ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
طرز نگرانی و حکمرانی
طرز نگرانی و حکمرانی
گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے متعلق مقدمات کی سماعت ’الیکشن
کمیشن آف پاکستان‘ کا ایک خصوصی شعبہ ’الیکشن ٹریبونل‘ کر رہا ہے جس نے
جنوری دو ہزار پندرہ (ایک ماہ) کے دوران صرف چھ درخواستوں پر فیصلہ سنایا‘
جس سے کل حل شدہ مقدمات کی تعداد 364 ہو گئی جبکہ انتخابات سے متعلق کل
عذرداریوں کی تعداد 411 تھی۔ ایسی درخواستیں جن پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں
کیا جاسکا اُن کی تعداد 47 ہے!
کسی جمہوری نظام کی بنیاد ’صاف وشفاف‘ انتخابات ہوتے ہیں لیکن اگر اِن انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات عام ہوں گے تو اِس سے یہ تاثر اُبھرے گا کہ پورا نظام چند ایسے خاندانوں کے ہاتھ غلام بنا ہوا ہے‘ جو کسی قاعدے قانون کے پابند نہیں اور نہ ہی اُن کے خلاف ادارے اِس قدر بااختیار ہیں کہ کاروائی کر سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل نے جن 364 مقدمات کا اب تک فیصلہ سنایا ہے اُن میں 154 ایسے ہیں جنہیں تکنیکی اعتبار پر خارج کر دیا گیا یعنی اُن کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی گئی جبکہ 43 درخواستیں سماعت کے لئے منظور کی گئیں اور ان میں سے 25 بعدازاں اِس لئے خارج کردی گئیں کیونکہ جنہوں نے انتخابات میں بے قاعدگیوں سے متعلق درخواستیں دی تھیں وہ اُن کی سماعت کے لئے نہیں آئے۔30 دھاندلی کی شکایات واپس لے لی گئیں اور صرف ایک سو دس ایسی شکایات تھیں جن سے متعلق باقاعدہ سماعت کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نامی ایک غیرسرکاری ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق دو درخواستیں ایسی بھی خارج کی گئیں جن کے بارے میں کوئی ریکارڈ یا وضاحت موجود نہیں اور باوجود کوشش بھی وہ وجوہات معلوم نہیں کی جاسکیں جن کی بنیاد پر درخواستیں خارج کی گئیں تھیں۔ جن 43 درخواستوں کو سماعت کے لئے منظور کیا گیا اُن میں سے 10آزاد اُمیدواروں‘ 9 پاکستان پیپلزپارٹی اور 9ہی درخواستیں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے نامزد اُمیدواروں کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی کام کرنے والے الیکشن ٹریبونل قانونی طور پر اِس بات کا پابند ہے کہ وہ کسی بھی درخواست پر ایک سو بیس دن (چار ماہ) کے اندر فیصلہ سنائے گا۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد ملک بھر میں 14 الیکشن ٹربیونل بنائے گئے تھے جن میں صرف بلوچستان کے تین ٹربیونلز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے تمام عذرداریوں کو نمٹایا۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم الیکشن ٹربیونل بھی فعال پایا گیا جس نے تمام درخواستیں نمٹائیں جبکہ سکھر (سندھ) میں قائم ٹربیونل کے مقدمات کراچی منتقل کر دیئے گئے۔ الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ سازوں ’ریٹرنگ آفیسرز‘ کے عہدوں کی مدت جو کہ 31 دسمبر 2014ء کو ختم ہو رہی تھی‘ اس میں 28 فروری 2015ء تک توسیع کی گئی لیکن الیکشن کمیشن کی یہ توقع بھی پوری نہ ہوسکی اور پشاور‘ ایبٹ آباد‘ راولپنڈی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ بہاولپور‘ حیدر آباد اور کراچی کے الیکشن ٹربیونلز اپنے اپنے حصے کا کام توسیع کے باوجود نہ نمٹا سکے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ تین مارچ کے روز دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کو ایک سال‘ نو ماہ‘ بیس دن گزر چکے ہیں‘ لیکن انتخابات سے متعلق اعتراضات پر مبنی عذرداریوں کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ باالفاظ دیگر 47 ایسے مقدمات موجود ہیں جن پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے ہاں ایسے اراکین اسمبلی بھی ہیں جن کا انتخاب مشکوک ہے لیکن اِس کے باوجود اُن کی اسمبلی رکنیت بحال ہے اور وہ منتخب نمائندہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں‘ ایوانوں میں حاضری بھی لگاتے ہیں‘ تنخواہیں اور مراعات بھی پاتے ہیں اور چند ایک وزارتوں پر بھی فائز ہیں! ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں‘ جن میں جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر منتخب ہونے والوں کے مقدمات کو اِس قدر طول دیا گیا کہ وہ اپنی بطور رکن اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرکے خوب تسلی کے ساتھ گھر چلے گئے لیکن اُن کی جعلی اسناد سے متعلق فیصلہ عہدوں کی مدت ختم ہونے تک نہ ہوسکا! بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا یہ بیان تو جگ ہنسائی کا سبب بھی بنا کہ ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی!‘‘ شاید اسی کی بنیاد پر انتخابی نتائج پر فیصلے نہیں سنائے جا رہے‘ کہ انتخابات میں کامیاب ہونے والا تو کامیاب ہی ہوتا ہے چاہے جعل سازی اور دھاندلی ہی سے کیوں نہ جیتا ہو!
دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات پر ملک کی سبھی چھوٹی بڑی جماعتوں نے اعتراضات کئے اور دھاندلی کی شکایات جب مقررہ قواعد کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے سامنے پیش ہوئیں تو اُن پر فیصلہ کرنے میں چند ہفتے یا مہینے نہیں بلکہ 94 ہفتوں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے! جو الیکشن کے دن کامیاب قرار پائے انہوں نے اپنے حق میں فیصلہ چاہے جس صورت بھی کرایا ہو‘ اِس بات کا خوف نہیں رکھتے کہ اُن کے مخالفین کی شینوائی ہوگی۔ جن انتخابات کے نتائج سے متعلق حکمراں و حزب اختلاف کی جماعتیں یکساں طور پر معترض ہوں‘ اُنہیں جائز قرار دینے والے جس ’’طرز نگرانی و حکمرانی‘‘کو جمہوری قرار دے کر عوام کو قائل کرنے کی سعی کر رہے ہیں‘ اُس سے سیاسی اختلافات بڑھیں گے‘ سرکاری اداروں اداروں کی ساکھ الگ سے متاثر ہوگی اور خود کو آزاد و شفاف کہلانے والے سرکاری اداروں عوام کا رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہے گا۔
ہمیں اِس بات پر تو فخر ہے کہ جمہوریت کا لاحقہ ہمارے ملک کے نام کا حصہ ہے لیکن کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے‘ جس میں اختلاف رکھنے والے نکتۂ نظر کی اہمیت ہی نہ ہو؟ انتخابی عذرداریوں کو نمٹانے کے سست عمل نے پورے جمہوری عمل کی صداقت و دیانت پر ایسے سوالات اُٹھا دیئے ہیں‘ جن کے جوابات میں تاخیر ناقابل فہم ہے۔ ’موجودہ طرزنگرانی و حکمرانی‘ کو جاری و ساری رکھنے سے جمہوریت مضبوط و مستحکم نہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور تر ہوتی چلی جائے گی۔ جن دانشوروں نے جمہوریت کے لئے یہ اصطلاح تخلیق کی کہ یہ اچھی آمریت سے بہتر ہے وہ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں کیونکہ عام انتخابات کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہم سینیٹ انتخابات تک آ پہنچے ہیں اور منتخب نمائندوں کی خریدوفروخت سے متعلق اطلاعات و مشکوک طرز عمل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ’’موجودہ طرز حکمرانی سے ’یک نکاتی آمریت‘ لاکھ درجے بہتر تھی!
کسی جمہوری نظام کی بنیاد ’صاف وشفاف‘ انتخابات ہوتے ہیں لیکن اگر اِن انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات عام ہوں گے تو اِس سے یہ تاثر اُبھرے گا کہ پورا نظام چند ایسے خاندانوں کے ہاتھ غلام بنا ہوا ہے‘ جو کسی قاعدے قانون کے پابند نہیں اور نہ ہی اُن کے خلاف ادارے اِس قدر بااختیار ہیں کہ کاروائی کر سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل نے جن 364 مقدمات کا اب تک فیصلہ سنایا ہے اُن میں 154 ایسے ہیں جنہیں تکنیکی اعتبار پر خارج کر دیا گیا یعنی اُن کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی گئی جبکہ 43 درخواستیں سماعت کے لئے منظور کی گئیں اور ان میں سے 25 بعدازاں اِس لئے خارج کردی گئیں کیونکہ جنہوں نے انتخابات میں بے قاعدگیوں سے متعلق درخواستیں دی تھیں وہ اُن کی سماعت کے لئے نہیں آئے۔30 دھاندلی کی شکایات واپس لے لی گئیں اور صرف ایک سو دس ایسی شکایات تھیں جن سے متعلق باقاعدہ سماعت کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نامی ایک غیرسرکاری ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق دو درخواستیں ایسی بھی خارج کی گئیں جن کے بارے میں کوئی ریکارڈ یا وضاحت موجود نہیں اور باوجود کوشش بھی وہ وجوہات معلوم نہیں کی جاسکیں جن کی بنیاد پر درخواستیں خارج کی گئیں تھیں۔ جن 43 درخواستوں کو سماعت کے لئے منظور کیا گیا اُن میں سے 10آزاد اُمیدواروں‘ 9 پاکستان پیپلزپارٹی اور 9ہی درخواستیں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے نامزد اُمیدواروں کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی کام کرنے والے الیکشن ٹریبونل قانونی طور پر اِس بات کا پابند ہے کہ وہ کسی بھی درخواست پر ایک سو بیس دن (چار ماہ) کے اندر فیصلہ سنائے گا۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد ملک بھر میں 14 الیکشن ٹربیونل بنائے گئے تھے جن میں صرف بلوچستان کے تین ٹربیونلز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے تمام عذرداریوں کو نمٹایا۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم الیکشن ٹربیونل بھی فعال پایا گیا جس نے تمام درخواستیں نمٹائیں جبکہ سکھر (سندھ) میں قائم ٹربیونل کے مقدمات کراچی منتقل کر دیئے گئے۔ الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ سازوں ’ریٹرنگ آفیسرز‘ کے عہدوں کی مدت جو کہ 31 دسمبر 2014ء کو ختم ہو رہی تھی‘ اس میں 28 فروری 2015ء تک توسیع کی گئی لیکن الیکشن کمیشن کی یہ توقع بھی پوری نہ ہوسکی اور پشاور‘ ایبٹ آباد‘ راولپنڈی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ بہاولپور‘ حیدر آباد اور کراچی کے الیکشن ٹربیونلز اپنے اپنے حصے کا کام توسیع کے باوجود نہ نمٹا سکے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ تین مارچ کے روز دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کو ایک سال‘ نو ماہ‘ بیس دن گزر چکے ہیں‘ لیکن انتخابات سے متعلق اعتراضات پر مبنی عذرداریوں کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ باالفاظ دیگر 47 ایسے مقدمات موجود ہیں جن پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے ہاں ایسے اراکین اسمبلی بھی ہیں جن کا انتخاب مشکوک ہے لیکن اِس کے باوجود اُن کی اسمبلی رکنیت بحال ہے اور وہ منتخب نمائندہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں‘ ایوانوں میں حاضری بھی لگاتے ہیں‘ تنخواہیں اور مراعات بھی پاتے ہیں اور چند ایک وزارتوں پر بھی فائز ہیں! ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں‘ جن میں جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر منتخب ہونے والوں کے مقدمات کو اِس قدر طول دیا گیا کہ وہ اپنی بطور رکن اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرکے خوب تسلی کے ساتھ گھر چلے گئے لیکن اُن کی جعلی اسناد سے متعلق فیصلہ عہدوں کی مدت ختم ہونے تک نہ ہوسکا! بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا یہ بیان تو جگ ہنسائی کا سبب بھی بنا کہ ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی!‘‘ شاید اسی کی بنیاد پر انتخابی نتائج پر فیصلے نہیں سنائے جا رہے‘ کہ انتخابات میں کامیاب ہونے والا تو کامیاب ہی ہوتا ہے چاہے جعل سازی اور دھاندلی ہی سے کیوں نہ جیتا ہو!
دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات پر ملک کی سبھی چھوٹی بڑی جماعتوں نے اعتراضات کئے اور دھاندلی کی شکایات جب مقررہ قواعد کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے سامنے پیش ہوئیں تو اُن پر فیصلہ کرنے میں چند ہفتے یا مہینے نہیں بلکہ 94 ہفتوں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے! جو الیکشن کے دن کامیاب قرار پائے انہوں نے اپنے حق میں فیصلہ چاہے جس صورت بھی کرایا ہو‘ اِس بات کا خوف نہیں رکھتے کہ اُن کے مخالفین کی شینوائی ہوگی۔ جن انتخابات کے نتائج سے متعلق حکمراں و حزب اختلاف کی جماعتیں یکساں طور پر معترض ہوں‘ اُنہیں جائز قرار دینے والے جس ’’طرز نگرانی و حکمرانی‘‘کو جمہوری قرار دے کر عوام کو قائل کرنے کی سعی کر رہے ہیں‘ اُس سے سیاسی اختلافات بڑھیں گے‘ سرکاری اداروں اداروں کی ساکھ الگ سے متاثر ہوگی اور خود کو آزاد و شفاف کہلانے والے سرکاری اداروں عوام کا رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہے گا۔
ہمیں اِس بات پر تو فخر ہے کہ جمہوریت کا لاحقہ ہمارے ملک کے نام کا حصہ ہے لیکن کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے‘ جس میں اختلاف رکھنے والے نکتۂ نظر کی اہمیت ہی نہ ہو؟ انتخابی عذرداریوں کو نمٹانے کے سست عمل نے پورے جمہوری عمل کی صداقت و دیانت پر ایسے سوالات اُٹھا دیئے ہیں‘ جن کے جوابات میں تاخیر ناقابل فہم ہے۔ ’موجودہ طرزنگرانی و حکمرانی‘ کو جاری و ساری رکھنے سے جمہوریت مضبوط و مستحکم نہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور تر ہوتی چلی جائے گی۔ جن دانشوروں نے جمہوریت کے لئے یہ اصطلاح تخلیق کی کہ یہ اچھی آمریت سے بہتر ہے وہ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں کیونکہ عام انتخابات کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہم سینیٹ انتخابات تک آ پہنچے ہیں اور منتخب نمائندوں کی خریدوفروخت سے متعلق اطلاعات و مشکوک طرز عمل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ’’موجودہ طرز حکمرانی سے ’یک نکاتی آمریت‘ لاکھ درجے بہتر تھی!
![]() |
Governance & way of governance |
No comments:
Post a Comment