Monday, March 2, 2015

Mar2015: Peshawar Police Shortcomings

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیسنگ: کارکردگی‘ اہداف‘ مشکلات
پشاور میں اَمن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے ’سیکورٹی اِسٹیبلشمنٹ‘ کو درپیش چیلنجز‘ اُور کارکردگی کا اَجمالی جائزہ لیا جائے تو نہ صرف ’خوشگوار حیرت‘ ہوتی ہے بلکہ ’بہتری کے آثار‘ دیکھ کر اُمید ہو چلی ہے کہ ۔۔۔ ’’پشاور پولیس سے وابستہ توقعات یکے بعد دیگرے پوری ہونے میں کوئی اَمر مانع نہیں رہا‘ اُور عنقریب پھولوں کا شہر‘ اَمن کا گہوارہ بن جائے گا۔‘‘ پشاور پولیس کے سربراہ اِعجاز اَحمد خان سے ہوئی مختصر بات چیت سے معلوم ہوا کہ ’’خیبرپختونخوا حکومت قانون نافذ کرنے والے اِس اِدارے میں عملی طور پر ’مداخلت‘ نہیں کر رہی جبکہ مؤثر پولیسنگ کے اہداف حاصل کرنے میں‘ ممکنہ حد سے زیادہ تعاون کر رہی ہے‘ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔‘‘ اِعجاز خان پولیس کے صوبائی سربراہ کی رہنمائی کو بھی سراہتے ہیں‘ جن کی دردمندی‘ ذاتی دلچسپی و فرض شناسی سے ’’پولیس کو مستعد و فعال بنانے میں بڑی مدد ملی ہے۔‘‘

پشاور پولیس کیا ہے؟ دو مارچ دو ہزار پندرہ کے روز مرتب کئے جانے والے اَعدادوشمار کے مطابق پشاور میں کل 31 پولیس اِسٹیشن اور 76 چوکیاں ہیں۔ کل افرادی قوت 5800 ہے جن میں سے 1980 اہلکار بندوبستی اور قبائلی علاقوں کے سرحد پر آمدورفت (افراد و گاڑیوں کی جانچ پڑتال) کر رہے ہیں جس کی وجہ سے تھانہ جات کی نفری میں غیرمعمولی طور پر کمی آئی ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق پشاور کی آبادی 67 لاکھ سے زیادہ ہے‘ جس میں قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے اُور افغان مہاجرین بھی شامل ہیں۔ منطقی ضرورت تو یہ ہے کہ ہر 350 افراد پر ایک پولیس اہلکار ہونا چاہئے اور موجودہ آبادی کے لحاظ سے پولیس کے آپریشنل اہلکاروں کی تعداد (افرادی قوت) کسی بھی طرح ’’19 ہزار‘‘ سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ضرورت اِس وجہ سے اہم ہے کہ پشاور تین اطراف سے قبائلی علاقوں (جنہیں عرف عام میں ’علاقہ غیر‘ بھی کہا جاتا ہے) میں گھرا ہوا ہے بلکہ محصور ہے اور اگر فی الوقت بھی دیکھا جائے تو پشاور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد اِن قبائلی علاقوں کی سرحدوں پر ہی تعینات ہے۔ مؤثر پولیسنگ کا ہدف اَفرادی قوت و تکنیکی وسائل کی کمی دور کئے بناء ممکن نہیں اُور اُمید کی جا سکتی ہے کہ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت اِرسال کردہ ’ڈیمانڈ‘ کے مطابق وسائل مہیا کرے گی۔

