Sunday, March 29, 2015

Mar2015: TRANSLATION: Post-raid Karachi

Post-raid Karachi
منظرنامہ: بعدازکراچی صورتحال
متحدہ قومی موومنٹ کے لئے یہ مرحلہ تفکر اُور اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہے کہ آخر اُن کے بارے پورے پاکستان میں یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے ملک کے سب سے بڑے کاروباری مرکز کراچی پر اپنا سیاسی تسلط برقرار رکھنے کے لئے ’سیاست و جرائم‘ کو یکجا کر دیا ہے۔ اِس بارے میں بھی تعجب کا اظہار نہیں کیا گیا جب متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی میں صدر دفتر ’نائن زیرو‘ سے بھاری مقدار میں جدید و مہلک اسلحہ برآمد ہوا۔ پورے ملک میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آہنی ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے کراچی کو جرائم پیشہ گروہوں اور اِن گروہوں کی پشت کرنے والی سیاسی طاقتوں کے چنگل سے آزاد کرایا جائے جو نسلی لسانی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر ہر اِنتہاء تک جانے کی سوچ رکھتے ہیں۔

گیارہ مارچ کے روز رینجرز نے ’نائن زیرو‘ میں قائم دفاتر اور ملحقہ عمارتوں کی تلاشی لی۔ یہ ایک انتہائی غیرمتوقع کاروائی تھی جس کے بارے میں خودساختہ جلاوطنی اِختیار کئے ہوئے متحدہ کے سربراہ الطاف حسین سمیت اُن کی جماعت کے دیگر لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ’نائن زیرو‘ اَلطاف کا آبائی گھر ہے‘ جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا چھاپہ ناقابل تصور تھا اور یہی وجہ رہی ہوگی کہ قانون کو انتہائی مطلوب افراد اِس مقام کو روپوش رہنے کے لئے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہوں گے۔

الطاف حسین کا یہ مؤقف کہ اُن کی آبائی رہائشگاہ پر کسی صورت چھاپہ نہیں مارا جانا چاہئے تھا ایک غیرمنطقی بات ہے کیونکہ عرصہ دراز سے اُن کی رہائش گاہ پارٹی کے صدر دفتر کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور وہاں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں پارٹی کارکنوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کسی شخص کی رہائشگاہ ہونے جیسا ماحول ہمیں نائن زیرو میں دکھائی نہیں دیتا جہاں ملک کی اعلیٰ شخصیات دورہ کرتی رہتی ہیں اور وہیں متحدہ و دیگر جماعتوں کے درمیان باضابطہ ملاقاتیں اور خیرسگالی کے دوروں کے مواقعوں پر استقبالیہ تقاریب کا انعقاد بھی ایک معمول کی بات رہی ہے۔ متحدہ تو اِس بات کا تذکرہ اپنے لئے فخر اور اعزاز سمجھ کر کرتی رہی ہے کہ اُن کے صدر دفتر (نائن زیرو) ملک کے صدور‘ وزیراعظم‘ گورنر صاحبان‘ وزرائے اعلیٰ اور انتہائی اہم شخصیات بشمول سفارتکار آتے رہے ہیں۔ 1990ء سے 2002ء کے دوران ابھرنے والی پارلیمانی طاقت کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ کراچی و حیدر آباد کے شہری علاقوں میں اپنے حمایتی رکھتی ہے اور اِسی حمایت کے بل بوتے پر وہ عام انتخابات میں نشستیں حاصل کرکے قانون سازایوانوں میں اپنی اہمیت جتاتی رہی ہے‘ جس کی بناء پر سندھ میں حکومت سازی کرنے والی سیاسی جماعتوں اور مرکز اور اُن سے ہاتھ ملانا ہی پڑتا تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ وہ زیادہ عرصہ اقتدار سے الگ نہیں رہ سکتی یعنی متحدہ ایک ایسی جماعت ہے جو ہرحال میں اقتدار کا حصہ رہنی چاہتی ہے۔ اِس تاثر کو تقویت متحدہ کی مختلف سیاسی ادوار میں حکومت کا حصہ بننے اور الگ ہونے کے پے در پے واقعات ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا فوج دور حکومت متحدہ قومی موومنٹ کے لئے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوا‘ جب اُنہوں نے کراچی کی تعمیروترقی کے لئے مالی وسائل فراہم کئے اور اُس وقت متحدہ سے تعلق رکھنے والے مصطفی کمال میئر تھے‘ لیکن متحدہ نے مخلوط حکومتوں کے ساتھ بھی اتحاد کرکے فوائد اُٹھائے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول کے لئے ملنے والا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے معاملات کی براہ راست نگرانی الطاف حسین کرتے ہیں جو 1992ء سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور جب گیارہ مارچ کی الصبح عزیزآباد کراچی کے علاقے میں واقع ’نائن زیرو‘ نامی مکان پر رینجرز نے چھاپہ مارا تو اِس بات پر متحدہ کی مرکزی و مقامی قیادت کو کتنا دھچکا لگا ہو گا‘ اِس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔18 مارچ 1984ء میں جب سے الطاف حسین نے سیاست کا آغاز کیا‘ اُن کی زندگی میں کئی ایک ایسے لمحات آئے جب انہیں انتہائی غیض و غضب میں مبتلا پایا گیا اور کئی ایک مواقعوں پر انہوں نے جارحانہ طرز مخاطب کی بجائے مصالحت آمیز رویہ بھی اختیار کیا جبکہ اُنہیں اپنی پوزیشن قدرے کمزور دکھائی دی۔ گیارہ مارچ کے چھاپے سے متعلق اُن کا ابتدائی ردعمل یہ سامنے آیا کہ رینجرز حکام برآمد کیا گیا اسلحہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ بعدازاں اُن کی جماعت کے اراکین یہ دعویٰ کرنے لگے کہ جو اسلحہ برآمد کیا گیا ہے وہ لائسینس یافتہ ہے اُور اسے ’نائن زیرو‘ کے مقام پر حفظ ماتقدم کے طور پر چھپا کر رکھا گیا تھا کیونکہ اُنہیں عسکریت پسندوں کے حملوں کا خطرہ لاحق ہے۔ متحدہ کی جانب سے پولیس کو 105 اسلحہ لائسینس دیئے گئے ہیں اور ان میں سے بہت سا اسلحہ متحدہ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے ناموں پر ہیں۔ اس مرحلے پر یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے اگر یہ اسلحہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز کے ناموں پر رجسٹرڈ ہے تو پھر کی رہائشگاہوں پر کیوں نہیں رکھا گیا اور اسے ’نائن زیرو‘ میں کیوں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ کیا جن لوگوں نے یہ اسلحہ اپنے ناموں پر لائسینس کروایا تھا اُنہیں حفاظت کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ صورتحال ہمیں ماضی کی ایک حکومت کی غیرمحتاط حکمت عملی کا پتہ دیتی ہے جبکہ جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اسلحہ لائسینس جاری کئے گئے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے کا ’نائن زیرو‘ پر چھاپے سے صرف اسلحہ ہی نہیں بلکہ کئی ایک انتہائی مطلوب افراد بھی گرفتار ہوئے جن میں صولت مرزا بھی شامل تھے۔ اپنی پھانسی سے قبل اُن کے اعتراف جرم پر مبنی ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا اور متحدہ کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی مچھ جیل میں سزائے موت کا انتظار کرنے والے صولت مرزا کی ویڈیو غیرقانونی طورپر بنائی گئی لیکن پاکستان جیسے ملک کی جیلوں میں اِس سے کئی گنا زیادہ انہونی قسم کے واقعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔

کراچی کے موجودہ حالات سے اگر سیاست کو الگ کرکے دیکھا جائے تو سردست ضرورت صوبہ سندھ میں غیرجانبدار گورنر تعینات کرنے کی ہے۔ درحقیقت دیگر صوبوں میں بھی گورنروں کی تبدیلی اور اُن کی جگہ غیرجانبدار و اچھی ساکھ رکھنے والوں کو تعینات کیا جانا چاہئے لیکن گورنر سندھ کی فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عشرت العباد گذشتہ 13 برس سے گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اِس عہدے پر جوں کے توں برقرار رہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اُن کے حوالے سے منظرعام پر آنے والے حقائق اور صولت مرزا کے بیانات کے بعد وہ اپنے عہدے سے ازخود مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور پاکستان میں طاقت کے جملہ مراکز بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں گورنری کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی بجائے وہ خود مستعفی ہو جائیں۔ سالہا سال سے عشرت العباد الطاف حسین اور پاکستان کی دیگر متعلقہ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطہ کار کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی اِس عہدے پر برقرار ہیں لیکن چونکہ اب ایسے سیاسی رابطوں کی اہمیت وضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا اُن کے بطور گورنر سندھ عہدے پرفائز رہنے کاکوئی منطقی جواز بھی دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان میں انتظامی و سیاسی عہدوں کو اپنی ذات کے محور سے باندھنے میں سب سے زیادہ منفی کردار آصف علی زرداری نے ادا کیا‘ جنہوں نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن ہوتے ہوئے ملک کے صدر کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا اور ایوان صدر کے وسائل کو جماعتی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا۔ اُن کے مقرر کردہ گورنروں کی اکثریت بھی سیاسی وابستگیاں رکھتی تھی جنہوں نے اپنے عہدوں و ذمہ داریوں سے انصاف برتنے کی بجائے اپنی اپنی سیاسی جماعت کی قیادت سے تعلق اور اُن کی خواہشات کی تکمیل کو زیادہ مقدم رکھا۔ پاکستان میں جہاں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ سیاست اور جرائم کے درمیان تعلق کا خاتمہ ہونا چاہئے وہیں یہ اِس روایت کے خاتمے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ سیاسی کردار ملک کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر عوام کی بے لوث خدمت اور آئین کے مطابق ملک چلانے میں اپنی تمام تر توجہ اُور حکمت و دانش سے کام لیں۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
Post riad Karachi

No comments:

Post a Comment