Monday, March 30, 2015

Mar2015: TRANSLATION Economic terrorism

Economic terrorism
اِقتصادی دہشت گردی
پاکستان کے مالی وسائل کو نچوڑ کھانے والے صرف 200 خاندان ملک کی 18 کروڑ سے زائد عوام کی تنگدستی کے لئے ذمہ دار ہیں! دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جمہوری نظام حکومت رائج ہے‘ وہ اِس طرح کے ’اقتصادی استحصال جسے دہشت گردی کہنا چاہئے‘ کے خلاف نبردآزما ہیں اور باقاعدہ جنگ جیسی حکمت عملی کے تحت ملک کے مالی وسائل کی منصافانہ تقسیم کو ممکن بنانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اِس کے برعکس ہے اور ہماری حکومت اقتصادی ناہمواریوں کو نہ صرف درست کرنے کی روادار نہیں بلکہ وہ اس کے خلاف جنگ یا جدوجہد کی بجائے اِس کی حمایت بنی ہوئی ہے!

تصور کیجئے کہ گذشتہ 10 برس (ایک دہائی) کے دوران پاکستان میں پیدا ہونے والے کل سرمائے کا 90 فیصد حصہ آبادی کے صرف 2 فیصد حصے میں تقسیم ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی ’خط غربت سے نیچے‘ یعنی 2 ڈالر یومیہ سے کم آمدنی رکھتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ 11 کروڑ پاکستان 200 روپے یومیہ یا اِس سے کم آمدنی پر گزربسر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والی یہ ’مادرپدر آزاد‘ (بے قابو) بدعنوانی ہی تلخ حقیقت نہیں بلکہ امن و امان کو لاحق خطرات اور دہشت گرد واقعات بھی دردسر ہیں۔ سال 2014ء کے دوران ہوئے پرتشدد دہشت گرد واقعات میں کل 5 ہزار 496 افراد قتل ہوئے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ گذشتہ 15 برس کے دوران پاکستان میں فرقہ واریت کے 2 ہزار 979 واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن میں کل 5 ہزار 59 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں اُور 9 ہزار 713 دیگر زخمی ہوئے۔

اقتصادی دہشت گردی کے سبب پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگیاں شدید مشکلات سے گزر رہی ہیں۔ ملک کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کی صورتحال مثالی ہو۔ توانائی کے پیداواری نظام پر نگاہ ڈالئے۔ ملک میں کم و بیش 2کروڑ بجلی کے کنکشن ہیں اور بجلی پیدا کرنے والے دو درجن نجی ادارے فعال ہیں۔ اِن نجی بجلی گھروں نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ پندرہ فیصد منافع پر بجلی فراہم کریں گے لیکن وہ سالانہ 42 فیصد منافع کی شرح سے کما رہے ہیں۔ اقتصادی دہشت گردی کی اِس صورتحال سے پاکستان کے 10کروڑ افراد متاثر ہو رہے ہیں جنہیں غیرمہلک طریقۂ واردات سے سالانہ 400 ارب روپے کا ٹیکہ ہر سال لگ رہا ہے۔

اقتصادی دہشت گردی بینکاری کے شعبے میں بھی عیاں ہے۔ ملک کے نجی شعبے میں 32 بینک ہیں اور 1کروڑ پاکستانیوں کے بینک اکاونٹس ہیں۔ تصور کیجئے کہ نواز حکومت میں ایک بینک کی نجکاری ہوئی جو اپنی سرمایہ کاری کے تناسب سے سالانہ 30فیصد منافع کما رہا تھا۔ یہ عمل بھی اقتصادی دہشت گردی ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جس سے 1 کروڑ پاکستانی متاثر ہورہے ہیں۔ اِس غیرمہلک طریقۂ واردات کے ذریعے بینکیں کھاتہ داروں سے ہر سال 300 ارب روپے کما رہی ہیں!

تیل کے شعبے میں اقتصادی دہشت گردی کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کی اِس صنعت کے 9 اہم رکن ہیں۔ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ پاک عرب ریفائنری (پارکو)‘ اٹک ریفائنری لمیٹیڈ (اے آر ایل)‘ اٹک پیٹرولیم‘ نیشنل ریفائنری لمیٹیڈ (این آر ایل)‘ پاکستان ریفائنری (پی آر ایل)‘ شیوران کالٹیکس‘ شیل پاکستان اور ٹوٹل پارکو۔ تصور کیجئے کہ اِن تیل صاف کرنے والی صنعتوں کے منافع کی شرح دنیا کی دیگر ایسی ہم عصر صنعتوں کے مقابلے دوگنی سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ ادارے مجموعی طور پر سالانہ 54ارب روپے صرف ’ڈیمڈ ڈیوٹی‘ (Deemed Duty) کی مد میں کما رہے ہیں۔ یہ اقتصادی دہشت گردی ہے جس سے 18 کروڑ پاکستانی متاثر ہو رہے ہیں اور اِس غیرمہلک طریقۂ واردات کی وجہ سے عوام کو سالانہ 150 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

سیمینٹ بنانے والے ادارے بھی ’اقتصادی دہشت گردی‘ میں اپنی مثال آپ ہیں جس کے کل 21 رکن ہیں اور انہیں سالانہ مجموعی فروخت سے 100ارب روپے حاصل ہوتے ہیں۔ سیمینٹ بنانے والی صنعتوں نے آپسی گٹھ جوڑ کے ذریعے قیمتیں ایک خاص تناسب پر رکھی ہوئی ہیں اور باوجود زیادہ صنعتیں ہونے بھی مقابلے کی بدولت صارفین کو سستی سیمینٹ نہیں ملتی۔

