Lessons of history
تاریخ کے اَسباق
کیا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے؟ کیا اس میں اسباق بھی پوشیدہ ہوتے ہیں؟ جی
ہاں لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ میں پوشیدہ اَسباق کو
زیادہ قابل غور نہیں سمجھتے لیکن تاریخ اپنے آپ کو اِس صورت میں دہراتی ہے
کہ جب ایک جیسے محرکات اور وجوہات و اسباب بار بار پیدا ہوتے ہیں تو ان سے
حاصل شدہ نتائج بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور اسی عمل کے بارے میں کہا
جاتا ہے کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔‘‘ معروف سائنسدان آئن سٹائن نے
خوب کہا تھا کہ ’’خالق کائنات نے اِس زمین کے فیصلے یہیں پر رونما ہونے
والے عوامل میں پوشیدہ کر دیئے ہیں اور وہ کسی بھی معاملے بھی مداخلت نہیں
کرتا۔ انسان اپنی آبادی اور بربادی کے لئے خود ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘
انسان کی معلوم تاریخ ایسے واقعات سے بھری پھری ہے‘ جن کے کردار تو بدل جاتے ہیں لیکن ایک جیسے واقعات اپنے آپ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وجوہات و اسباب نہیں بدلتے۔ یہی کارخانۂ قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی بھی شخص کسی ایک غلطی کو چاہے ایکبار یا بار بار دہرائے گا تو اُس کے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوتے رہیں گے۔ پاکستان ایک پیچیدہ سیاسی و اقتصادی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ اِس بحران کے تانے بانے ہماری ماضی کی اُن غلطیوں سے جا ملتے ہیں‘ جن پر ہمیں کوئی پشیمانی نہیں اور جنہیں سمجھنے کی ہم نے تکلیف بھی گوارہ نہیں کی۔ کسی ایسے ملک کے حالات میں بہتری بھلا کیسے آ سکتی ہے جسے خود اپنے سودوزیاں کا احساس نہ ہو۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے تو اِیسا کرنے کے لئے کسی اضافی قابلیت و مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی آپ کے لئے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ کے ہر ایک واقعہ سے متعلق معلومات رکھیں۔
سابق سوویت یونین ہی کی مثال لیں جو آج ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اگرچہ اُس کے پاس ایک بڑی فوج اور ایک سے بڑھ کر ایک مہلک و جدید ہتھیار موجود تھے۔ وہ خلائی سفر سے لیکر سائنسی علوم کی گہرائیوں سے بھی آشنا تھا اور اُس کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا کیونکہ نہ تو معدنی وسائل کی کمی تھی کہ جس سے حاصل ہونیو الی آمدنی کے بل بوتے پر وہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کو بڑھاتا چلا جاتا لیکن سوویت یونین کی اقتصادی صورتحال عدم توازن کا شکار ہو گئی جسے کیمونزم نہ بچا سکا جو سرمایہ دارانہ نظام کے لئے خطرہ تھا۔ سوویت یونین کے خزانے پر بوجھ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ اپنی فوج کا بوجھ نہ اُٹھا سکا۔ سوویت یونین کی فوج اور خفیہ معلومات جمع کرنے والے اداروں کا مالی بوجھ ہی اُسے لے ڈوبا۔ یہ حقیقت ہمیں بھی سمجھنی ہوگی کہ کسی ملک کی تعمیروترقی کے لئے اُس کے پاس بھرپور دفاعی وسائل ہونا کافی نہیں بلکہ ایسی معیشت و اقتصادیات کی ضرورت ہوتی ہے جو دفاع سمیت دیگر شعبوں میں ضروریات کا بوجھ اُٹھا سکے۔ اگر سوویت یونین کی شکل میں ہمارے سامنے اسباق موجود ہیں تو وہ یہ کہ جنگ کسی بھی صورت معیشت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگر کسی معیشت کو مصنوعی طریقوں اُور سہاروں کے ذریعے اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو یہ پائیدار حل نہیں ہوتا۔
