق پر غوروفکر اور حاصل نتائج سے بہت کچھ سیکھنے‘ سمجھنے اور اپنے وسیع تر مفاد کو عزیز رکھنے کی ضرورت ہے۔

پس تحریر: سال 2014ء کے دوران فلسطین میں قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کی جارحیت اور تخریب کارانہ کاروائیاں اس حد تک زیادہ تھیں کہ اقوام متحدہ نے سالنامہ جاری کرتے ہوئے سال گذشتہ کو فلسطینی عوام کے لئے ’’خونریز سال‘‘ قرار دیا۔ اس سلسلے میں مقبوضہ فلسطین میں انسانی امور کی ہم آہنگی کے دفتر (اوچا) نے اپنی رپورٹ میں جو قاہرہ دفتر سے جاری ہوئی میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی جان‘ آزادی اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1967ء کے بعد فلسطینیوں کے لئے 2014ء بدترین سال تھا۔

 8 جولائی کو صرف غزہ میں صیہونی حکومت کے پچاس روزہ حملے میں کم از کم 2 ہزار300 فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔اس کے علاؤہ فلسطینیوں کے 89ہزار رہائشی مکانات کو بھی نقصان پہنچا‘ جن میں سے پندرہ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت پر مبنی پالیسی بدستور جاری ہے اور آئے دن فلسطینی علاقوں میں مظلوم فلسطینیوں کو خاک و خون میں غلطاں کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صیہونی حکومت کے کردار اور رویئے سے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی جارحیت کے لئے کسی بھی قانون کی پابند نہیں اورمغربی ممالک کی حمایت اور بین الاقوامی اداروں کی ڈرامائی خاموشی کی وجہ سے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے چشم پوشی اور بین الاقوامی کنونشنوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے اور عالمی برادری‘ اسرائیل کے خلاف اقدام کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف بین الاقوامی اداروں کے مختلف اجلاس اور اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے بیانات اور رپورٹوں سے دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کو ایک ایسی حکومت کا سامنا ہے جس کی بنیاد تشدد اور قتل و غارتگری پر استوار ہے۔

 بین الاقوامی حالات سے دکھائی دیتاہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کا موضوع بدستور ان اداروں کے ایجنڈے میں شامل ہے جبکہ صیہونی حکومت کی جارحیت پر عالمی سطح پر ہونے والے ردعمل سے دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے یا رائے عامہ سے چھپانے میں نا کام رہا ہے اور اس کی جارحیتوں کو دنیا کے عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے۔اس قسم کی صورتحال میں عالمی برادری اپنے دوہرے معیار کی پالیسی سے ہٹ کر صیہونی حکومت کے خلاف مؤثر اور عملی اقدام کر سکتی ہے۔ اس لئے کہ رائے عامہ اور فلسطینی عوام عالمی برادری من جملہ علاقائی اور عالمی تنظیموں کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف سخت اقدامات کی توقع رکھتے ہیں تا کہ فلسطینی قوم کے خلاف تسلط پسندی‘ تشدد اور جارحیت کے خلاف عالمی عزم و ارادے کا مشاہدہ کیا جا سکے۔

No comments:

Post a Comment