موٹر گاڑیوں (آٹوموبائل) کے شعبے میں ’اقتصادی دہشت گردی‘ کا حصہ 19 رکن ہیں جو گاڑیوں اور فاضل پرزہ جات کی فروخت میں قواعد کے برخلاف زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے تین بڑے یونٹوں کی کل فروخت 130 ارب روپے سالانہ ہے جس میں منافع کم وبیش 8 ارب روپے بنتا ہے۔ صنعتوں کے منافع سے متعلق قواعد پر عملدرآمد اور مقابلے کی فضاء پر نظر رکھنے والے حکومتی ادارے اِس شعبے کے رکن ادارے بھی آپس میں گٹھ جوڑ کے ذریعے صارفین کو لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں ایسے 200 خاندان ہیں جو اقتصادی دہشت گردی کے اِس غیرمہلک طریقہ واردات (مکروہ فعل) سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ’اقتصادی دہشت گردی‘ کرنے والے پرتشدد دہشت گردوں کے برعکس قتل نہیں کرتے بلکہ گیارہ کروڑ عوام کو غربت اور کسمپرسی کی حالت میں زندہ رکھتے ہیں تاکہ اُنہیں نچوڑنے کا عمل جاری رکھا جا سکے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں 200 خاندان فاتح اُور 18 کروڑ عوام محکوموں جیسے حالات سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی جمہوریتیں اقتصادی دہشت گردی کا مقابلہ کرتی ہیں اور ہمارے ہاں اِس کی پشت پناہی اور اِسے پھلنے پھولنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں ’اقتصادی دہشت گردی‘ کا شکار ہونے والوں کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے‘ اُن کے مصائب و مشکلات کا ادارک کیا جاتا ہے۔ اُن کی محرومیوں کا مداوا کرنے کے لئے غوروخوض اُور عملی اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں فیصلہ ساز کے دل‘ دماغ اور ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Economic terrorism by Dr Farrukh Saleem

1 comment:

  1. Economic terrorism

    The 200 are winning and the 180 million are losing. Democratic governments around the world fight economic terrorism. Ours supports it

    Just imagine: nearly 90 percent of the wealth created in Pakistan over the past 10 years has gone into the coffers of the top 2 percent of the population. As a consequence, at least 60 percent of Pakistan’s population is managing to survive at or below $2 per day – that is 110 million Pakistanis surviving at or below Rs200 per day.

    Rampant corruption is not the only fact of life in Pakistan. For the record, violent terrorism killed 5,496 Pakistanis in 2014. For the record, over the past 15 years, there have been 2,979 incidents of sectarian violence in which 5,059 Pakistanis lost their lives (9,713 were injured).

    Next, the most ignored fact of Pakistani life is economic terrorism that impacts 180 million Pakistanis albeit in a non-lethal fashion. Look at the power sector: there are around 20 million electricity connections and some two dozen Independent Power Producers (IPPs). Some IPPs were guaranteed a return on equity of 15 percent but they are raking in returns of up to 42 percent per year. That is economic terrorism against at least 100 million Pakistanis; non-lethal losses amounting to Rs400 billion a year every year.

    Look at terrorism in the banking sector: there are 32 banks in the private sector and around 10 million Pakistanis with bank accounts. According to the Competition Commission of Pakistan (CCP), banks are “operating like a cartel to fleece depositors”. Imagine: One bank privatised during the first Nawaz government earns an annual return on equity of 30 percent. That is economic terrorism against 10 million Pakistanis – non-lethal losses amounting to Rs300 billion a year every year.

    Look at terrorism in the oil sector: our oil cartel has nine major members: Pakistan State Oil (PSO), Pak-Arab Refinery (PARCO), Attock Refinery Limited (ARL), Attock Petroleum, National Refinery Limited (NRL), Pakistan Refinery (PRL), Chevron/Caltex, Shell Pakistan and Total-PARCO.

    Imagine: refining margins charged by Pakistani refineries are almost twice as high as being charged by refineries outside Pakistan. Imagine: the oil cartel sucks in Rs54 billion a year from the so-called ‘deemed duty’. That is economic terrorism against 180 million Pakistanis with non-lethal losses amounting to Rs150 billion a year every year.

    Look at terrorism in the cement sector: the cartel has 21 members and annual sales approaching Rs100 billion. The CCP called it “anti-competitive behaviour” and cement manufacturers including D G Khan Cement, Lucky Cement and Maple Leaf as “habitual cartel offenders”.

    Look at terrorism in the automobile sector: the cartel has 19 members and there are gross violations of laws in new automobile sales, body repair and spare parts. Three big units have combined sales of Rs130 billion and profits approaching Rs8 billion. According to the CCP, there is massive “collusion and cartelization”.

    There are about 200 families involved in this non-lethal game of economic terrorism. To be sure, economic terrorism is not intended to kill its target – economic terrorism makes sure that at least 110 million Pakistanis remain poor, destitute and impoverished.

    To be certain, the 200 are winning and the 180 million are losing. Democratic governments around the world fight economic terrorism. Ours supports it. Democratic governments around the world protect voters who cannot protect themselves against economic terrorism. Democratic governments around the world support victims of economic terrorism. Ours sides with the ‘terrorists’.

    ReplyDelete