ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔قربانیوں کا صلہ
۔۔۔قربانیوں کا صلہ
تئیس مارچ کے دن جب پاکستان کی دفاعی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا تھا‘ پشاور
کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) میں اُن زخمیوں سے بستر بھر گئے‘ جو
’آپریشن خیبرٹو‘ میں حصہ لے رہے تھے اور انہیں تاک لگائے دشمن نے نشانہ
بنایا تھا۔ قبائلی علاقے میں جاری فوجی کاروائی کے اِس دوسرے مرحلے (راؤنڈ)
میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اندازہ ہے کہ ایک ہزار سے
پندرہ سو انتہائی خطرناک عسکریت پسند‘ جن میں غیرملکی بھی شامل ہیں اور یہ
مختلف قبائلی علاقوں سے وادئ تیراہ اُور اِس سے ملحقہ پہاڑی سلسلے میں پناہ
لئے ہوئے ہیں۔ فوجی کاروائی کا یہ سب سے خطرناک مرحلہ ہے‘ جس میں دشمن نے
بلند مقامات پر مورچے بنا رکھے ہیں اور وہ اپنی طرف آنے والے فوجی دستوں کے
جوانوں کو چن چن کر نشانہ بناتے ہیں۔ فضائی حملے بھی عسکریت پسندوں کے
خلاف کارگر ثابت نہیں ہو رہے کیونکہ سنگلاخ پہاڑوں میں بنے ہوئے قدرتی
راہداریاں‘ غاریں اور گھاٹیاں اُن کے لئے ناآشنا نہیں اور وہ اپنے ٹھکانے
تبدیل کرنے میں مقامی راستوں کے بارے علم کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
اِس منظرنامے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جن علاقوں کو پاک فوج عسکریت پسندوں سے
خالی کراتی ہے وہاں حکومت کا عمل دخل برقرار و بحال رکھنے کے لئے کوئی
اِدارہ (فورس) موجود نہیں! حقیقت حال یہ ہے کہ اگر مسند اقتدار پر بیٹھے
ہوئے حکمران اور اُن کی بے لگام انتظامیہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور
عوام کی جان و مال کی حفاظت میں مخلص ہو تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ہم چند
ہزار دہشت گردوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کی جڑیں کاٹنے میں اب تک کامیاب
نہ ہوئے ہوتے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’فوج کو قربانی کا بکرا‘‘ جبکہ اِنتظامیہ
اور سیاسی قیادت نے خود کو زیادہ سے زیادہ اِختیارات اور مراعات کے لئے
وقف کر رکھا ہے! ذرا سوچئے کہ اگلے محاذوں پر شہید کون ہو رہا ہے؟ ارض پاک
کی حفاظت کے جذبے سے سرشار ایسے نفوس کہ جنہوں نے اپنی زندگی کی بہاروں سے
معنوی شناسائی بھی حاصل نہیں کی ہوتی! فاٹا‘ اُور ایف آر ریجنز دہشت گرد
عناصر کے گڑھ بنے ہوئے ہیں جہاں پے در پے زمینی و فضائی فوجی کاروائیوں کے
باوجود اب بھی عسکریت پسندوں کی موجودگی ثابت ہے۔ اِس صورت حال میں پاک فوج
خراج تحسین (سلوٹ) کی مستحق ہے جنہوں نے ملک کو داخلی و خارجی خطرات سے
محفوظ رکھا ہوا ہے اگر یہی ذمہ داری حکمران طبقے اور انتظامیہ پر ہوتی تو
توقع نہیں تھی کہ کوئی سکھ کا سانس لے سکتا۔
پاک فوج کے عزم و حوصلے کو جتنا سراہا جائے کم ہے اور اِن کا کردار ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے لیکن جب کسی ایک علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا جاتا ہے تو وہاں حالات کو معمول پر رکھنے اور حکومت کی رٹ برقرار رکھنے کے لئے انتظامیہ اپنا کردار ادا نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایک مہم کے بعد دوسری کاروائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران ضرب عضب‘ خیبرون‘ اور خیبرٹو کے نام سے فوجی کاروائی کی گئی لیکن ان کی کامیابی اِس حد تک تو ضرور ہے کہ وقتی طور پر متعلقہ علاقوں جو کہ دشوار گزار گھاٹیوں‘ پہاڑی سلسلے اور غیرروائتی راستوں پر مشتمل ہیں کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ سات قبائلی اور چھ فرنٹیئر ریجنز (علاقوں) کے انتظامی نگران اپنے اپنے علاقوں میں دفاتر قائم کرنے اور وہاں تشریف فرما ہونے کی بجائے قریبی بندوبستی علاقوں میں رہائش و دفاتر قائم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ جو کہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں۔ جب تک قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے اپنے دفاتر متعلقہ ایجنسیوں میں اپنے دفاتر اِن علاقوں میں قائم نہیں کریں گے اُس وقت تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی فوجی کاروائی کے خاطرخواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔
