ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شکوک و شبہات!
شکوک و شبہات!
توانائی بحران ہمیں دو طرح سے جھنجوڑ رہا ہے۔ ایک تو ایندھن کے دستیاب
وسائل ضرورت کے مقابلے کم ہیں‘ جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے کاروبار‘ صنعتیں یا
پیداواری یونٹ اپنی استعداد کے مطابق پیداوار نہیں دے پا رہے جس سے ملک کی
داخلی معیشت اور برآمدات کا عمل متاثر ہو رہا ہے اُور روزگار کے مواقع الگ
سے کم ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب برآمدات کے سودے (حسب وعدہ) بروقت پورے
نہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں پاکستان پر انحصار نہ کرنے کے اشاریئے
عام ہیں۔ پیداوار کم ہونے کے علاؤہ ’مہنگے داموں ایندھن کی خریداری‘ کا
بوجھ صارفین کو منتقل ہونے سے پیداواری اخراجات اِس حد تک بڑھ چکے ہیں جو
ایک طرف تو عام آدمی کی قوت خرید کے مطابق نہیں اور دوسری جانب عالمی
منڈیوں میں پاکستان کی تیارکردہ مصنوعات کی مقابلتاً زیادہ قیمتوں کی وجہ
سے خسارے کا باعث ہیں۔ توانائی وسائل کی کمی اور غیرمنطقی بھاری قیمت جیسے
محرکات کا ذمہ دار ماضی ہی کی طرح فیصلہ سازوں کا وہ طبقہ ہے جو توانائی کے
موجودہ بحران سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ذاتی فائدے کو ترجیح بنائے ہوئے ہے۔
رواں ماہ قطر سے ’مائع گیس (ایل این جی)‘ درآمد کرنے کا معاہدہ کیا گیا‘ اُور اِس سودے کی تفصیلات ’کمال رازداری‘ سے طے کرنے والوں کو اِس بات کی بھی قطعی کوئی پرواہ نہیں کہ شفافیت کے بناء ہوئی اِس مشکوک خریداری سے متعلق ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی مالی بددیانتی ’ایل این جی‘ خریداری کا یہی سودا ہوگا کیونکہ اپریل کے پہلے یا دوسرے ہفتے بحری جہاز کراچی کی قاسم بندرگاہ پہنچے گا لیکن قوم کے سامنے نہ تو اُس معاہدے کی طے شدہ شرائط کی تفصیلات موجود ہیں اور نہ ہی درآمد ہونے والی گیس کی قیمت یا مصرف کیا ہوگا‘ اِس بارے ہی کچھ بتانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان مائع گیس کی خریداری کے لئے بات چیت کے کئی دور موجودہ وفاقی حکومت سے قبل کئے گئے لیکن جون دو ہزار تیرہ کے بعد موجودہ وفاقی حکومت نے مائع گیس کی خریداری کی شرائط و قیمت سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دی۔
مائع گیس کی قطر سے خریداری ایک راز ہی رہتی اگر مارچ کے پہلے ہفتے وفاقی وزیر پیٹرولیم صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اچانک یہ نہ کہہ دیتے کہ ’’توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے مائع گیس درآمد کی جا رہی ہے جس کی پہلی کھیپ آئندہ چند ہفتوں پاکستان پہنچ جائے گی۔‘‘ اِس سے قبل اطلاعات ضرور تھیں کہ حکومت مائع گیس درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اُور وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ شاہد خاقان عباسی قطر کا سرکاری دورہ بھی کر چکے ہیں لیکن جب معاہدے کی تفصیلات سے قبل مائع گیس کے پاکستان پہنچنے کی بات سامنے آئی تو سب کی آنکھیں پھیل گئیں۔ شفاف طرز حکمرانی کے قیام کے لئے کوشاں ایک غیرسرکاری ادارے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے سترہ مارچ کو وفاقی حکومت کے نام ایک خط میں لکھا کہ ’’22ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ خریداری کے آئین و قواعد میں درج مقررہ کردہ اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ قطر سے کئے جانے والے مائع گیس کی خریداری کے اِس معاہدے سے متعلق مشاورت ایک برطانوی ادارے سے کی گئی جس نے تجویز کیا کہ ’’چونکہ عالمی مارکیٹ میں مائع گیس کی قیمتوں میں ردوبدل رہتا ہے‘ اِس لئے عرصہ 2 سال سے زیادہ کے لئے خریداری کا معاہدہ نہ کیا جائے لیکن پاکستان اسٹیٹ آئل کے منیجنگ ڈائریکٹر نے مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ 15 برس کے لئے کیا! یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’’خام گیس کی قیمت 14.4 ڈالر (بحساب برینٹ) جبکہ اضافی 0.65 ڈالر ترسیلی اخراجات طے کی گئی جبکہ چند برس قبل ہوئے ایک سودے کی مثال موجود تھی جس میں بھارت نے 11 ڈالر اُور 0.4فیصد ترسیلی اخراجات کے عوض مائع گیس خریداری کا سودا طے کیا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات میں مائع گیس کی خریداری کا سودا کرنے والے ’پاکستان اسٹیٹ آئل‘ کے قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے متعلق بھی سوال اُٹھایا گیا ہے جنہیں مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی وجہ سے بیرسٹر ظفر کی قیادت میں بننے والی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے ’بورڈ آف گورنرز‘ سمیت برطرف کرنے کی سفارش کی تھی! ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ عادل گیلانی سے ہوئی ٹیلیفونک بات چیت کے دوران اُنہوں نے اِس معاہدے کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑا بددیانتی و بدعنوانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’بائیس ارب کی خریداری کرتے ہوئے مائع گیس کے دیگر فراہم کنندگان سے قیمتیں (ٹینڈر) طلب ہی نہیں کی گئیں!‘‘
وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اُنہیں ’ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل‘ کی جانب سے اعتراضات پر مبنی مکتوب تاحال وصول نہیں ہو سکا‘ لیکن اُنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر کسی ادارے کی جانب سے مائع گیس کی خریداری پر سوالات اُٹھائے بھی گئے ہیں تو اُن کے تسلی بخش جوابات دیئے جائیں گے۔ انہوں نے ایسے کسی امکان کو بھی رد کیا‘ جو معاہدے میں مالی بدعنوانیوں سے متعلق تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’’مائع گیس کی خریداری کے بارے ہوئے معاہدے کی تمام تر تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی‘‘ لیکن جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ جناب معاہدہ تو طے پا چکا ہے‘ مائع گیس بھی پہنچنے والی ہے تو آخر کب تک معاہدے کے خدوخال‘ مائع گیس سے استفادے اور قیمت کے بارے میں تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی؟ تو اُن کا جواب آنے سے پہلے ہی فون کال منقطع ہوگئی! اُور باوجود کوشش بھی اُن سے دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا!
رواں ماہ قطر سے ’مائع گیس (ایل این جی)‘ درآمد کرنے کا معاہدہ کیا گیا‘ اُور اِس سودے کی تفصیلات ’کمال رازداری‘ سے طے کرنے والوں کو اِس بات کی بھی قطعی کوئی پرواہ نہیں کہ شفافیت کے بناء ہوئی اِس مشکوک خریداری سے متعلق ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی مالی بددیانتی ’ایل این جی‘ خریداری کا یہی سودا ہوگا کیونکہ اپریل کے پہلے یا دوسرے ہفتے بحری جہاز کراچی کی قاسم بندرگاہ پہنچے گا لیکن قوم کے سامنے نہ تو اُس معاہدے کی طے شدہ شرائط کی تفصیلات موجود ہیں اور نہ ہی درآمد ہونے والی گیس کی قیمت یا مصرف کیا ہوگا‘ اِس بارے ہی کچھ بتانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان مائع گیس کی خریداری کے لئے بات چیت کے کئی دور موجودہ وفاقی حکومت سے قبل کئے گئے لیکن جون دو ہزار تیرہ کے بعد موجودہ وفاقی حکومت نے مائع گیس کی خریداری کی شرائط و قیمت سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دی۔
