Sunday, March 29, 2015

Mar2015: Valued reforms in Health

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بامعنی اِصلاحات
صحت و تعلیم کے شعبوں میں ’اَیک سے بڑھ کر ایک‘ سنگ میل عبور کرنے والی خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری علاج گاہوں کے قیام جیسے بنیادی مقصد کی تکمیل کر دی ہے اور شام کے اُوقات میں ہسپتالوں سے اِستفادہ کرنے والوں کے لئے طبی سہولیات میں وسعت کا مرحلہ وار فیصلہ کیا ہے جس سے چھوٹے بڑے سبھی اَضلاع مستفید ہوں گے۔اٹھائیس مارچ کو ایبٹ آباد میں مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت شہرام تراکئی نے ’صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات اُور اُس عزم کی تجدید کی‘ جو تحریک انصاف نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل کے لئے رکھتی ہے۔ اِس موقع پر تحریک اِنصاف کے قائدین بشمول رکن قومی اِسمبلی ڈاکٹر محمد اَظہر خان جدون اُور صوبائی وزیراطلاعات مشتاق اَحمد غنی بھی موجود تھے‘ جنہوں نے مختلف مواقعوں پر تحریک انصاف کے اصلاحاتی ایجنڈے کے خدوخال پر روشنی ڈالی۔

صحت کے حوالے سے نئی حکمت عملی کے تحت نجی شعبے سے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جس کے تحت شام کے اوقات میں ہر ہسپتال کی ’اُو پی ڈی‘ دو میڈیکل آفیسرز اُور اُن کی نگرانی کرنے والے سینیئر ڈاکٹر (ایسوسی ایٹ پروفیسر) کے سپرد ہوگی جو میڈیکل‘ سرجیکل‘ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق شعبوں میں طبی سہولیات فراہم کریں گے۔ اس سلسلے میں متعلقہ ہسپتال لائحہ عمل ارسال کریں گے اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ عمل ’سرخ فیتے‘ کی نذر نہیں ہوگا۔

خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات کو وسعت دینا حکمراں جماعت ’تحریک انصاف‘ کے انتخابی منشور کا حصہ تھا‘ جس پر اگر حسب اعلان اور بروقت عمل درآمد ہو جاتا ہے‘ تو اس سے ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہوجاتی لیکن دیر آئد درست آئد‘ اگر تعلیم کے بعد صحت کے شعبے میں اصلاحات عملی طور پر دیکھنے میں آتی ہیں تو یہ اقدام موجودہ حکومت کو ’سرخرو‘ کرنے کے لئے کافی ہو گا جو پہلے ہی کافی وقت‘ سرمایہ اور انتظامی وسائل نظام کو سمجھنے اور انتخابات میں ہوئی دھاندلی کو منوانے کی نذر کرچکی ہے کیونکہ صحت و تعلیم کے دو شعبوں کی زبوں حالی کے سبب عام آدمی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور یہی ہر دور حکومت میں چلینج رہا ہے لیکن جس ایک بات پر سب سے کم توجہ دی گئی وہ ’سہولیات کا معیار‘ ہے اور اِسی تسلی بخش معیار کے لئے نجی علاج گاہوں سے رجوع کرنے کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اِدارے اُور علاج گاہوں میں موجود جدید سے جدید سہولیات بھی ناکارہ کر دی گئیں جبکہ نجی شعبے میں کم سے کم سہولیات سے بھی بھرپور اِستفادہ ہونے لگا۔ جب تک صحت و تعلیم سے ایسے عناصر اور غالب سوچ نتیجہ کی تطہیر نہیں کی جاتی جو سرکاری وسائل کی لوٹ مار کو جائز تصور کرتا ہے‘ اُس وقت تک اصلاحات معنی خیز نہیں ہوں گی اور ایک خاص سیاسی طبقہ موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کے لئے الگ سے فعال ہے‘ جن کی حرکتوں پر خندہ زنی کی بجائے سخت گیر معاملہ کرنا ہوگا۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ سرکاری علاج گاہیں سرشام ویران جبکہ نجی علاج گاہیں سورج غروب ہونے سے پہلے ہی آباد ہو جاتی ہیں۔ طب کے مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی حرص و طمع کے باعث کم مالی وسائل رکھنے والوں سے شفایابی کا حق بھی چھین لیا‘ جس کا فائدہ غیرمستند معالجین اور ادویات ساز اداروں نے خوب اُٹھایا۔ اُمید ہے سرکاری ہسپتالوں کے معاملات اور سمت درست کرنے کے بعد ایسے غیرمستند معالجین‘ تجزیہ گاہوں اور اَدویہ فروشوں کے خلاف بھی قواعد کے مطابق کاروائی کی جائے گی‘ جو عام آدمی کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت جس انداز میں نپی تلی ترقیاتی حکمت کو آگے بڑھا رہی ہے‘ اُس کی باریکیوں کا ادراک تجربہ کاروں اور پارلیمانی اَمور کے تجربہ کار سیاسی کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہو رہا جو واویلا کر رہے ہیں کہ ترقیاتی بجٹ خرچ کرنے میں حکومت کی نااہلی ثابت ہوئی ہے حالانکہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ ماضی میں ترقیاتی حکمت عملیاں تشکیل و مرتب کرنے والوں کے نجی کاروباری مفادات اِنہیں منصوبوں پر منحصر ہوتے تھے اور اِسی بنیاد پر ہر انتخاب میں سرمایہ کاری کی جاتی تھی کہ کامیابی کے بعد ’کل خرچ بمعہ خطیر منافع‘ کما لیا جائے گا لیکن کئی ایک مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا خاتمہ یکے بعد دیگرے کرنے میں جس تحمل‘ بردباری اُور مستقل مزاجی سے کام لیا گیا‘ اُس میں احتیاط کو غیرضروری اہمیت دی گئی اور یہی سبب تھا کہ مخالفین کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ہاتھ آیا۔ یقیناًبدعنوانی سے پاک اور روائتی ترقی کی بجائے اصلاحاتی ترقی کے عمل سے مثبت نتائج اگرچہ فوری نہ سہی لیکن عیاں ضرور ہوں گے۔ جیسا کہ ہسپتالوں اور تعلیمی اِداروں میں معالجین و اَساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے ’بائیو میٹرک سسٹم‘ متعارف کرایا گیا ہے اور اب ملازمین کی وقت پر حاضری و رخصتی کے اوقات میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر قابو پانا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا لیکن یہاں ایک مسئلہ آمدنی کے وسائل کی غیرمنصافانہ و غیرعادلانہ تقسیم کا بھی ہے جو وفاقی معاملہ ہے اور اگر صوبائی حکومت اپنے طور پر بہتری کے لئے جس قدر اقدامات بھی کرلے‘ اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

مثال کے طور پر مالی سال 1994-95ء کے دوران ملک کی 20فیصد آبادی ایسی تھی جو کم ترین آمدنی رکھنے والے بیس فیصد افراد سے دوگنا زیادہ کما رہی تھی لیکن آمدنی کا یہ فرق مالی سال 2010-11ء میں بڑھ کر تین گنا ہوگیا اور ہر مالی سال اِس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو حاصل ہونے والی کل آمدنی میں محصولات (ٹیکسوں) وصولیوں کا حجم 10 فیصد ہے‘ جس کا بڑا حصہ براہ راست ٹیکسوں کی صورت ایسے طبقات سے سے وصول کیا جا رہا ہے‘ جن کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔

اُمید کی جا سکتی ہے کہ چھبیس مارچ کو صوبائی سطح پر 40 ارب روپے سے زائد کی جس ترقیاتی حکمت عملی کی منظوری دی گئی اس میں صحت‘ تعلیم‘ ثانوی اعلیٰ تعلیم‘ بلدیاتی نظام‘ توانائی‘ آبپاشی اور مواصلات کی ترقی کے ساتھ‘ معاشی انصاف‘ آمدنی کے لحاظ سے ٹیکسوں کی منصفانہ وصولی پر غور‘ غربت کے خاتمے اُور خیبرپختونخوا میں روزگار کے ’پائیدار مواقع‘ پیدا کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ زرعی شعبہ بالخصوص جنوبی اَضلاع میں تیلدار اَجناس کی کاشتکاری سے متعلق تحقیق اور اس سلسلے حکومتی سرپرستی کی اَشد ضرورت ہے‘ تاکہ اصلاحاتی کوششیں زیادہ مفید و بامعنی بنائی جا سکیں۔
Valued and much awaited reforms in health sector of KP

No comments:

Post a Comment