پشاور سے متصل خیبرون کے بعد خیبرٹو آپریشن جس میں وادئ تیراہ سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کی ذمہ داری جن تربیت یافتہ اہلکاروں کو سونپی گئی ہیں وہ نڈر اور پہاڑ جیسا عزم وحوصلہ رکھتے ہیں لیکن محض فوجی آپریشن کافی نہیں۔ جب تک موجودہ اقتدار کے اصل مالکان (بیوروکریسی) کی طرف سے حائل رکاوٹیں ختم نہیں ہوں گی اور ہر قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی موجودگی ثابت نہیں کریں گے‘ اُس وقت تک قربانیاں اور کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ ملاکنڈ ڈویژن میں فوجی کاروائی کی کامیابی اور اس کے ثمرات اِس لئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہاں پولیس کا ایک نظام موجود تھا‘جس نے عسکریت پسندوں سے علاقوں کو واگزار کروا کر پولیس کے کنٹرول میں دے دیا۔ پولیس نے تھانے اور چوکیاں بنائیں۔ حکومت نے 7500 پولیس اور سپیشل پولیس کے 5 ہزار جوان بھرتی کئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ملاکنڈ ڈویژن میں مثالی امن دکھائی دیتا ہے۔
ضرب عضب اور خیبرون‘ خیبرٹو (تین مہمات) کے دوران پاک فوج نے ایسے مقامات پر قبضہ کیا‘ جہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی کو رسائی نہیں تھی۔ ایسے مقامات پر رسائی میں کتنے ہی جوان شہید و زخمی ہوئے۔ آخر کب تک ان چوٹیوں پر جوان بیٹھے رہیں گے۔ قوم کو پاک فوج کے سربراہ سے توقعات وابستہ ہیں کہ اگر ملک کو عسکریت پسندوں سے صاف کرنا ہے تو اس کے لئے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ایک جامع انتظامی ڈھانچہ متعارف کرایا جائے اور جو پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکار بندوبستی علاقوں میں محفوظ بیٹھے ہیں وہ اپنے دفاتر متعلقہ علاقوں میں منتقل کریں اور فرنٹیئر کور کے ساتھ مل کر وہاں کا نظم و نسق سنبھالیں۔ 2: قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کو یا تو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے یا انہیں الگ صوبے کی حیثیت سے بندوبستی علاقوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
ترجیح و تجویز ہے کہ ماضی میں مرتب کی جانے والی ایک حکمت عملی کو ازسرنو زندہ کیا جائے۔ ستمبر 2008ء سے اکتوبر 2010ء تک فرنیٹئر کور کے انسپکٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طارق خان (ہلال امتیاز ملٹری) نے پورے قبائلی علاقوں میں لیویز کے ایک منظم نظام کو نافذ کرنے کے لئے ’مرکزی ٹریننگ سنٹر‘کا تصور دیا تھا کہ شاہ کس جمرود میں ایک بڑا تربیتی مرکز بنایا جائے گا‘ جس میں تمام قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی خاصہ دار اور لیویز کو جدید تربیت دی جائے گی لیکن اُن کے عہدے سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ منصوبہ سردخانے کی نذر کر دیا گیا۔ اُس وقت سیفران کے سیکرٹری‘ اے سی ایس (فاٹا) حبیب اللہ خان خٹک بھی تربیتی مرکز کے قیام اور لیویز کی تربیت والے تصور سے آگاہ تھے اور اِس سلسلے میں کافی خط و کتابت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جسے اب بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اگر اِس منصوبے پر عمل کر لیا جاتا تو آج قبائلی علاقوں میں ایک ’منظم لیویز‘ کا نظام فعال ہوتا۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے کام اور ذمہ داریوں سے کتنی مخلص ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیٹیکل انتظامیہ کبھی نہیں چاہتی کہ وہ پشاور سے خیبرایجنسی‘ ہنگو سے اورکزئی ایجنسی اور ٹانک سے جنوبی وزیرستان اپنے دفاتر منتقل کرے۔ ہر کوئی عہدے‘ ترقی اُور مراعات چاہتا ہے۔ ہمارے پاس حکمرانوں کی کمی نہیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک حکمرانی کرنے کا خواہشمند ہے اور قربانیوں کے لئے پاک فوج کو صف اوّل میں لاکھڑا کر دیا گیا ہے!