مائع گیس کی قطر سے خریداری ایک راز ہی رہتی اگر مارچ کے پہلے ہفتے وفاقی وزیر پیٹرولیم صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اچانک یہ نہ کہہ دیتے کہ ’’توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے مائع گیس درآمد کی جا رہی ہے جس کی پہلی کھیپ آئندہ چند ہفتوں پاکستان پہنچ جائے گی۔‘‘ اِس سے قبل اطلاعات ضرور تھیں کہ حکومت مائع گیس درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اُور وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ شاہد خاقان عباسی قطر کا سرکاری دورہ بھی کر چکے ہیں لیکن جب معاہدے کی تفصیلات سے قبل مائع گیس کے پاکستان پہنچنے کی بات سامنے آئی تو سب کی آنکھیں پھیل گئیں۔ شفاف طرز حکمرانی کے قیام کے لئے کوشاں ایک غیرسرکاری ادارے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے سترہ مارچ کو وفاقی حکومت کے نام ایک خط میں لکھا کہ ’’22ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ خریداری کے آئین و قواعد میں درج مقررہ کردہ اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ قطر سے کئے جانے والے مائع گیس کی خریداری کے اِس معاہدے سے متعلق مشاورت ایک برطانوی ادارے سے کی گئی جس نے تجویز کیا کہ ’’چونکہ عالمی مارکیٹ میں مائع گیس کی قیمتوں میں ردوبدل رہتا ہے‘ اِس لئے عرصہ 2 سال سے زیادہ کے لئے خریداری کا معاہدہ نہ کیا جائے لیکن پاکستان اسٹیٹ آئل کے منیجنگ ڈائریکٹر نے مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ 15 برس کے لئے کیا! یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’’خام گیس کی قیمت 14.4 ڈالر (بحساب برینٹ) جبکہ اضافی 0.65 ڈالر ترسیلی اخراجات طے کی گئی جبکہ چند برس قبل ہوئے ایک سودے کی مثال موجود تھی جس میں بھارت نے 11 ڈالر اُور 0.4فیصد ترسیلی اخراجات کے عوض مائع گیس خریداری کا سودا طے کیا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات میں مائع گیس کی خریداری کا سودا کرنے والے ’پاکستان اسٹیٹ آئل‘ کے قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے متعلق بھی سوال اُٹھایا گیا ہے جنہیں مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی وجہ سے بیرسٹر ظفر کی قیادت میں بننے والی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے ’بورڈ آف گورنرز‘ سمیت برطرف کرنے کی سفارش کی تھی! ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ عادل گیلانی سے ہوئی ٹیلیفونک بات چیت کے دوران اُنہوں نے اِس معاہدے کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑا بددیانتی و بدعنوانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’بائیس ارب کی خریداری کرتے ہوئے مائع گیس کے دیگر فراہم کنندگان سے قیمتیں (ٹینڈر) طلب ہی نہیں کی گئیں!‘‘
وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اُنہیں ’ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل‘ کی جانب سے اعتراضات پر مبنی مکتوب تاحال وصول نہیں ہو سکا‘ لیکن اُنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر کسی ادارے کی جانب سے مائع گیس کی خریداری پر سوالات اُٹھائے بھی گئے ہیں تو اُن کے تسلی بخش جوابات دیئے جائیں گے۔ انہوں نے ایسے کسی امکان کو بھی رد کیا‘ جو معاہدے میں مالی بدعنوانیوں سے متعلق تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’’مائع گیس کی خریداری کے بارے ہوئے معاہدے کی تمام تر تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی‘‘ لیکن جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ جناب معاہدہ تو طے پا چکا ہے‘ مائع گیس بھی پہنچنے والی ہے تو آخر کب تک معاہدے کے خدوخال‘ مائع گیس سے استفادے اور قیمت کے بارے میں تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی؟ تو اُن کا جواب آنے سے پہلے ہی فون کال منقطع ہوگئی! اُور باوجود کوشش بھی اُن سے دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا!
![]() |
Biggest financial scam of the Pakistan's history! The LNG purchase |
No comments:
Post a Comment