برطانیہ پر نظر ڈالئے۔ ایک وقت تھا کہ جب برطانیہ کے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مشرق سے مغرب تک کے ممالک پر اُس کی حکومت تھی لیکن آج کا برطانیہ چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ برطانیہ یوں زوال پذیر ہوگا۔ اُس کے پاس ایک منظم فوج‘ ایک مضبوط افسرشاہی کا نظام اور صنعتی شعبوں میں ترقی کے وسیع امکانات موجود تھے لیکن وہ تبدیل ہوتے ہوئے سماجی و اقتصادی تقاضوں کو نہ سمجھ سکا۔ اُس کے ارباب اختیار تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مناسب حکمت عملیاں مرتب نہ کرسکے۔ پاکستان کے لئے برطانیہ کی صورتحال میں بھی سبق پوشیدہ ہے کہ اگر وہ جدت پسندی کی طرف مائل نہیں ہوتا‘ اگر وہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے تقاضوں کا ادراک نہیں کرتا تو محض اداروں کی مضبوطی اُس کے خاطرخواہ کام نہیں آ سکتی۔
ہمارے ہردلعزیز دوست ملک چین کی مثال بھی سب کے سامنے ہے جو کہ اگرچہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے لیکن اس نے محض اپنے شاندار ماضی پر فخر نہیں کیا اور صنعتی میدان میں جدید تقاضوں اور ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اپنی افرادی قوت و وسائل کا دانشمندانہ استعمال کیا۔ چین نے ہمیشہ ہی سے تعلیم پر توجہ دی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی ترقی کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس کے ہاں غربت کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے چلے گئے اور وہ ترقی جو انسانی و زمینی ترقی کے لئے ضروری تھی‘ حاصل ہوتی چلی گئی۔ چین میں اگرچہ شخصی آزادی پر پابندیاں عائد ضرور ہیں لیکن اُن کے فیصلہ سازوں نے جس انداز میں اپنے ملک کے لئے ترجیحات کا تعین کرکے ایک قابل عمل حکمت عملی مرتب کی ہے‘ اُس کے نتائج پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے الجھنے کی بجائے اُن سے دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کوششیں کرنی چاہیءں اور سب سے اہم ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنے اِداروں کو مؤثر بنانے کے لئے اُن کی ترقی کے پر توجہ مرکوز کریں۔
(مضمون نگار نجی جامعہ فاسٹ این یو‘ پشاور سے بطور معلم وابستہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: محمد زیب خان۔ تلخیص وترجمہ: شبیر حسین اِمام)
انسان کی معلوم تاریخ ایسے واقعات سے بھری پھری ہے‘ جن کے کردار تو بدل جاتے ہیں لیکن ایک جیسے واقعات اپنے آپ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وجوہات و اسباب نہیں بدلتے۔ یہی کارخانۂ قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی بھی شخص کسی ایک غلطی کو چاہے ایکبار یا بار بار دہرائے گا تو اُس کے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوتے رہیں گے۔ پاکستان ایک پیچیدہ سیاسی و اقتصادی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ اِس بحران کے تانے بانے ہماری ماضی کی اُن غلطیوں سے جا ملتے ہیں‘ جن پر ہمیں کوئی پشیمانی نہیں اور جنہیں سمجھنے کی ہم نے تکلیف بھی گوارہ نہیں کی۔ کسی ایسے ملک کے حالات میں بہتری بھلا کیسے آ سکتی ہے جسے خود اپنے سودوزیاں کا احساس نہ ہو۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے تو اِیسا کرنے کے لئے کسی اضافی قابلیت و مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی آپ کے لئے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ کے ہر ایک واقعہ سے متعلق معلومات رکھیں۔