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو چاہئے کہ قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی اِنتظامیہ اور سیاسی حکمرانوں کو اِس بات پر غور کرنے کے لئے آمادہ کریں کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کا ازسرنو تعین کریں۔ پوری قوم کی نظریں اگر پاک فوج پر لگی ہوئی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کا یہی ایک ادارہ اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مخلص ثابت ہوا ہے۔ مذکورہ فوجی کارروائیوں سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کئی ایک اضلاع اور کراچی تک عسکریت پسندوں کی طاقت کے ٹھکانے و مراکز اور افرادی قوت یا تو انجام کو پہنچ چکی ہے یا منتشر ہو چکے ہیں لیکن آخر کب تک؟
پاک فوج کے عزم و حوصلے کو جتنا سراہا جائے کم ہے اور اِن کا کردار ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے لیکن جب کسی ایک علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا جاتا ہے تو وہاں حالات کو معمول پر رکھنے اور حکومت کی رٹ برقرار رکھنے کے لئے انتظامیہ اپنا کردار ادا نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایک مہم کے بعد دوسری کاروائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران ضرب عضب‘ خیبرون‘ اور خیبرٹو کے نام سے فوجی کاروائی کی گئی لیکن ان کی کامیابی اِس حد تک تو ضرور ہے کہ وقتی طور پر متعلقہ علاقوں جو کہ دشوار گزار گھاٹیوں‘ پہاڑی سلسلے اور غیرروائتی راستوں پر مشتمل ہیں کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ سات قبائلی اور چھ فرنٹیئر ریجنز (علاقوں) کے انتظامی نگران اپنے اپنے علاقوں میں دفاتر قائم کرنے اور وہاں تشریف فرما ہونے کی بجائے قریبی بندوبستی علاقوں میں رہائش و دفاتر قائم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ جو کہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں۔ جب تک قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے اپنے دفاتر متعلقہ ایجنسیوں میں اپنے دفاتر اِن علاقوں میں قائم نہیں کریں گے اُس وقت تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی فوجی کاروائی کے خاطرخواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔
پشاور سے متصل خیبرون کے بعد خیبرٹو آپریشن جس میں وادئ تیراہ سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کی ذمہ داری جن تربیت یافتہ اہلکاروں کو سونپی گئی ہیں وہ نڈر اور پہاڑ جیسا عزم وحوصلہ رکھتے ہیں لیکن محض فوجی آپریشن کافی نہیں۔ جب تک موجودہ اقتدار کے اصل مالکان (بیوروکریسی) کی طرف سے حائل رکاوٹیں ختم نہیں ہوں گی اور ہر قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی موجودگی ثابت نہیں کریں گے‘ اُس وقت تک قربانیاں اور کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ ملاکنڈ ڈویژن میں فوجی کاروائی کی کامیابی اور اس کے ثمرات اِس لئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہاں پولیس کا ایک نظام موجود تھا‘جس نے عسکریت پسندوں سے علاقوں کو واگزار کروا کر پولیس کے کنٹرول میں دے دیا۔ پولیس نے تھانے اور چوکیاں بنائیں۔ حکومت نے 7500 پولیس اور سپیشل پولیس کے 5 ہزار جوان بھرتی کئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ملاکنڈ ڈویژن میں مثالی امن دکھائی دیتا ہے۔