پشاور کو آبادی کے تناسب سے نئے پولیس اسٹشینوں (تھانہ جات) کی ضرورت ہے؟ اِس رائے سے کسی حد تک فیصلہ ساز اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مالی وسائل کم ہونے کا ادارک کرتے ہوئے فی الوقت صرف افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے تو اس سے مطلوبہ اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن مضافاتی و دیہی علاقوں پر مشتمل تھانہ جات بالخصوص ’تھانہ بڈھ بیر و چمکنی‘ کی حدود چونکہ وسیع علاقوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے‘ جسے دو یا تین تھانہ جات میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اندرون پشاور نئے تھانہ جات کے قیام کے لئے اراضی کا حصول بھی مشکل ہوگا‘ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ دستیاب مالی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ’افرادی قوت‘ میں اضافہ کیا جائے۔ پشاور میں تجاوزات کے مرحلہ وار خاتمے سے متعلق عملی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے پشاور پولیس کے سربراہ نے کہا کہ ’’سبزی منڈی اور چوک یادگار میں سڑک کی چوڑائی صرف پندرہ فٹ تھی جسے تجاوزات کا خاتمہ کرکے ’چالیس فٹ‘ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اندرون پشاور کی وہ تمام سڑکیں جہاں سے پیدل گزرنا بھی ناممکن حد تک دشوار ہوا کرتا تھا‘ اُن کی کشادگی کے بعد نہ صرف ٹریفک سے جڑے مسائل کا خاتمہ ہوگا بلکہ ’سیکورٹی خدشات‘ بھی رفع ہو جائیں گے۔ اعجاز خان کہتے ہیں کہ ’’تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر اہل پشاور چاہتے ہیں کہ جرائم کا خاتمہ ہو‘ تو اُنہیں انفرادی و اجتماعی حیثیتوں میں خود بھی قانون کا احترام کرنا ہوگا۔ اگر اہل پشاور چاہتے ہیں کہ ٹریفک کی روانی رہے تو اُنہیں انفرادی واجتماعی حیثیتوں میں تجاوزات ختم کرنا ہوں گی یا تجاوزات قائم کرنے والوں کو اظہار لاتعلقی کرنا ہوگا۔ حکومتی ادارے عوام کی خدمت اور معاشرے پر مسلط ہونے والے عناصر کے خلاف ڈھال کا کام کرتے ہیں لیکن اگر معاشرہ منظم ہوجائے‘ اپنے گردوپیش سے مطلع ہو‘ ہر کوئی اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے‘ اپنی نجی (گھریلو) ذمہ داریوں کی طرح سماجی و معاشرتی فرائض کی ادائیگی کا بھی خیال کرے‘ عدل پر مبنی معاشرت اختیار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل کے سراُٹھانے سے قبل ہی اُن کا حل دریافت نہ کر لیا جائے۔

سولہ دسمبر کے ’سانحۂ پشاور‘ کے بعد قبائلی علاقوں سے متصل سرحد پر 30 نئی چوکیاں بنائی گئیں ہیں‘ جہاں تعینات پولیس اِہلکار پشاور کے مختلف تھانہ جات سے چنی گئی ہے۔ اَندرون پشاور ’سیکورٹی چیلنجز‘ اپنی جگہ موجود ہیں۔ حساس تنصیبات و مقامات کی نگرانی کے لئے ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے‘ عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر نصب کئے ہیں لیکن سرشام ’سٹریٹ لائٹس‘ نہ ہونے کی وجہ سے نگرانی کا یہ عمل بھی بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک طرف گلی کوچوں میں گشت کے لئے نفری موجود نہیں اور دوسری جانب ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن سسٹم‘ اپنا مقصد پورا نہیں کر رہے۔ حکومت کی جانب سے گورنر ہاؤس‘ پولیس لائنز‘ کورٹس‘ سنٹرل جیل‘ ایم پی اے ہاسٹل اور سول سیکرٹریٹ کے اردگرد 165 کیمرے نصب ہیں‘ جن کی نگرانی چیف سیکرٹری آفس کے تہہ خانے میں رکھی گئی ہے لیکن پشاور شہر کے اہم و مصروف بازاروں کی نگرانی کا مربوط نظام موجود نہیں۔ افرادی قوت کی کمی کے علاؤہ پشاور پولیس کی موبائل گاڑیوں کی تعداد میں بھی ہر سال کمی آ رہی ہے اور ایک کے بعد ایک گاڑی ناکارہ ہو رہی ہے۔ سال 2010-11ء کے دوران پشاور پولیس کے پاس 253 موبائل (گشتی) گاڑیاں تھیں جو خاطرخواہ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے سال 2013ء کے دوران 237 اور سال 2014ء کے اِختتام تک 154 کارآمد حالت میں دستیاب ہیں۔ جب پشاور پولیس کے پاس خاطرخواہ اَفرادی قوت کی کمی ہو‘ گشت کے لئے گاڑیاں اور اُن کی ضروریات (اِیندھن و دیکھ بھال) پوری کرنے کے لئے مالی وسائل بھی دستیاب نہ ہوں‘ تو گلی کوچوں‘ محلوں میں رونما ہونے والی ڈکیتیوں کی روک تھام‘ دہشت گردی اور منظم جرائم کا قلع قمع محض نیک تمناؤں سے کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔
Policing in Peshawar

No comments:

Post a Comment