سابق سوویت یونین ہی کی مثال لیں جو آج ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اگرچہ اُس کے پاس ایک بڑی فوج اور ایک سے بڑھ کر ایک مہلک و جدید ہتھیار موجود تھے۔ وہ خلائی سفر سے لیکر سائنسی علوم کی گہرائیوں سے بھی آشنا تھا اور اُس کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا کیونکہ نہ تو معدنی وسائل کی کمی تھی کہ جس سے حاصل ہونیو الی آمدنی کے بل بوتے پر وہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کو بڑھاتا چلا جاتا لیکن سوویت یونین کی اقتصادی صورتحال عدم توازن کا شکار ہو گئی جسے کیمونزم نہ بچا سکا جو سرمایہ دارانہ نظام کے لئے خطرہ تھا۔ سوویت یونین کے خزانے پر بوجھ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ اپنی فوج کا بوجھ نہ اُٹھا سکا۔ سوویت یونین کی فوج اور خفیہ معلومات جمع کرنے والے اداروں کا مالی بوجھ ہی اُسے لے ڈوبا۔ یہ حقیقت ہمیں بھی سمجھنی ہوگی کہ کسی ملک کی تعمیروترقی کے لئے اُس کے پاس بھرپور دفاعی وسائل ہونا کافی نہیں بلکہ ایسی معیشت و اقتصادیات کی ضرورت ہوتی ہے جو دفاع سمیت دیگر شعبوں میں ضروریات کا بوجھ اُٹھا سکے۔ اگر سوویت یونین کی شکل میں ہمارے سامنے اسباق موجود ہیں تو وہ یہ کہ جنگ کسی بھی صورت معیشت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگر کسی معیشت کو مصنوعی طریقوں اُور سہاروں کے ذریعے اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو یہ پائیدار حل نہیں ہوتا۔
برطانیہ پر نظر ڈالئے۔ ایک وقت تھا کہ جب برطانیہ کے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مشرق سے مغرب تک کے ممالک پر اُس کی حکومت تھی لیکن آج کا برطانیہ چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ برطانیہ یوں زوال پذیر ہوگا۔ اُس کے پاس ایک منظم فوج‘ ایک مضبوط افسرشاہی کا نظام اور صنعتی شعبوں میں ترقی کے وسیع امکانات موجود تھے لیکن وہ تبدیل ہوتے ہوئے سماجی و اقتصادی تقاضوں کو نہ سمجھ سکا۔ اُس کے ارباب اختیار تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مناسب حکمت عملیاں مرتب نہ کرسکے۔ پاکستان کے لئے برطانیہ کی صورتحال میں بھی سبق پوشیدہ ہے کہ اگر وہ جدت پسندی کی طرف مائل نہیں ہوتا‘ اگر وہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے تقاضوں کا ادراک نہیں کرتا تو محض اداروں کی مضبوطی اُس کے خاطرخواہ کام نہیں آ سکتی۔
ہمارے ہردلعزیز دوست ملک چین کی مثال بھی سب کے سامنے ہے جو کہ اگرچہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے لیکن اس نے محض اپنے شاندار ماضی پر فخر نہیں کیا اور صنعتی میدان میں جدید تقاضوں اور ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اپنی افرادی قوت و وسائل کا دانشمندانہ استعمال کیا۔ چین نے ہمیشہ ہی سے تعلیم پر توجہ دی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی ترقی کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس کے ہاں غربت کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے چلے گئے اور وہ ترقی جو انسانی و زمینی ترقی کے لئے ضروری تھی‘ حاصل ہوتی چلی گئی۔ چین میں اگرچہ شخصی آزادی پر پابندیاں عائد ضرور ہیں لیکن اُن کے فیصلہ سازوں نے جس انداز میں اپنے ملک کے لئے ترجیحات کا تعین کرکے ایک قابل عمل حکمت عملی مرتب کی ہے‘ اُس کے نتائج پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے الجھنے کی بجائے اُن سے دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کوششیں کرنی چاہیءں اور سب سے اہم ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنے اِداروں کو مؤثر بنانے کے لئے اُن کی ترقی کے پر توجہ مرکوز کریں۔
(مضمون نگار نجی جامعہ فاسٹ این یو‘ پشاور سے بطور معلم وابستہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: محمد زیب خان۔ تلخیص وترجمہ: شبیر حسین اِمام)
![]() |
Lesson from history from The News dated March 28th, 2015 http://editorialst.blogspot.com/2015/03/translation-lessons-of-history.html |
No comments:
Post a Comment