ضرب عضب اور خیبرون‘ خیبرٹو (تین مہمات) کے دوران پاک فوج نے ایسے مقامات پر قبضہ کیا‘ جہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی کو رسائی نہیں تھی۔ ایسے مقامات پر رسائی میں کتنے ہی جوان شہید و زخمی ہوئے۔ آخر کب تک ان چوٹیوں پر جوان بیٹھے رہیں گے۔ قوم کو پاک فوج کے سربراہ سے توقعات وابستہ ہیں کہ اگر ملک کو عسکریت پسندوں سے صاف کرنا ہے تو اس کے لئے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ایک جامع انتظامی ڈھانچہ متعارف کرایا جائے اور جو پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکار بندوبستی علاقوں میں محفوظ بیٹھے ہیں وہ اپنے دفاتر متعلقہ علاقوں میں منتقل کریں اور فرنٹیئر کور کے ساتھ مل کر وہاں کا نظم و نسق سنبھالیں۔ 2: قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کو یا تو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے یا انہیں الگ صوبے کی حیثیت سے بندوبستی علاقوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
ترجیح و تجویز ہے کہ ماضی میں مرتب کی جانے والی ایک حکمت عملی کو ازسرنو زندہ کیا جائے۔ ستمبر 2008ء سے اکتوبر 2010ء تک فرنیٹئر کور کے انسپکٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طارق خان (ہلال امتیاز ملٹری) نے پورے قبائلی علاقوں میں لیویز کے ایک منظم نظام کو نافذ کرنے کے لئے ’مرکزی ٹریننگ سنٹر‘کا تصور دیا تھا کہ شاہ کس جمرود میں ایک بڑا تربیتی مرکز بنایا جائے گا‘ جس میں تمام قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی خاصہ دار اور لیویز کو جدید تربیت دی جائے گی لیکن اُن کے عہدے سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ منصوبہ سردخانے کی نذر کر دیا گیا۔ اُس وقت سیفران کے سیکرٹری‘ اے سی ایس (فاٹا) حبیب اللہ خان خٹک بھی تربیتی مرکز کے قیام اور لیویز کی تربیت والے تصور سے آگاہ تھے اور اِس سلسلے میں کافی خط و کتابت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جسے اب بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اگر اِس منصوبے پر عمل کر لیا جاتا تو آج قبائلی علاقوں میں ایک ’منظم لیویز‘ کا نظام فعال ہوتا۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے کام اور ذمہ داریوں سے کتنی مخلص ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیٹیکل انتظامیہ کبھی نہیں چاہتی کہ وہ پشاور سے خیبرایجنسی‘ ہنگو سے اورکزئی ایجنسی اور ٹانک سے جنوبی وزیرستان اپنے دفاتر منتقل کرے۔ ہر کوئی عہدے‘ ترقی اُور مراعات چاہتا ہے۔ ہمارے پاس حکمرانوں کی کمی نہیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک حکمرانی کرنے کا خواہشمند ہے اور قربانیوں کے لئے پاک فوج کو صف اوّل میں لاکھڑا کر دیا گیا ہے!
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو چاہئے کہ قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی اِنتظامیہ اور سیاسی حکمرانوں کو اِس بات پر غور کرنے کے لئے آمادہ کریں کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کا ازسرنو تعین کریں۔ پوری قوم کی نظریں اگر پاک فوج پر لگی ہوئی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کا یہی ایک ادارہ اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مخلص ثابت ہوا ہے۔ مذکورہ فوجی کارروائیوں سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کئی ایک اضلاع اور کراچی تک عسکریت پسندوں کی طاقت کے ٹھکانے و مراکز اور افرادی قوت یا تو انجام کو پہنچ چکی ہے یا منتشر ہو چکے ہیں لیکن آخر کب تک؟
![]() |
Military solution is not enough to win the war against terrorism |
No comments:
Post a Comment